پرانی غزل

ایک پرانی غزل، مقطع آج باندھ کے پیش کر رہا ہوں

اتنا کمبخت تھا، اشعار میں باندھا نہ گیا
میرا غم چشم تصور سے بھی دیکھا نہ گیا
خواہشوں کی مرے تابوت پہ سنگینی دیکھ
اہلِ دنیا سے جنازہ بھی اٹھایا نہ گیا

ق
ایک وہ تھے کہ کبھی مان کے دیتے ہی نہ تھے
اور اک ہم تھے کہ ہم سے کبھی روٹھا نہ گیا
یعنی اس ڈھنگ سے تھے ہم میں مراسم باقی
اور لوگوں سے یہ اک ڈھنگ بھی دیکھا نہ گیا

اس نے دھتکارا کچھ ایسا کہ یقیں جانو حجازؔ
مدتوں کوچۂ جاناں سے میں، آیا نہ گیا

مہدی نقوی حجازؔ
 
شاید، میں نے ان کی پوسٹ کے جواب میں جو لکھا تھا، وہ ایڈٹ کر کے سمائیلی لگا دی۔ پیغام تو وہ پڑھ چکی تھیں لیکن اقتباس نہ لے سکیں :)
اچھی اپو ہے نا اپنی اور آپ پریشان مت کیا کیجئے اپنی اپو کو بتا دے رہا ہوں میں :):)
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت عمدہ مہدی بھائی کیا غزل پیش فرمائی ہے۔ خوش رہیں
مقطع میں اظہار ابھی تشنہ سا محسوس ہوتا ہے، بلخصوص مصرع َِ ثانی ، آپ سے مزید بہتر کی امید ہے۔۔
 
Top