پردہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
نام کتاب​
پردہ​
تالیف​
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین​
ترجمہ​
ڈاکٹر حافظ عبدالرشید اظہر​
 
مقدمہ
الحمدللہ نحمدہ و نستعینہ ونستغفہ،ونعوذ باللہ من شرور انفسنا امن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ واشھد ان لا الہ الا للہ وحدہ لا شریک لہ وان محمدا عبدہ ورسولہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ امن تبعھم باحسان وسلم تسلیما کثیرا،اما بعد:
اللہ رب العزت نے حضرت محمد ﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا،تاکہ آپ تمام انسانوں کو ان کے غالب وستودہ صفات پروردگار کے حکم کے مطابق اندھیروں سے روشنی کی طرف نکال لائیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو عبادت کی حقیقت واضح کرنے کے لیے مبعوث فرمایا بندگی کا اظہار صرف اسی طرح ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر کی مکمل اطاعت اور اس کی منع کردہ اشیاء سے مکمل اجتناب کیا جائے،نیز اس کے احکام عالیہ کو خواہشات و شہوات نفسانیہ پر مقدم کرتے ہوئے اس کے حضور خاکساری اور انتہائی تواضع کی جائے۔سعودی عرب،جو وحی و رسالت کا مرکز اور حیا و حشمت کا گہوارہ ہے،وہاں ایک مدت سے اس معاملے میں لوگ سیدھے راستے پر گامزن تھے۔عورتیں چادریں وغیرہ اوڑھ کر مکمل پردہ کر کے گھر سے نکلا کرتی تھیں۔غیر محرم مردوں کے ساتھ آزادانہ میل جول کا تصور تک ان میں نہ تھا۔بحمداللہ مملکت سعودیہ کے اکثر شہروں میں آج بھی یہی صورت حال ہے۔لیکن اس دور میں جبکہ کچھ لوگوں نے پردے کے متعلق نا مناسب انداز میں گفتگو شروع کر دی ہے،ان لوگوں کو دیکھ کر جو پردے کے قائل ہی نہیں یا کم از کم چہرے کو کھلا رکھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ،ہمارے ہاں بھی کچھ لوگ شریعت مطہرہ کے اس حکم بالخصوص چہرہ ڈھانپنے کے متعلق غلط فہمی کا شکار ہونے لگے ہیں۔ان کی طرف سے یہ سوال کی جانے لگا ہے کہ پردہ واجب ہے یا مستحب؟یہ شرعی حکم ہے یا اس معاملہ میں ماحول،عادات اور رسم و رواج کو پیش نظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیے؟کیا ایسا تو نہیں کہ اس کی کوئی شرعی حیثیت ہی نہ ہو کہ اس کے واجب یا مستحب ہونے کا حکم لگایا جا سکے؟​
 
اس قسم کے شکوک و شبہات ،غلط فہمیوں کے ازالے اور حقیقت حال کی وضاحت کے لیے میں نے مناسب سمجھا کہ وہ دلائل مرتب کر دوں جو اس کا حکم واضح کرنے کے لیے مجھے میسر آئیں۔اللہ عزوجل کی رحمت سے اُمید ہے کہ یہ رسالہ توضیح حق میں ممدو و معاون ثابت ہو گا ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائے جو خود بھی ہدایت یافتہ ہیں اور دوسروں کو بھی راہ راست کی طرف بلاتے ہیں۔وہی لوگ حق کو جانتے ہیں اور اس کی پیروی کرتے ہیں۔​
نبی ﷺ کی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل بھی تھا۔آپ (ﷺ) نے ہر طریقے سے فضائل کی دعوت دی۔رذائل اور برے اخلاق کو بیخ و بن سے اکھاڑ اور لوگوں کو ان رذائل سے بچنے کی ہر ممکن طریقے سے تلقین فرمائی۔اس طرح شریعت محمدیہ ہر لحاظ سے کامل ہو کر سامنے آئی۔اب وہ اپنی تکمیل و ترتیب کے لیے مخلوق کی جانب سے کسی کاوش کی محتاج نہیں کیونکہ یہ دانا اور خبردار رب کی جانب سے نازل کردہ شریعت ہے جو اپنے بندوں کی اصلاح کے طریقوں میں خوب باخبر اور ان کے لیے بے پایاں رحمت والا ہے۔​
رسول اکرم ﷺ کو جن اعلیٰ اخلاق کے ساتھ مبعوث کیا گیا،ان میں سے ایک نہایت بلند مرتبہ اور گراں قدر وصف "حیا" ہے جسے آپ ﷺ نے ایمان کا جز اور اس کی شاخوں میں سے ایک شاخ قرار دیا ہے۔کوئی عقل مند اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ عورت کا با وقار اور ایسے عادات و اطوار کے ساتھ رہنا جو اسے مشکوک مقامات اور فتنوں سے دور رکھیں ،اس حیا کا حصہ ہیں جس کا عورت کو اسلامی شریعت اور اسلامی معاشرے میں حکم دیا گیا ہے۔اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ عورت کا اپنے چہرے اور جسم کے دیگر پُر کشش مقامات کو ڈھانپ کر با پردہ رہنا ہی اس کے لیے سب سے بڑا وقار ہے جس سے وہ اپنے آپ کو آراستہ کر سکتی ہے،وباللہ التوفیق۔​
محمد بن صالح العثیمین
 
باب 1​
چہرے کے پردے کا وجوب
ہر مسلمان کو چاہیے کہ غیر محرم مردوں سے عورت کا پردہ کرنا اور منہ ڈھانپنا فرض ہے۔ اس کی فرضیت کے دلائل رب العزت کی کتاب عظیم اور نبی رحمت ﷺ کی سنت مطہرہ میں موجود ہیں۔اس کے علاوہ اجتہاد اور درست فقہی قیاس بھی اسی کے متقاضی ہیں۔​
قرآن حکیم سے چند دلائل
پہلی دلیل:​
ارشاد باری تعالیٰ ہے:​
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَٰرِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّٰبِعِينَ غَيْرِ أُو۟لِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا۟ عَلَىٰ عَوْرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوٓا۟ إِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿31﴾
ترجمہ: اور ایمان والیوں سے کہہ دو کہ اپنی نگاہ نیچی رکھیں اور اپنی عصمت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اوراپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اوراپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے اوراے مسلمانو تم سب الله کے سامنے توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ(سورۃ النور،آیت 31)​
یہ آیت مبارکہ چہرے کے پردے کے وجوب پر مندرجہ ذیل طریقوں سے دلالت کرتی ہے:​
(1)اللہ عزوجل نے مومن عورتوں کو اپنی عصمت کی حفاظت کا حکم دیا ہے اور عصمت کی حفاظت کے حکم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ تمام وسائل و ذرائع اختیار کیے جائیں جو اس مقصد کے حصول میں مددگار ہو سکتے ہیں اور ہر عقلمند آدمی جانتا ہے کہ چہرے کا پردہ عصمت کی حفاظت کے منجملہ وسائل میں سے ہے کیونکہ چہرہ کھلا رکھنا غیر محرم مردوں کے لیے اس کی طرف دیکھنے کا ذریعہ بنتا ہے اور مردوں کو اس کے خدوخال کا جائزہ لینے کا موقع ملتا ہے جس سے بات میل ملاقات بلکہ ناجائز تعلقات تک جا پہنچتی ہے۔حدیث نبوی ہے:​
(العینان تزنیان وزناھما النظر)
"آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں اور ان کا زنا (ناجائز) دیکھا ہے۔"(مسند احمد:2/343)​
پھر رسول اللہ ﷺ نے ہاتھ پاؤں وغیرہ کے زنا کا ذکر کرنے کے بعد آخ میں فرمایا:​
(ترجمہ)شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب۔(مسند احمد: 2/343)​
لہذا جب چہرے کا پردہ حفظ ناموس وعصمت کا ذریعہ ٹھہرا تو وہ بھی اس طرح فرض ہو گا جس طرح کہ حفظ ناموس و عصمت فرض ہے۔اُن وسائل و ذرائع کا بھی وہی حکم ہوتا ہے جو ان مقاصد کے حصول کے لیے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔​
(2)اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:​
وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ
ترجمہ: "اور وہ اپنے گریبانوں پر ڈوپٹے ڈال لیا کریں۔"(سورۃ النور،آیت 31)​
خمار (جس کی جمع خمر ہے ) اس کپڑے کو کہتے ہیں جسے عورت اپنا سر ڈھانپنے کے لیے اوڑھتی ہے،مثلا برقعے کا نقاب وغیرہ۔جب عورت کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنے سینے پر دوپٹہ ڈال کر رکھے تو چہرہ ڈھانپنا بھی فرض ہو گا کیونکہ یا تو چہرہ لازما اس حکم میں داخل ہو جاتا ہے یا پھر قیاس صحیح اس کا تقاضا کرتا ہے۔وہ اس طرح کہ جب گردن و سینہ کو ڈھانپنا فرض ہے تو چہرے کے پردے کی فرضیت تو بدرجہ اولیٰ ہونی چاہیے کیونکہ وہی خوبصورتی کا مظہر اور فتنے کا موجب ہے۔اور ظاہری حسن کے متلاشی صرف چہرہ ہی دیکھتے ہیں۔چہرہ خوبصورت ہو تو باقی اعضاء کو زیادہ اہمیت کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا ۔جب کہا جاتا ہے یہ ہے کہ فلاں خوبصورت ہے تو اس سے بھی چہرے کا جمال ہی مراد ہوتا ہے ۔اس سے واضح ہوا کہ چہرے کا حسن و جمال ہی پوچھتے اور بتانے والوں کی گفتگو کا محور ہوتا ہے۔​
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں کیسے ممکن ہے کہ حکمت پر مبنی شریعت سینہ و گردن کے پردے کا تو حکم دے لیکن چہرہ کھلا رکھنے کی رخصت دے۔​


(3)اللہ تعالیٰ نے زینت کے اظہار سے بالکل منع کر دیا ہے۔اس حکم سے صرف وہ زینت مستثنی ہے جس کے اظہار سے کوئی چارہ کار ہی نہیں،مثلا بیرونی لباس،اسی لیے قرآن نے (إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ) "سوائے اس زینت کے جو از خود ظاہر ہو جائے"کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے ،یوں نہیں فرمایا: (الا ما اظھرن منھا) "سوائے اس زینت کے جسے عورتیں ظاہر کریں۔"​
(4) پھر اسی آیت میں زینت کے اظہار سے دوبارہ منع فرمایا اور بتایا کہ صرف ان افراد کے سامنے زینت ظاہر کی جا سکتی ہے جنہیں مستثنی کیا گیا ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے مقام پر مذکورہ زینت پلے مقام پر مذکورہ زینت سے مختلف اور علیحدہ ہے۔پہلے مقام پر اس زینت کا حکم بتایا گیا ہے جو ہر ایک کے لیے ظاہر ہوتی ہے اور اس کا پردہ ممکن نہیں جب کہ دوسرے مقام پر مخفی زیبائش مراد ہے،یعنی جس کے ذریعے سے عورت خود کو مزین کرتی ہے۔اگر اس آرائش و زیبائش کا اظہار بھی ہر ایک کے سامنے جائزہ ہو تو پہلی زینت کے اظہار کی عام اجازت اور دوسری زینت کے اظہار کے حکم سے بعض افراد کے استثنا کا کوئی خاص فائدہ نہیں رہ جاتا۔​
طفیلی قسم کے افراد جو صرف کھانا کھانے کے لیے کسی کے گھر میں رہتے ہوں اور ان میں صنفی میلان ختم ہو چکا ہے،مردانہ ااوصاف سے محروم خدام اور وہ نابالغ بچے جوعورتوں کی پوشیدہ باتیں سمجھ نہیں پاتے تو ایسے افراد کے سامنے اللہ تعالیٰ نے مخفی زینت کو کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے۔اس سے دو امور ثابت ہوئے:​
مذکورہ بالا دو قسم کے افراد کے سوا مخفی زیبائش کو کسی کے سامنے کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔​
بلاشبہ پردےکے حکم کا دارومدار اور اس کے واجب ہونے کی علت عورت کی طرف دیکھ کر (مردوں کا) فتنے میں مبتلا اور وافتگی کا شکار ہو جانے کا اندیشہ ہے،اور اس میں کوئی شک نہیں کہ چہرہ ہی سب سے زیادہ حسن کا مرکز اور فتنے کا مقام ہوتا ہے ،لہذا اس کا ڈھانپنا ضروری ہو گا تاکہ مرد حضرات بشری تقاضوں کے باعث کسی آزمائش میں مبتلا نہ ہو جائیں۔​
 
(5)فرمان باری تعالیٰ ہے:​
وَلَا يَضْرِبْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ
ترجمہ: اور اپنے پاؤں زمین پر زور سے نہ ماریں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجائے (سورۃ النور:آیت 31)​
یعنی عورت اس انداز سے نہ چلے کہ معلوم ہو کہ وہ پازیب وغیرہ پہنے ہوئے ہے جس سے وہ اپنے خاوند کے لیے آراستہ ہوتی ہے۔جب عورت کو زمین پر شدت سے پاؤں مارنے سے منع کر دیا گیا،مبادا غیر محرم مرد اس کے زیور کی جھنکار ہی سے فتنے میں پڑ جائیں تو چہرہ کھلا رکھنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟​
غور فرمائیے!فتنے میں پڑنے اور بہک جانے کا امکان کہاں زیادہ ہوتا ہے۔کیا اس صورت میں کہ ایک آدمی کسی عورت کے پاؤں میں پڑی پازیب کی جھنار سنتا ہے اسے معلوم نہیں کہ وہ عورت جوان ہے یا عمر رسیدہ ،حسین و جمیل ہے یا بدصورت یا اس صورت میں کہ ایک مرد کسی دوشیزہ کا کھلا چہرہ دیکھے جو حسن و زیبائی سے بھرپور ہو اور مشاطگی نے اس کے فتنے کو دو چندکہ ہر دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جائے؟ہر با شعور انسان بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ دونوں میں سے کون سی زینت زیادہ فتنے کا باعث اور مستور و مخفی رہنے کی زیادہ حقدار ہے۔​
دوسری دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:​
وَٱلْقَوَٰعِدُ مِنَ ٱلنِّسَآءِ ٱلَّٰتِى لَا يَرْجُونَ نِكَاحًۭا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جُنَاحٌ أَن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَبَرِّجَٰتٍۭ بِزِينَةٍۢ ۖ وَأَن يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌۭ لَّهُنَّ ۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌۭ ﴿60﴾
ترجمہ: اوروہ بڑی بوڑھی عورتیں جو نکاح کی رغبت نہیں رکھتیں ان پر اس بات میں کوئی گناہ نہیں کہ اپنے کپڑے اتار رکھیں بشرطیکہ زینت کا اظہار نہ کریں اور اس سے بھی بچیں توان کے لیے بہتر ہے اور الله سننے والا جاننے والا ہے (سورۃ النور،آیت 60)​
اس آیت کریمہ سے پردے کے واجب ہونے پر وجہ استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان بوڑی عورتوں سے گناہ کی نفی کی ہے جو سن رسیدہ ہونے کے سبب نکاح کی اُمید نہیں رکھتیں،اس لیے کہ بوڑھی ہونے کی وجہ سے مردوں کو ان کے ساتھ نکاح میں کوئی رغبت نہیں ہوتی لیکن اس عمر میں بھی چادر اتار رکھنے پر گناہ نہ ہونا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اس سے ان کا مقصد زیب و زینت کی نمائش نہ ہوچادر اتار دینے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ کپڑے اتار کر بالکل برہنہ ہو جائیں بلکہ اس سے صرف ہ کپڑے مراد ہیں جو عام لباس کے اوپر اس لیے اوڑھے جاتے ہیں کہ جسم کے وہ حصے جو عام لباس سے عموما باہر رہتے ہیں،جیسے چہرہ اور ہاتھ،چھپ جائیں،لہذا ان بوڑھی عورتوں کو جنہیں کپڑے اتارنے کی رخصت دی گئی ہے اس سے مراد مذکورہ اضافی کپڑے (چادریں،برقعے وغیرہ) ہیں جو پورے جسم کو ڈھانپتے ہیں۔اس حکم کی عمر رسیدہ خواتین کے ساتھ تخصیصی دلیل یہ ہے کہ جو ان نکاح کی عمر والی عورتوں کا حکم ان سے مختلف ہے کیونکہ اگر سب عورتوں کے لیے اضافی کپڑے اتار دینے اور صرف عام لباس پہننے کی اجازت ہوتی تو سن رسیدہ و نکاح کی عمر سے گزری ہوئی عورتوں کا بالخصوص ذکر کرنے کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا۔​
مذکورہ آیت کریمہ کے الفاظ (غَيْرَ مُتَبَرِّجَٰتٍۭ بِزِينَةٍۢ ۖ)"بشرطیکہ یہ بوڑھی عورتیں اپنی زینت کا مظاہرہ نہ کرتی پھریں" اس بات کی ایک اور دلیل ہے کہ نکاح کے قابل،جواب عورتوں پر پردہ فرض ہے چونکہ عام طور پر جب وہ اپنا چہرہ کھلا رکھتی ہیں تو اس کا مقصد زینت کی نمائش اور حسن و جمال کی مدح و توصیف کریں اس قماش کی عورتوں میں نیک نیت شاذونادر ہی ہوتی ہیں اور شاذونادر صورتوں کو عام قوانین کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
 
تیسری دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:​
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًۭا رَّحِيمًۭا﴿59﴾
ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے مونہوں پر نقاب ڈالا کریں یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ پہچانی جائیں پھر نہ ستائی جائیں اور الله بخشنے والا نہایت رحم والا ہے(سورۃ الاحزاب،آیت 59)​
ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لیے اپنے گھروں سے نکلیں تو سر کے اوپر سے اپنی چادریں لٹکا کر اپنے چہروں کو ڈھانپ لیا کریں اور صرف ایک آنکھ کی جگہ کھلی رکھیں۔صحابی کی تفسیر حجت ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔​
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول میں مذکور ایک آنکھ کھلی رکھنے کی رخصت بھی راستہ دیکھنے کی ضرورت کے پیش نظر دی گئی ہے،لہذا جہاں راستہ دیکھنے کی ضرورت نہ ہو گی وہاں ایک آنکھ سے بھی پردہ ہٹانے کی کوئی وجہ نہیں۔​
اور "جلباب" اس چادر کو کہتے ہیں جو دوپٹے کے اوپر سے عبا (گاؤن) کی طرح اوڑھی یا پہنی جائے۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو انصاری خواتین گھروں سے نکلتے وقت اس سکون و اطمینان سے چلتیں گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اور انہوں نے سیاہ رنگ کی چادریں لپیٹ رکھی ہوتیں۔​
عبیدۃ السلمانی رحمۃ اللہ علیہ (تلمیذ حضرت علی رضی اللہ عنہ)کا بیان ہے ہے کہ مسلمان عورتیں سروں کے اوپر سے چادریں اس طرح اوڑھا کرتی تھیں کہ آنکھوں کے سوا کچھ ظاہر نہ ہوتا اور وہ بھی اس لیے کہ راستہ دیکھ سکیں۔(تفسیر ابن کثیر،تفسیر سورۃ الاحزاب،آیت :59)​
 
چوتھی دلیل
ارشاد باری تعالیٰ ہے:​
لَّا جُنَاحَ عَلَيْهِنَّ فِىٓ ءَابَآئِهِنَّ وَلَآ أَبْنَآئِهِنَّ وَلَآ إِخْوَٰنِهِنَّ وَلَآ أَبْنَآءِ إِخْوَٰنِهِنَّ وَلَآ أَبْنَآءِ أَخَوَٰتِهِنَّ وَلَا نِسَآئِهِنَّ وَلَا مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ ۗ وَٱتَّقِينَ ٱللَّهَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ شَهِيدًا ﴿55﴾
ترجمہ: ان پر اپنے باپوں کے سامنے ہونے میں کوئی گناہ نہیں اور نہ اپنے بیٹوں کے اور نہ اپنے بھائیوں کے اور نہ اپنے بھتیجوں کے اورنہ اپنے بھانجوں کے اور نہ اپنی عورتوں کے اور نہ اپنے غلاموں کے اور الله سے ڈرتی رہو بے شک ہر چیز الله کے سامنے ہے(سورۃ الاحزاب،آیت 55)​
حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جب عورتوں کو غیر محرم مردوں سے پردہ کرنے کا حکم دیا تو یہ بھی بیان فرمادیا کہ فلاں فلاں قریبی رشتہ داروں سے پردہ واجب نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:​
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّٰبِعِينَ غَيْرِ أُو۟لِى ٱلْإِرْبَةِ مِنَ ٱلرِّجَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا۟ عَلَىٰ عَوْرَٰتِ ٱلنِّسَآءِ ۖ
ترجمہ: اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے اوراپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں اوراپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا خاوند کے باپ یا اپنے بھائیوں یا بھتیجوں یا بھانجوں پر یا اپنی عورتوں پر یا اپنے غلاموں پر یا ان خدمت گاروں پر جنہیں عورت کی حاجت نہیں یا ان لڑکوں پر جو عورتوں کی پردہ کی چیزوں سے واقف نہیں (سورۃ النور،آیت 31)​
قرآن حکیم میں سے یہ چار دلائل ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ غیر محرم مردوں سے عورت کو پردہ کرنا واجب ہے اور جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے صرف پہلی آیت اس مسئلہ پر پانچ وجوہ سے دلالت کرتی ہے۔​
 
سنت مطہرہ سے دلائل
اب سنت نبوی سے چہرے کا پردہ واجب ہونے کے چند دلائل ذکر کیے جاتے ہیں:​
(1)رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے:​
(اذا خطب احدکم المراۃ فان استطاع فان ینظر منھا الی ما یدعوہ الی نکاحھا فلیفعل)​
"جب کوئی آدمی کسی عورت کو نکاح کا پیغام بھیجے تو اگر اس کے لیے عورت کا داعیہ نکاح (حسن و جمال اور قد کاٹھ وغیرہ) دیکھنا ممکن ہو تو وہ دیکھ لے۔(مسند احمد،3/334)​
 
گویا رسول اکرم ﷺ نے عورتوں کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ چادر اوڑھے بغیر عیدگاہ تک بھی جائیں،حالانکہ وہاں جانے کا حکم مرد و عورت سب کوہے۔جب ایک ایسے کام کے لیے جس کا شریعت نے حکم دیا ہے،رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کو چادر اوڑھے بغیر باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تو ایسے امور کے لیے بغیر چادر اوڑھے گھر سے باہر آنے کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے جن کا شریعت میں حکم دیا گیا ہے نہ ان ان کی کوئی ضرورت ہے،بالخصوص جب مقصد صرف بازاروں میں گھومنا پھرنا،مردوں کے ساتھ میل جول اور تماش بینی ہو جس میں کوئی فائدہ نہیں۔​
علاوہ ازیں چادر اوڑھنے کا حکم بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ عورت کا مکمل با پردہ رہنا ضروری ہے۔واللہ اعلم۔​
(3)ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:​
(كنا نساء المؤمنات، يشهدن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الفجر، متلفعات بمروطهن، ثم ينقلبن إلى بيوتهن حين يقضين الصلاة، لا يعرفهن أحد من الغلس.)
"مومن عورتیں رسول اکرم ﷺ کے ساتھ فجر کی نماز ادا کرنے کے لیے چادروں میں لپٹی ہوئی آتیں۔پھر نماز کے بعد وہ اپنے گھروں کو لوٹتیں تو اندھیرے کے سبب انہیں کوئی پہچان نہ سکتا۔(صحیح البخاری،مواقیت الصلاۃ،باب وقت الفجر ،حدیث :578​
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے مزید فرمایا:​
(ترجمہ)"عورتوں کے جو اطوار ہم نے دیکھے ہیں اگر رسول اللہ ﷺ دیکھ لیتے تو انہیں مسجد میں آنے سے اسی طرح منع کر دیتے جس طرح بنی اسرائیل نے اپنی عورتوں کو منع کر دیا تھا۔"(صحیح البخاری،الاذان،باب انتظار الناس قیام الامام العالم،حدیث :869 وصحیح مسلم الصلاۃ،باب خروج النساء الی المساجد،حدیث :445)​
تقریبا اسی قسم کے الفاظ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہیں۔​
 
یہ حدیث پردے کے وجوب پر دو طریقوں سے دلالت کرتی ہے:​
پردہ کرنا اور اپنے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپنا صحابیات رضی اللہ عنھن کے معمول میں سے تھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا زمانہ تمام زمانوں سے بہتر اور اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ منزلت رکھتا ہے۔وہ اخلاق و آداب میں بلند،ایمان میں کامل اور اعمال میں زیادہ صالح تھے۔وہی قابل اتباع نمونہ ہیں کہ خود ان کو ان کی بطریق احسن پیروی کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خوشنودی کی نوید سنائی۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:​
وَٱلسَّٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَٰنٍۢ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّٰتٍۢ تَجْرِى تَحْتَهَا ٱلْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًۭا ۚ ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ ﴿100﴾
ترجمہ: اور جو لوگ قدیم میں پہلے ہجرت کرنے والوں اور مدد دینے والو ں میں سے اور وہ لوگ جو نیکی میں ان کی پیروی کرنے والے ہیں الله ان سے راضی ہوئےاوروہ اس سے راضی ہوئےان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے یہ بڑی کامیابی ہے (سورۃ التوبہ،آیت 100)​
 
جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے مبارک عہد میں عورتوں کا طریقہ یہ تھا (جو اوپر ذکر کیا گیا) تو ہمارے لیے کس طرح مستحسن ہو سکتا ہے کہ اس طریقے سے ہٹ جائیں جس پر چلنے ہی سے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا حصول ممکن ہے۔خصوصا جب کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے:​
وَمَن يُشَاقِقِ ٱلرَّسُولَ مِنۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ ٱلْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ ٱلْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِۦ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِۦ جَهَنَّمَ ۖ وَسَآءَتْ مَصِيرًا ﴿115﴾
ترجمہ: اور جو شخص سیدھا رستہ معلوم ہونے کے بعد رسول کی مخالف کرے اور مومنوں کے رستے کے سوا اور رستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے(سورۃ النساء،آیت 115)​
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جن کا علم و فہم ،اللہ ے بندوں کی خیر خواہی کا جذبہ اور دینی بصیرت تعارف کی محتاج نہیں،فرماتے ہیں:​
"اگر رسول اکرم ﷺ عورتوں کے وہ اعمال و اطوار دیکھ لیتے جو ہم نے دیکھے ہیں تو انہیں مساجد میں آنے سے قطعی طور پر منع کر دیتے۔"​
یہ قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہے جس طرح گزتہ صفحات میں اس کی تخریج کر دی گئی ہے۔جہاں تک ابن مسعود رضی اللہ ونہ کے قول کا تعلق ہے تو بایں الفاظ ہمیں نہیں مل سکا،البتہ مصنف ابن ابی شیبہ (158/2 میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بعض اقوال منقول ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ عورت کے لیے اپنے گھر میں نماز پڑھنے کو زیادہ بہتر سمجھتے تھے۔(عثمان منیب)
اور یہ اس زمانے میں ہوا جس کی فضیلت احادیث میں وارد ہے ،یعنی عہد نبوی کے مقابلے میں عورتوں کی حالت اس حد تک بدل گئی کہ انہیں مساجد میں آنے سے روک دینے کا تقاضا کر رہی تھی ،تو ہمارے زمانے میں بے پردہ نکلنے کی اجازت کیوں کر دی جا سکتی ہے جبکہ عصر نبوی کو گزرے تیرہ صدیاں گزر چکی ہیں ۔اخلاقی بے راہ روی عام ہو چکی ہے۔شرم و حیا تقریبا رخصت ہو چکے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں دینی حمیت کمزور پڑ چکی ہے۔​
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ اور فقیہ امت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا فہم بھی اسی نتیجے پر پہنچا جس کی شہادت شریعت کاملہ کی صریح نصوص دے رہی ہیں،یعنی اگر کسی کام کے نتیجہ میں ایسے امور سامنے آئیں جنہیں شریعت حرام قرار دیتی ہے تو وہ کام بھی شرعا حرام ہو گا،خواہ بظاہر جائز ہی نظر آتا ہو۔​
 
رسول اکرم ﷺ نے جب ازار بند کے ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی حرمت بیان کی تو اس پر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا: تو عورتیں اپنی چادریں کس حد تک لٹکائیں۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:​
"ترخی شبرا قالت ام سلمۃ: اذا ینکشف عنھا قال :فذراع لا تذید علیہ"(سنن ابی داود ،اللباس باب فی قدر الذیل،حدیث :4117)​
"ایک بالشت بھر لٹکائیں۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اس طرح تو ان کے پاؤں نظر آئیں گے۔نبی ﷺ نے فرمایا: "تو ایک ہاتھ کے برابر کاٹ لیں اس سے زیادہ نہ لٹکائیں۔"​
مندرجہ بالا حدیث سے ثابت ہوا کہ عورت پر پاؤں ڈھانپنا فرض ہے۔اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ یہ حکم تمام صحابیات رضی اللہ عنھن کو معلوم تھا اور بلاشبہ پاؤں میں،ہاتھوں اور چہرے کی نسبت کم کشش پائی جاتی ہے۔کم تر کشش والے مقام کے حکم کی تصریح خودبخود تنبیہ کر رہی ہے کہ اس سے زیادہ پر کشش اور اس حکم کے زیادہ حقدار مقامات کا کیا حکم ہونا چاہیے۔یہ بات شرع متن کی حکمت کے منافی ہے کہ کم تر کشش اور قلیل تر فتنے کے باعث اعضاء کو ڈھانپنا فرض ہو لیکن زیادہ فتنے کے باعث اور پُر کشش اعضاء کو کھلا رکھنے کی اجازت دے دی جائے۔اللہ تعالیٰ کی حکمت و شریعت میں اس قسم کا تضاد پایا جانا ناممکن ہے۔​
 
رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:​
"اذا کان لاحداکن مکاتب فکان عندہ ما یودی فلتحتجب منہ"(سنن ابی داود،العنق،باب فی المکاتب یودی بعض کتابہ،حدیث :3928 وضعفہ البانی)​
"اگر کسی عورت کے مکاتب غلام کے پاس اس قدر مال ہو جس سے وہ معاہدے میں طے شدہ رقم ادا کر سکتا ہو تو اس عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے اس غلام سے پردہ کرے۔"​
مذکورہ حدیث سے پردے کا واجب ہونا اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ مالکہ کے لیے اپنے غلام کے سامنے اس وقت تک چہرہ کھلا رکھنا جائز ہے جب ک وہ اس کی ملکیت میں ہو اور جب غلام پر اس کی ملکیت ختم ہو جائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس سے پردہ کرے کیونکہ اب وہ غیرمحرم ہو گیا ہے۔ثابت ہوا کہ عورت کا غیر محرم مردوں سے پردہ کرنا واجب ہے۔​
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتی ہیں :​
"کان الرکبان یمرون بنا و نحن مع رسول اللہ محرمات فاذا حاذوا بنا سدلت احدانا جلبابھا من راسھا علی وجھھا فاذا جاوزونا کشفناہ"(سنن ابی داود،الناسک ،باب المحرمۃ تغطی وجھھا ،حدیث :1833 وسنن ابن ماجہ المناسک ،باب المحرمۃ تسدل الثوب علی وجھھا،حدیث :2935 وحسن اسنادہ الالبانی فی الجلباب المراۃ ،ص :107)​
"جب ہم رسول اللہ ﷺ کی معیت میں احرام باندھے ہوئے ہوتیں تو اونٹ سوار قافلے ہمارے پاس سے گزرتے تھے۔وہ جس وقت سامنے ہوتے تو ہم اپنے سروں کے اوپر سے چادر چہرے پر لٹکا لیتیں ۔جب وہ آگے گزر جاتے تو ہم پھر سے چادر کو چہرہ پر سے ہٹا لیتیں۔"​
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمانا کہ "جب وہ (سوار) ہمارے سامنے ہوتے تو ہم اپنے چہروں پر چادریں ڈال لیتیں" واضح دلیل ہے کہ عورت پر چہرہ ڈھانپنا واجب ہے۔اس لیے کہ حالت احرام میں چہرہ کھلا رکھنے کا حکم ہے،لہذا اگر اس واجبی حکم کی بجا آوری میں کوئی زور دار شرعی رکاوٹ موجود نہ ہوتی تو چہرہ کھلا رکھنا ضروری تھا،خواہ لوگ پاس سے گزرتے رہیں۔​
اس استدلال کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اکثر اہل علم کے نزدیک حالت احرام میں عورتوں پر چہرہ کھلا رکھنا واجب ہے۔اور ایک واجب کو اس سے قوی تر واجب ادا کرنے کی خاطر ہی ترک کیا جا سکتا ہے۔اس لیے اگر غیر محرم عورتوں سے پردہ کرنا اور چہرہ ڈھانپنا واجب نہ ہوتا تو احرام کی حالت میں اس کے کھلا رکھنے کا حکم جو واجب ہے ترک کرنا جائز نہ ہوتا جب کہ صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں حدیث ہے (جس کا مفہوم) کہ حالت احرام میں عورت کے لیے نقاب ڈالنا اور دستانے پہننا جائز نہیں ہے۔​
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث منجملہ دلائل میں سے ہے کہ رسول اکرم ﷺ کے عہد مبارک میں حالت احرام کے سوا خواتین میں (چہرے کے پردے کے لیے) نقاب اور (ہاتھوں کے پردے کے لیے)دستانوں کا رواج عام تھا۔اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ چہرے اور ہاتھوں کا پردہ کرنا واجب ہے۔​
سنت مطہرہ میں سے یہ چھ دلائل ہیں کہ عورت پر پردہ کرنا اور غیر محرم مردوں کی نظر سے چہرہ ڈھانپنا فرض ہے۔​
قرآن میں سے مذکور چار دلائل بھی ان میں جمع کر لیں تو کتاب و سنت سے کل دس دلیلیں ہوئیں۔تلک عشرۃ کاملۃ۔وباللہ التوفیق۔​
 
قیاس صحیح کی روسے چہرے کے پردے کا وجوب
اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر مسلمان کو شرعی کاموں میں اجتہاد اور درست فقہی قیامس پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔یعنی مصالح اور ان کے حصول کے ذرائع کو برقرار رکھنے کی ترغیب اور مفاسد اور ان کے وسائل کی مذمت اور ان سے اجتناب کرنے کی تلقین جیسے سنہری اصول پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔​
چنانچہ ہر وہ کام جس میں خالصتا مصلحت ہو یا اس کے نقصانات کی نسبت مصلحت کا پہلو روشن ہو تو اس کا حکم علی الترتیب پہلی صورت میں واجب اور دوسری صورت میں کم ازکم مستحب ہو گا اور وہ کام جس میں صرف نقصان ہو یا نقصان ہو یا نقصان اس کی مصلحت سے زیادہ ہو تو اس کام کا حکم علی الترتیب حرام یا مکروہ ہو گا۔​
اس قاعدے کی روشنی میں جب ہم غیر محرم مردوں کے سامنے عورت کا چہرہ بے پردہ رکھنے پر غور کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ یہ بے حجابی بے شمار مفاسد لیے ہوئے ہے۔اگر بالفرض کوئی مصلحت ہے بھی تو اس سے پیدا ہونے والے شدید نقصانات کے بالمقابل یہ انتہائی بےمعنی مصلحت ہے۔
 
باب 2
عُریاں چہرے کے نقصانات
عورت کے چہرے کو بے پردہ رکھنے کے بڑے بڑے نقصانات مندرجہ ذیل ہیں:
فتنے میں پڑنا
عورت جب اپنے چہرے کو بے پردہ رکھتی ہے تو اپنے آپ کو فتنے میں ڈالتی ہے کیونکہ اسے ان چیزوں کا اہتمام و التزام کرنا پڑتا ہے جس سے اس کا چہرہ خوبصورت ،جاذب نظر اور دلکش دکھائی دے۔اس طرح وہ دوسروں کے لیے فتنے کا باعث بنتی ہے اور یہ شر و فساد کے بڑے اسباب میں سے ہے۔
شرم و حیا کا جاتے رہنا
اس عادتِ بد کی وجہ سے رفتہ رفتہ عورت سے شرم و حیا ختم ہوتی جاتی ہے جو ایمان کا جز ار فطرت کا لازمی تقاضا ہے۔ایک زمانے میں عورت شرم و حیا میں ضرب المثل ہوتی تھی ،مثلا کہاجاتا تھا:
احیا من العذراء فی خدرھا
"فلاں تو پردہ نشین دوشیزہ سے بھی زیادہ شرمیلا ہے۔"
شرم و حیا کا جاتے رہنا نہ صرف یہ کہ عورت کے لیے دین و ایمان کی غارت گری ہے بلکہ اس فطرت کے خلاف بغاوت بھی ہے جس پر اسے خالق کائنات نے پیدا کیا ہے۔
مَردوں کا فتنے میں مبتلا ہونا
بے پردہ عورت سے مُردوں کا فتنے میں پڑنا طبعی امر ہے ،خصوصا جبکہ وہ خوبصورت بھی ہو،نیز ملنساری ،خوش گفتاری یا ہنسی مذاق کا مظاہرہ کرے۔ایسا بہت سی بے پردہ خواتین کے ساتھ ہو چکا ہے۔جیسا کہ کسی نے کہا ہے:
نظرۃ فسلام فموعد فلقاء
"نگاہیں ملیں، سلام ہوا،بات چیت ہونے لگی،پھر قول و قرار ہوئے اور معاملہ باہم ملاقاتوں تک جا پہنچا۔"
شیطان انسانی جسم میں خون کی طرح رواں دواں ہےبار ہا ایسا ہوا ہے کہ باہمی مذاق کے نتیجے میں کوئی مرد کسی عورت پر یا عورت کسی مرد پر فریفتہ ہو گئی جس سے ایسی خرابی پیدا ہوئی کہ اس سے بچاؤ کی کوئی تدبیر نہ بن آئی۔اللہ تعالیٰ سب کو سلامت رکھے۔
 
مرد و عورت کا آزادانہ میل جول
چہرے کی بے پردگی سے عورتوں اور مَردوں کا اختلاط عمل میں آتا ہے۔جب عورت دیکھتی ہے کہ وہ بھی مَردوں کی طرح چہرہ کھول کر بے پردہ گھوم پھر سکتی ہے تو آہستہ آہستہ اسے مَردوں سے کھلم کھلا دھکم پیل کرنے میں بھی شرم و حیا محسوس نہیں ہوتی اور اس طرح کے میل جول میں بہت بڑا فتنہ اور وسیع فساد مضمر ہے۔
ایک دن رسول اکرم ﷺ مسجد سے باہر تشریف لائے۔آپ نے عورتوں کو مَردوں کے ساتھ راستے میں چلتے ہوئے دیکھا،تو عورتوں سے ارشادفرمایا:
"استاخرن فانہ لیس لکن ان تحققن الطریق علیکن بحافات الطریق"(رواہ ابو داود ،الادب،باب فی مشی النساء مع الرجال،حدیث: 5282)
"ایک طرف ہٹ جاؤ۔راستے کے درمیان چلنا تمہارا حق نہیں ہے۔ایک طرف ہو کر چلا کرو۔
رسول اکرم ﷺ کے اس فرمان کے بعد خواتین راستے کے ایک طرف ہو کر اس طرح چلتیں کہ بسا اوقات ان کی چادریں دیوار کو چھو رہی ہوتیں۔اس حدیث کو ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا۟ مِنْ أَبْصَٰرِهِمْ
ترجمہ: ایمان والوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نگاہ نیچی رکھا کریں (سورۃ النور،آیت 30)
کی تفسیر کرتے ہوئے ذکر کیا ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی غیر محرم مَردوں سے عورتوں کے پردہ کرنے کے واجب ہونے کی تصریح کی ہے،چنانچہ وہ آیت:
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ
ترجمہ: اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو جگہ اس میں سے کھلی رہتی ہے (سورۃ النور،آیت31)
کے تحت فرماتے ہیں کہ نماز میں عورت کا ظاہری زینت کو ظاہر کرنا جائز ہے علاوہ باطنی زینت کے،اور سلف صالحین کا زینت ظاہرہ میں اختلاف ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کے نزدیک "زینت ظاہرہ" سے مراد کپڑے ہیں جبکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور ان کے موافقین کے نزدیک "زینت ظاہرہ" سے مراد چہرے اور ہاتھ کی چیزیں ہیں جیسے انگوٹھی اور سرمہ وغیرہ۔ان دو مختلف اقوال کے لحاظ سے اجنبی عورت کی طرف دیکھنے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔ایک قول یہ ہے کہ بغیر شہوت کے اجنبی عورت کے چہرے اور ہاتھوں کو دیکھنا جائز ہے،یہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیھم کا مذہب ہے اور ایک قول کے مطابق امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا بھی۔دوسرا قول یہ ہے کہ دیکھنا ناجائز ہے یہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا (صحیح روایات کے مطابق) مذہب ہے۔اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عورت کا ہر عضو ستر ہے حتی کہ اس کے ناخن بھی۔اس کے بعد شیخ الاسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کی زینت کے دو درجے مقرر کیے ہیں:
(1) زینت ظاہرہ (2) زینت غیر ظاہرہ
زینت ظاہرہ کو عورت اپنے شوہر اور محرم مَردوں کے علاوہ دسرے لوگوں کے سامنے بھی کھلا رکھ سکتی ہے۔آیت حجاب نازل ہونے سے پہلے عورتیں چادر اوڑھے بغیر نکلتی تھیں۔مَردوں کی نظر ان کے ہاتھ اور چہرے پر پڑتی تھی ۔اس دور میں عورتوں کے لیے جائز تھا کہ چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھیں اور مَردوں کے لیے بھی ان کی طرف دیکھنا مباح تھا کیونکہ ان کا کھلا رکھنا جائز تھا۔پھر جب اللہ تعالیٰ نے آیت حجاب نازل فرمائی جس میں ارشاد فرمایا:
يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَٰبِيبِهِنَّ ۚ
ترجمہ: اے نبی اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں (سورۃ الاحزاب،آیت 59)
تو عورتیں مکمل طور پر پردہ کرنے لگیں۔(مجموع الفتاوی : 22/110)
اس کے بعد شیخ الاسلام فرماتے ہیں: :جلباب چادر کا نام ہے۔"
حضرت عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اسے ردا (اوڑھنی) اور عام لوگ اسے اذار (تہہ بند)کہتے ہیں۔اس سے مراد بڑا تہہ بند ہے جو عورت کے سر سمیت پورے جسم کو ڈھانپ لے۔جب عورتوں کو چادر اوڑھنے کا حکم اس لیے ہوا کہ وہ پہچانی جا سکیں تو یہ مقصد چہرہ ڈھانپنے یا اس پر نقاب وغیرہ ڈالنے ہی سے ھاصل ہو گا،لہذا چہرہ اور ہاتھ اس زینت میں سے ہوں گے جس کے بارے میں عورت کو حکم ہے کہ کہ یہ غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر نہیں کرنی چاہیے۔اس طرح ظاہر کپڑوں کے سوا کوئی زینت باقی نہ رہی جس کا دیکھنا غیر محرم مَردوں کے لیے مباح ہو۔
اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے آخری حکم ذکر کیا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے (نسخ سے) پہلے کا حکم ذکر کیا ہے۔
 
آخر میں شیخ الاسلام فرماتے ہیں:
"نسخ سے پہلے کے حکم کے برعکس اب عورت کے لیے چہرہ،ہاتھ اور پاؤں غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر کرنا جائز نہیں ہے بلکہ کپڑوں کے سوا کوئی چیز بھی ظاہر نہیں کر سکتی۔"(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ : 114/22)
اسی جز میں صفحہ 117 اور صفحہ 118 پر فرماتے ہیں:
"عورت کو چہرہ،ہاتھ اور پاؤں صرف غیر محرم مَردوں کے سامنے ظاہر کرنے سے منع کیا گیا ورنہ عورتوں اور محرم مَردوں کے سامنے ان اعضاء کے ظاہر کرنے کی اجازت ہے۔"
ایک اور مقام پر فرمایا:
اس مسئلہ میں بنیادی بات یہ سمجھ لیجیے کہ شارع کے دو مقاصد ہیں:اول تو یہ کہ مرد و عورت میں امتیا رہے ،دوم یہ کہ عورتیں حجاب میں رہیں۔"(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ: 117/22-118
یہ تو تھا اس مسئلے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کا نقطہ نظر۔ان کے علاوہ دوسرے حنبلی فقہاء میں سے متاخرین کے چند اقوال نقل کرنے پر اکتفا کروں گا۔
"المنتہی" میں ہے کہ نامرد،خواجہ سرا اور ہیجڑے کے لیے بھی عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔"
"الاقناع" میں لکھا ہے " نامرد ہیجڑے کا عورت کی طرف دیکھنا حرام ہے۔" اسی کتاب میں ایک اور مقام پر ہے: "آزاد غیر محرم عورت کی طرف قصدا دیکھنا،نیز اس کے بالوں کو دیکھنا حرام ہے۔"
"الدلیل " کے متن میں ہے: "دیکھنا آٹھ طرح سے ہوتا ہے۔پہلی قسم یہ ہے کہ بالغ مرد (خواہ اس کا عضو کٹا ہوا ہو ) آزاد غیر محرم عورت کی طرف بلا ضرورت دیکھے۔اس صورت میں عورت کے کسی بھی عضو کو بلا شرعی ضرورت کے دیکھنا حرام ہے حتی کہ اس کے (سر پر لگے) مصنوعی بالوں کی طرف نگاہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔" شافعی فقہاء کا موقف یہ ہے کہ بالغ آدمی کی نگاہ بطریق شہوت ہو یا اس کے بہک جانے کا اندیشہ ہو تو بلا اختلاف قطعی طور پر حرام ہے۔اگر بطریق شہوت نہ ہو اور فتنے کا اندیشہ بھی نہ ہو تو ان کے ہاں دو قول ہیں۔مولف "شرح الاقناع" نے انہیں نقل کرنے کے بعد کہا ہے : :صحیح بات یہ ہے کہ اس قسم کی نگاہ بھی حرام ہے جیسا کہ فقہ شافعی کی مشہور کتاب "منہاج" میں ہے۔" اس کی یہ توجیہ بیان کی ہے کہ عورتوں کا بے پردہ کھلے چہرے کے ساتھ باہر نکلنا تمام اہل اسلام کے نزدیک بالاتفاق ممنوع ہے،نیز یہ کہ نگاہ فتنے کا مقام اور شہوت کی محرک ہے۔


اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا۟ مِنْ أَبْصَٰرِهِمْ
ترجمہ: مومنوں سے کہہ دو کہ نگاہ نیچی رکھا کریں (سورۃ النور،آیت 31)
احکام شریعت میں ملحوظ حکمتوں کے شایان شان امر یہی ہے کہ فتنے کی طرف کھلنے والا دروازہ بند کیا جائے اور حالات کے تفاوت کو بہانہ بنانے سے گریز کیا جائے۔
"نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار" میں ہے: عورتوں کا بے پردہ کھلے چہرے کے ساتھ باہر نکلنا بالخصوص اس زمانے میں جہاں بدقماش لوگوں کی کثرت ہو،بالاتفاق اہل اسلام حرام ہے۔"
٭٭٭٭٭٭​
 
چہرے کے پردے کو واجب نہ سمجھنے والوں کے دلائل اور ان کا جواب
جہاں تک مجھے علم ہے ،غیر محرم عورتوں کے چہرے اور ہاتھوں کی طرف دیکھنے کو جائز قرار دینے والوں کے پاس کتاب و سنت سے صرف مندرجہ ذیل دلائل ہیں:
پردے کو واجب نہ سمجھنے والوں کے دلائل
(1) فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ
ترجمہ: "اور اپنی زینت ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے ظاہر ہو"(سورۃ النور،آیت 31)
کیونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ (إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ) سے مراد عورت کا چہرہ،اس کے ہاتھ کی انگوٹھی ہے۔یہ قول امام اعمش نے سعید بن جبیر کے واسطے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ صحابی کی تفسیر حجت ہے۔

(2) ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا باریک کپڑے پہنے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں تو آپ (ﷺ) نے چہرہ مبارک دوسری طرف پھیر لیا،نیز چہرے اور ہاتھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
"یا اسماء ! ان المراۃ اذا بلغت المحیض لم یصلح لھا ان یری منھا الا ھذا وھذا ،واشار الی وجھہ وکفیہ"(سنن ابی داود ،اللباس ،باب فیما تبدی المراۃ من زینتھا،حدیث : 4104)
"اے اسماء! جب عورت بالغ ہو جائے تو جائز نہیں کہ اس کے چہرے اور ہاتھوں کے سوا کچھ نظر آئے۔"​
(3)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،وہ فرماتے ہیں:
كان الفضل رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاءت امرأة من خثعم، فجعل الفضل ينظر إليها وتنظر إليه، وجعل النبي صلى الله عليه وسلم يصرف وجه الفضل إلى الشق الآخر
"(حجۃ الوداع میں ان کے بھائی) فضل بن عباس رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھے تھے کہ اسی دوران میں خثعم قبیلے کی ایک عورت آئی۔فضل بن عباس رضی اللہ عنہ اس کی طرف اور وہ فضل کی طرف دیکھنے لگی تو رسول اللہ ﷺ نے فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا چہرہ دوسری جانب کر دیا۔"
ان حضرات کی رائے میں یہ اس امر کی دلیل ہے کہ وہ عورت اپنا چہرہ کھلا رکھے ہوئے تھی۔
 
(4)حضرت جابر رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے نماز عید پڑھانے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے نماز پڑھانے کے بعد لوگوں سے خطاب فرمایااور وعظ و نصیحت کی،پھر چل کر عورتوں کے قریب تشریف لے گئے۔ان سے بھی خطاب کیا اور وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
"تصدقن ،فان اکثرکن حطب جھنم ،فقالت امراۃ من سفلۃ النساء سفعاء الخدین۔۔۔۔"(مسند احمد: 3/318 ،وسنن النسائی،صلاۃ العیدین، باب قیام۔۔۔،حدیث :1576)
("اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو کیونکہ جہنم کا زیادہ تر ایندھن تم (عوتیں) ہی ہو۔اس پر ایک کم درجے کی عورت جس کےرخسار سیاہی مائل تھے،نے کہا۔۔۔۔")
اگر اس عورت کا چہرہ کھلا نہ ہوتا تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو پتہ نہ چلتا کہ اس عورت کے رخسار سیاہی مائل ہیں۔
میری دانست میں یہی وہ دلائل ہیں جن سے غیر محرم مَردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھنے کے جواز پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔
 
(4)حضرت جابر رضی اللہ عنہ نبی اکرم ﷺ کے نماز عید پڑھانے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے نماز پڑھانے کے بعد لوگوں سے خطاب فرمایااور وعظ و نصیحت کی،پھر چل کر عورتوں کے قریب تشریف لے گئے۔ان سے بھی خطاب کیا اور وعظ و نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
"تصدقن ،فان اکثرکن حطب جھنم ،فقالت امراۃ من سفلۃ النساء سفعاء الخدین۔۔۔۔"(مسند احمد: 3/318 ،وسنن النسائی،صلاۃ العیدین، باب قیام۔۔۔،حدیث :1576)
("اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کیا کرو کیونکہ جہنم کا زیادہ تر ایندھن تم (عوتیں) ہی ہو۔اس پر ایک کم درجے کی عورت جس کےرخسار سیاہی مائل تھے،نے کہا۔۔۔۔")
اگر اس عورت کا چہرہ کھلا نہ ہوتا تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو پتہ نہ چلتا کہ اس عورت کے رخسار سیاہی مائل ہیں۔
میری دانست میں یہی وہ دلائل ہیں جن سے غیر محرم مَردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھنے کے جواز پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔
 
Top