پختون کی بیٹی - باب سوئم

تفسیر

محفلین
پختون کی بیٹی
عمل
سید تفسیر احمد​

روح القدوس نے اپنے نور سے ایک روح کو جدا کیا اور اسکو خوبصورت کی صفات دی۔اللہ تعالیٰ نے اس روح کو خوش اسلوب اور رحم دلی کی برکت دی۔

پھر اس روح کو خوشی کا پیالہ عطا کیااور فرمایا۔

'اس پیالہ سے اسوقت تک مت پینا جب تک کہ تم ماضی اور مستقبل کو نہ بھول جاؤ۔ وقتِ حال کی خوشی کے سوا کویئ خوشی نہیں۔ '

پھراللہ تعالیٰ اس روح کوغم کا پیالہ دیا اور فرمایا ' ا گر اس پیالے سے پیو تو چند روزا خوشی اور مستقل غم ہوگا۔

تب روح القدوس نے عورت کو ایسی محبت دی جو کے دنےاوی دل جویئ کے خاطروہ محبت کو کھودئے گی۔

اور جھوٹی تعریفوں کی وجہ سے اپنی لطافت اور نرمی کو چھوڑ دے گی۔
اور اللہ نے عورت کو جنت سے عقل مندی عطا کی تاکہ وہ صحیح راستہ پر چلے۔
اس کے دل کی گہرائیوں میں ایک آنکھ رکھی جو کے نہ دیکھی ہویئ چیزوں کو دیکھ سکے اور اس کو ہر چیز سے الفت اور ا چھایئ کی خوبی دی۔

روح القدوس نے اس کو امید کا لباس پہنایا جس کو جنت کے فرشتوں نے قوس و قزح سے بنایا اور اسکو پریشانی دماغ کا جامہ پہنا یا جو کہ زندگی کی صبح اور روشنی ہے۔

اس کے بعد االلہ تعالی نے غصہ کی آگ سے جہالت کے ریگستان کی خشک ہوا اور نفس پرستی کے سمندر کے کناروںکی چاقو کی طرح تیز ریت اورکُھردری مددتوں پرانی زمین کی مٹی کو ملا کر آدمی بنایا۔ اللہ تعالی نے مرد کوایسا اندھی قوت دی جواسکو دیوانہ بنادتی ہے اور وہ اس خواہش تکمیل کیلئے وہ موت کے منہ میں بھی چلا جاتا ہے۔
اللہ تعالی ہنسا اورپھر رویا۔ اُس نے مرد کیلے شفقت اور ترس محسوس کیا۔اور اس نے مرد کو اپنی نمائیندگی میں لے لیا۔​

پختونوالی

" ماں"۔ سعدیہ نے ماں کے گلے میں باہیں ڈال کر کہا۔

اماجان جانتی ہیں کہ جب سادیہ ایسا کرے یا وہ کچھ چاہتی ہے اور ہمشہ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہوتی ہیں لیکن یہ اُ س کو ماں کوپیار کرنے کا بہانا دیتی ہیں۔

"کیا بات ہے ، بیٹا ؟" ماں سعدیہ کو پیار سے بیٹا کہتی ہیں۔

" مجھے پیج میوزیم جانا ہے۔ مجھے labrea tar pit پر ایک مضمون لکھنا ہے۔"

" بھیا کے ساتھ چلی جاؤ۔ "

" وہ راستہ بھر میرا دماغ چاٹ جائیں گے "۔

" بلکل غلط، ماں یہ میرا دماغ کھا جائے گی "۔ میں نے ماں کے گھر والے آفس میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔

" اماں، انکی شکل دیکھیں ۔ جھوٹے ہیں نا"

" پگلی"
" پاگل "
" الّو"
" تم خود "
" الو"
" کچالو ، پکوڑے، سموسے ۔اب مزا آیا۔ پھر کہو آلو"
" رس ملایئ، گلاب جامن اور قلاقند"
" مٹھایئ کی دوکان، کانٹے"
" چنبیلی، خُوشبو"
" کدو، گاجر اور مولی"
" صبح، شبنم کا قطرہ اور اوس کا موتی "

اماں نے کہا۔ " یہ طوطے کی طرح ٹیں ٹیں ختم کرو۔ اور جاؤ دونوں تیار ہوجاؤ"
سادیہ نے مجھے اپنی زبان نکال کر دیکھا ئی۔

٭٭٭

لاس انجلس کے درمیان ایک جگہ لب ریا ٹار پٹ کہلا تی ہے۔ پیج میوزیم اس کی حدود میں بنایا گیا ہے۔ یہ میوزیم دنیا کی سب سے بڑی ice age کی حیوانی اور نباتاتی فوسل کی collection رکھتا ہے۔ اس جگہ پر دس سے چالس ہزار پہلے کا لاس انجیلس دیکھ سکتے ہیں۔ لاس انجیلس کے خشک دریا میںعظیم الحثہ جانور اور ایسے شیرجن کے دانت ہاتھی کی طرح تھے گھوتے پھرتے تھے۔لب ریا ٹار پٹ، تارکول کی جھیل ہے۔ٹار ایک سیاہ اور گاڑہ تیل ہے یہ لکڑی یاکوئلہ کی اجاڑ کی عرق کشی سے بنتا ہے۔ یہ بہت چپکنے والا گاڑہا تیل ہے۔اگر کویئ جانور اس کے نذدیک آئے تو وہ اس میں پھنس جائے گا، یقیناً نکلنے کی کوشش میں نڈھال ہوجاے گا اور بھوک سے مرجاے گا۔ دوسرے جانور اس کوکھانے آئیں گے اور وہ بھی پھنس جائیں گے۔ ہر دوسرے یا تیسرے سال ایک بڑا جانور اس میں پھنس جاتا تھا۔ پیج میوزیئم میں ان کے ڈھانچوں کی بحالی پر کام ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔

٭٭٭

اباجان نے کہا ۔" ہم لوگ یہاں ہیں تو قریب ہیں بیورلے ہلز میں لاسیانےگا بلوارڈ پر گے لارڈز ریسٹورنٹ میں کھا نا کھالیتے ہیں"۔

ہم سب اقرار سے سے ہلایا۔

سعدیہ نے مختلف چیزوں تھالی منگایئ ۔ جس میں تندوری چکن، روغن گوشت، بکری گوشت پلاؤ ، لہسن نان اور پاپڑ شامل ہیں۔ پینے کو روح افزا اور میٹھا کیلے گلاب جامن۔

ماں نے بغیرگوشت کی تھالی منگایئ ۔ جس میں مٹر پنیر، دال، بیگن بھرتا، چاول کا پلاؤ اور پوری ہے۔

اباجان نے تندوری تھالی منگایئ۔ جس میں تندوری چکن، بکری گوشت کے سیک کباب، پیاز کلچہ ، چاول کا پلاؤ اور پاپڑ۔

میں نے میری پسندیدہ تھالی لیمب چاپ ، سبزی، پیاز کلچہ منگایا، پینے کو لسّی اورقلفی کھانے کے بعد۔

٭٭٭

اماجان نے گفتگو شروع کی۔ آج ہم پختون والی کاجائزہ لیں گے۔

پختون یا پٹھان کا اجتماعی رہن سہن ایک رسم و رواج کے مجمو عہ پر منحصر ہے جو 'پختون والی' کہلایا ہے۔

پختون والی ، پختون کو ' عزت' کے اصول بتاتے ہیں۔ پختون کے لے ' عزت' بہت اہم ہے۔
سعدیہ نے پوچھا۔" پختون والی کوکس نے اور کب لکھا؟"

ماں نے کہا۔"جہاں تک ہمیں معلوم ہے اسکو کسی ایک شخص نے نہیں لکھا۔ پانچ ہزار سال سے یہ رسم و رواج ایک پشت سے دوسری پشت کو سیکھا ئے گے ہیں"۔

"آپ نے کہا کہ پٹھان کے لے ' عزت'بہت اہم ہے۔ اس سے آپ کی کیا مراد ہے؟"

ماں بولی ۔ " پٹھان کے لے ' عزت' زبردست ذمہ دا ری ہے اور وہ عزت یا بے عزتی کو دنیا کی دوسرے معاشروں کی طرح نہیں دیکھتا۔ یہ قوانین پختون کے عمل واعمال پر بہت اثر کرتے ہیں اور ایک پشت سے دوسری پشت پختونوالی کے رسم و رواج پاک سمجھے گے ہیں"۔

پختون کا ایک بہت مشہور شاعر خوش حال خان خٹک کہتا ہے۔"میں اس شخص کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہوں جو اپنی زندگی عزت سے نہ گزارے ۔لفظ عزت مجھکو غصہ دلاتا ہے"۔

"ماں وہ عزت کیا ذمہ داریاں ہیں؟"

" پختون والی کے رسم و رواج پختون پر چار ذمہ داریاں واجب کرتے ہیں "۔

"پہلی، پرانی دشمنیوں اور خون خرابہ کوختم کرنا ہے۔ اور دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنا ہے اور مجرم کو پناہ دینا۔ یہ ' ناناواتے 'کہلاتاہے۔

دوسری، دو فرقوں کے درمیان خون خرابی کو روکنے کیلے جرگہ کا التواے جنگ فیصلہ۔ یہ ' تیگا ' کہلاتاہے۔

تیسری، انتقام لینے کا فرض ۔ یہ ' بدل 'کہلاتاہے۔

چوتھی، مہمان داری ، عالی ظرفی، دلاوری، سچایئ، سیدھا پن، وطن پرستی، ملک سے محبت اوراسکی خدمت۔ یہ ' مل مستیا ' کہلاتاہے"۔

پختون والی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنے کے پختون کے لوگ۔ تما م پختون کے لوگوں کو اس پر عمل کرنا لازم ہے ۔ ان پر عمل نہ کرنا کا مطلب معیوب اور بے قدر ہونا ہے اور اس کی سزا فرد اور یا اسکے سار ے خاندان کو قبیلے سے نکال دینا ہے۔ پختون اور پختونوالی ایک بن چکے ہیں۔

٭٭٭


ناناواتے


" سعدیہ بیٹا، نانا واتے کے کیا چار مقاصد ہیں؟"

" ایک ، پرانی دشمنیوں اور خون خرابہ کوختم کرنا ہے۔ دو ، دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنا ہے تین، پناہ دینااورچار مہمان نوازی" ۔

ا ماں نے کہا۔"جب ایک لڑنے والا شخص نادم اور شرم گزار ہو کر قبیلہ کے بڑوں کے پاس آتا ہے اور وہ اس بات پر مکمل تیار ہو تا ہے کہ وہ اپنے دشمن کے ساتھ امن سے رہے گا۔ مہمان جو کے بدلہ لیناچاہتا تھا بزرگوں کو صلع و صفایئ کا موقع دےتا ہے۔ بہت کم ایسا ہوتا ہے کے مسلہ حل نہ ہو سکے۔ مسلہ حل ہونے کے بعد رحم طلب کرنے والا اپنی اوقات کے مطابق ایک بھینس ، گائے ، کچھ دُنبہ یا بکریاں ذبع کرے سب کی دعوت کرتا ہے"۔

ماں یہ تو ایک شریف النفسی ہے۔ ا س میں کیا خرابی ہے؟ میں نے پوچھا۔

ماں نے کہا۔ " مجرم کو پناہ دنیا۔ دوسرے معاشرے جو وقت کے ساتھ انسانیت کے اصول میں اصلاح کی طرف کرتے ۔ انہوں نے جرم کرنے دالوں سے پناہ کا حق چھین لیا آپ اگر مجرم ہیں تو آپ کو قانون کے حوالے کیا جائے گا "۔

"کیا پختون نے ایسا نہیں کہا؟"۔ میں نے سوال کیا۔

" بہت پہلے پختون نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پناہ کے عمل کو جرم پر فصلیت دیں گے۔ پناہ پر کویئ پابندی نہیں ہے "

اسکا کیا مطلب ہے؟ سعدیہ نے پوچھا۔

" کسی بھی پختون کے گھر میںکویئ بھی شخص ، اپنا پیچھا کرنے والے دُشمنوںسے پناہ لے سکتا ہے ۔پناہ لینے والاکسی بھی ذات، عقیدہ، رُتبہ کا ہو، دوست ہو اور یا دُشمن ہو۔"
" میں تم کو اس کی دو مثالیں دونگی"۔ ماں نے کہا۔

پہلی مثال یہ ہے:

" ایک دفعہ پختونستان میں قرضہ دہنے والے او ر قرضہ دارمیں جھگڑا ہوااور قرضہ دینے والا مارا گیا۔

قرضہ دار نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن لوگوں نے تمام راستے بند کردے۔
جب نکل نے کی کو یئ صورت نظر نہیں آیئ تو قاتل نے گاوں کے ٹاور کا رخ کیا اور ٹاور پر پہنچ کر چلایا۔

اللہ کے نام پر مجھ کو پناہ دو۔ ٹاور میں رہنے والے سردار نے قاتل سے معلومات کیں اور اس کو پتہ چلا کے جو شخص قتل ہوا وہ اسکا بھایئ تھا۔

سردار نے کہا ۔" تم نے میرے بھایئ کو قتل کیا ہے، مگر کیوں کے اللہ کے نام پر تم نے پناہ مانگی ہے اس لے اللہ کے نام پر میں تم کو پناہ دیتا ہوں " ۔ سردار نے قاتل کو اندر آنے دیا۔

جب تعاقب کرنے والے وہاں پہنچے تو سردار نے ان کو سختی سے چلے جانے کو کہا۔جب تعاقب کرنے والے چلے گے اس نے قاتل سے کہا کہ میں تم کو ایک گھنٹہ کا وقفہ دیتا ہوں تم یہاں سے سلا متی سے چلے جاؤ ۔

قاتل اُس وقت تو بچ گیا ۔

دوسری مثال یہ ہے۔

آٹھارہ سو ستّر میں کچھ مفرور لوگوں نے آدم خیل آفریدی کے ایک قبیلہ 'جو واکیس ' کے لوگوں سے پناہ لی۔

انگریزحکومت نے جو واکیس کے سرداروں کو حکم دیا کہ مفرورں کو حکومت کے حوالے کی جائے ، جو واکیس کے لوگوں نے انکار کیا۔

حکو مت نے پانچ ہزار سپاہیوں کی فوج بھیجی۔ ہر دُرہ اور وادی میں فوج نے قبضہ کیا۔ ہر ٹاور کو برباد کیا، بہت مویشی مارے گے۔ خاندانوں کا غیر برداشت جڑے کی سردی میں لوگوں کا برا حال ہو گیا تب قبیلوں کے سردار انگریزی سپہ سالار کے پاس آئے اور ہتھیار ڈالنے کی شرط پوچھی۔

انگریز نے کہا ۔نقد جرمانہ ، مُہم کی قیمت، کچھ ہتھیار کی حوالگی اور دو مشہور مفرور لوگوں کی سپردگی " ۔

سرداروں نے کہا۔ " تمام دوسری شرطیں منظور ہیں لیکن جو لوگوں ہماری پناہ میں ہیں، ہم سپرد نہیں کریں گے۔ تم نے ہمارے ملک پر قبضہ کیا ہے، رکھ لو۔ ہم کہیں اور گھر بناےئں گے۔لیکن جن کو ہم نے پناہ دی ان کی ہم حفاظت کریں گے۔ ان کو ہم سپرد نہیں کریں گے"۔

سعدیہ نے کہا۔" ماں اگر پختون کے لوگ دو مجرموں کےلے جان اور مال بربا د ہونے دیتے ہیں۔ شکست کھاتے ہیں اور ملک کو چھوڑ سکتے ہیں۔ایک بھایئ اپنے بھایئ کے قاتل کو جانے دیتا ہے۔ کیا ... گل ہمشہ کے لئے مرگی؟ "

ماں نے سعدیہ کو دلاسہ دیا۔ " تم اپنے ہم عمر کے پختونوں سے صلاح لو گی۔وہ عقل والے ہیں۔ لیکن وہ اُس معاشرہ میں پابند ہیں ۔ ہر ماںو باپ کی یہ شدید خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی اولاد ان سے بہتر زندگی گزارے۔ اس نسل نے دیکھ لیا ہے کہ ان کے معاشرے میں کیا تبدیلیاں چاہیں۔ وہ اپنی گلُوں کے لے ان حالات کو تبدیل کریں گی"۔

" اگر ایک پختون عورت اپنے باپ، اپنے شوہر، اپنے بیٹوں، اپنے بھایؤں اور اپنے دیوروں کی جان دسکتی ہے۔ تو کیا وہ اتنی کمزور ہے کہ ننھی کو بار بار مر نے دے " ۔ سعدیہ نے پرسوز آواز میں کہا

٭٭٭


کانررے ٹیگا



مقابلہ کرنے ولالے دو قبیلوں کے درمیان خون خرابہ کوختم کرنے کی ایک دوسری رسم ٹیگا کہلاتی ہے۔ ٹیگا کے لغوی معنی 'پتھر گاڑدینا 'ہے۔دوسرے الفاظ میں جرگہ ایک دفعہ جب وقعتی صلایئ کرتا ہے تو دونوں طرف لوگ اس کو توڑ نے سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ سزا ملے گی۔

جب دو مخالف فرقوں میں جنگ چھڑ جاتی ہے اور گولیاں چلنے لگتی ہیں تو قبیلہ کا جرگہ خون خرابہ ختم کرنا چاہتا ہے۔ مقامی قبیلہ کے سردار اور مذہبی علما جمع ہو کر اور دونوں طرف کے لوگوں سے مل کر ٹیگا کر دےتی ہے اس کا مطلب ہوا کہ دونوں طرف کہ لوگوں نے اس جرگہ کہ فیصلہ کو مانا اور اگر کیسی بھی طرف کے لوگوں نے ٹیگا توڑا ان کو سخت جرمانہ دےنا ہو گا۔ اس سے امن قایئم ہوتا ہے اور دونوں طرف کو موقع ملتا ہے کہ وہ آپس میں مل کر اور جرگہ کی رہنمایئ سے انصاف اور انسانیت کر اصول کے مطابق کو ئی سمجھوتا کرسکیں۔

اگر ایک طرف کے لوگ ٹیگا کو توڑ تے ہیں تو جرگہ پھر قوت کے زور پر جرمانہ وصول کرتا ہے۔ وہ ٹیگا توڑ نے والے کا گھر جلا دےا جاتا ہے۔ان کو اپنے علاقہ سے نکال دے جاتا ہے۔ یہ کام لشکر کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ لشکر گاوں کی فوج ہوتی ہے۔

٭٭٭


بدل


اپنی عزت اورsensitivity to insult پختون کی ایک خاصیت ہے۔ ہر پختون اپنے کو آپ کو کسی سے کم نہیں سمجھتا۔ ایک بے عز تی کا نتیجہ قتل ہوسکتا ہے۔کسی کا اسکی عورت سے چھپا عشق ، گھر کے کسی فرد کا یا ہمسایہ کا قتل ہونا۔تھوڑی سی دیادتی یا ملکیت کے نقصان پر بھی انتقام لیا جاتا ہے۔

پختون یقین کرتا ہے کی اسلامی شعریت کے مطابق آنکھ کا بدلا آنکھ، اور خون کا بدلہ خون ہے۔ اسلے وہ سمجھتا ہے کہ بے عز تی کا بدلہ لینے سے وہ بے عز تی دُھل جاتی ہے۔ وہ اس بات کا خیال نہیں کرتا کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ پختون اُس بے عز تی کا بدلہ نہیں لیتا جو کہ غلطی سے ہویئ ہو۔ جو پختون اپنی بے عز تی کا بدلہ نہیں لیتا وہ قبیلہ میں بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔

ڈاکٹر اسٹار نے لکھا ۔ " ایک دفعہ ایک بڈھا اسپتال میں آیا۔اُسکی آنکھیں کٹراک کی وجہ دھندلی تھیں۔ جب اُس کا نمبر آیاتو اس نے کہا کہ مجھے میری آ نکھیں پھر سے دے دو۔ تا کہ میں رایئفل استمال کر سکوں۔' ڈاکٹر نے پوچھا کیوں؟ بڈھے نے جواب دیا کہ سولہ سال ہوگے میںاب تک میرے بیٹے کے قتل کا انتقام تک نہیں لے پا یا۔

٭٭٭

میل مستیا

میل مستیا ایک مہمان داری کی رسم ہے۔ یہ مہمان داری دشمن اور دوست اور اجنبی سب سے برابر کی ہوتی ہے۔

ہرگاوں میں ایک سب کے ملنے کی جگہ ہوتی ہے جسے 'ہجرہ ' کہتے ہیں۔مہمان عموماً ہجرہ میں ٹہرتے ہیں۔ میزبان ، مہمان کے لے دنبہ یا بکرا کا گوشت تیار کرتا ہے اور حلوہ تیار کرتا ہے۔ اگر میزبان اس قابل نہیں کے دنبہ یا بکرا کرے تو وہ مرغی بنا تا ہے۔
ہار کالا راشا، پا خیر راغلے ، ایستارے ماشے ، اور تاکررا یے ۔ انکا مطلب ہے کہ ہمشہ آو، خوش آمدید، امید ہے کہ تم تھکے نہ ہو۔ کیا تم اچھے ہو؟ مہمان خوشی سے کہتا ہے۔ پا خیر اوسے، خدایا دے مال شا، خوش حا اوسے، ما خوارے گے۔ جن کا مطلب ہے۔ خدا تم کو حفاظت سے رکھے، خدا تمہارے ساتھ ہو، تم خوش حال اور خوش رہو، تم بے حس نہ ہو۔ پہلے چائے پیش کی جاتی ہے اور پھر حلوہ، پلاؤ اور دوسرے لوازمات۔ جب مہمان رخصت ہوتاہے تو پا مخا دے خا۔تمہارا سفر بغیر خطرہ اور اچھا رہے۔
ہر مہمان سارے گاؤں کا مہمان سمجھا جاتاہے۔ اور ہجرہ میں سب اس کی دیکھ بال کرتے ہیں۔اور مہمان دسترخوان پر گاوں کے بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتا ہے۔ پختون کا اصول ہے کہ مہمان اگرچے کے اسکا پیٹ بھرا ہو پھر بھی گاوں کے لوگوں کے ساتھ کم از کم کچھ لقمے کھائے۔ کھانے کے بعد نماز اور مہمان کی خوش حالی اور مہمان نوازی کیلے دعا ما نگی جاتی ہے۔

ڈاکٹر پینل بنوں اور اس کے اردگرد کرے علاقے میں ایک میشنری ڈاکٹر تھا۔ وہ لکھتا ہے۔ ۔" ایک موقع پر وہ اور اسکا ایک ساتھی ایک گاؤں میں رات کو دیر سے پہنچے۔ سردار گھر پر موجود نہیں تھا اسکا لڑکا بڑے خلوص سے ملا اور فوراً مرغ اور پلاؤ بنواکر پیش کیا۔ سردار رات کو گھر دیر سے پہنچا۔ جب اس کو پتہ چلا کہ بنوں کے پادر صاحب اسکے مہمان ہیںاور اس کے لڑکے نے صرف مرغ اور پلاؤ کھانے میں پیش کیےئ اس نے فوراً باورچی سے دنبہ ذبع کروا کر پکوایا۔

ماں نے مجھ سے پوچھا ۔پختون کی مہمان نوازی کی کیا خصوصیات ہیں؟

میں نے جواب دیا۔ " ایک ۔ دوست ، دشمن یا اجنبی ہر شخص کے ساتھ مہمان نوازی ۔ دو۔ ہجرہ میں مہمان کو ٹھرانا۔ تین ۔ حیثیت کے بڑھ کر کھانابنانا۔ چار ۔ مہمان، پورے گاوں کا ہویا ہے۔ پانچ۔ مہمان گاوں کے بڑوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ کم از کم کچھ لقمے کھائے۔ چھ۔ کھانے کے بعد نماز اور مہمان کی خوش حالی اور مہمان نوازی کیلے دعا ما نگی جاتی ہے۔

٭٭٭

" پاکستان کے شمال مغرب میں کی سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔ اس سرحدی علاقے میں ٧ مشہور درہ ہیں۔ درہ خیبر، درہ مالاکند ، درہ گنداب، درہ کوہاٹ، در ہ نیگاش، در ہ گومل ، در ہ ٹوچی اور درہ بولان۔ پانچ دریا ہیں۔ پختونیستان میں دریا سوات، دریاخرم ، دریاٹوچی اوردریا گومل بہتے ہیں۔ پختونیستان میں رہنے والے پشتون، پختون اور پھٹان کہلاتے ہیں۔

پختون کون ہیں اور کہاں سے اس علا قہ میں آے کسی کو اس کا صحیح پتہ نہیں۔ لیکن ان کے مطلق چار قیاس آرایئ ہیں۔

مشہور عالم البیرونی نے جو دسویں صدی میں غزنی میںرہا ' اس نے تاریخ الہند ' میں پختون کے مطلق لکھا ہے۔ " ایک باغی اور جنگلی قوم ہندوستان کے مشرق میں بستی ہے۔"

میجر ارٹی ای ریج وے نے اٹھارویں صدی میںاپنی کتاب 'پھٹان' میں لکھا۔ پھٹان حضرت سلیمان کے سپہ سالارجےر ے مایہ کے بیٹے افغانہ کی اولاد ہیں" ۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ وہ جوزف کی اولاد ہیں۔ جوزف کا قبیلہ اُن دس یہودی قبیلوں میںشمار ہوتا ہے جو کھوئے ہوے لوگ کہلاتے ہیں۔

بعض تاریخ دان کہتے ہیں کے پختون کے نقش و نگا ر اُن قومیں سے جو دریا سندھ کی دوسری طرف رہتی ہیں ملتے ہیں۔ان میں ترکی اور ایران بھی شامل ہیں۔

اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ پٹھان قوم عرب سے قریب ہیں۔جب ہم عرب اور پھٹان قوم کی قبیلہ بندی اور سماجی استعمال کا مطالحہ کتے ہیں تو دونوں میں حیرت انگیز مشاہبت ہے۔

اسلام سے پہلے عرب میں بھی آذادی سے عشق، شجاعت، برداشت، مہمان نوازی، اور انتقام لینا کے فرض موجود تھے۔

پختون مرد عموماً ڈھیلی قمیض اور شلوار پہنتا ہے اور ایک بڑی پھگڑی بانتا ہے۔اپنے کندھے پر ایک چادر اور ایک رائفل رکھتا ہے۔ پختون عورتیں عموماً چھاپے ہوے کپڑے پہنتی ہیں۔

تمام حملہ آور ایرانی، یونانی، ترکی، مغل، افغانی، سکھ اور انگریز جنہوں نے شمالی ایشا کو فتع کیا پختون کو نہ ہرا سکے۔

پہاڑی پختونً یوسف زایئ، محمند، آفریدی، شنواریز، آرکزایئ، توریس، بانگاش، خٹک، وزیر، اورمسحود ، مرد وں کی سوسائٹی ہے اور نئے قوانین کو بلکل نہیں مانتے پختون بڑے مغرور لوگ ہیں۔ پختون لیڈر خان ولی خان نے ایک دفعہ کہا۔ " میںپانچ ہزار سال سے پختون ہوں اور مسلمان چودہ سو سال سے اور پاکستانی صرف چالیس سال سے" ۔

دو خیال ۔

'مہمان نوازی' اور مجرموں کو پناہ دینا دونوں مختلف ہیں وہ ایک چیز نہیں ہیں۔ پختون کے علا قہ اورپختون کی فلاح و بہبود کے لے ۔ ان کو علیحدہ کرنا چائیے۔
' آذادی' کا مطلب قتل، بلیک میل، فدیہ یا randsom اور نشہ نہیں ہے۔دنیا میں پرجگہ تعلیم پھلایئ گی، لوگوں کی فلاح و بہبود کی گئی اوران قبیلہ کی فوجوں کو ملک کی فوجوں میں نوکری دی گی۔اس کی مثال سنٹرل ایشیا کے ۔ ' باسماچیز' ہیںجب انہو ں نے tzarist فوج سے لڑا ۔ ان کو شکست ہویئ۔

٭٭٭

اسلام

علم فقہ کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔

  • اقران کا قانون بنانے والا حصہ،
    سنّت۔جس طرح رسول نے اپنی زندگی گزاری ،
    حدیث ، روایت پر

اسکے علاوہ اجماع یامطابقت، قیاس یایکسانیت۔ سبب یکسانیت کو دلیل میں استعمال کرنا، اجتہاد۔ تجدریجی یکسانیت ،جو چیزیں ان چار واصل میں نہ شامل ہوں، اسلامی قانون منع ہیں۔

فقہ کی بنیادیں 'منفرد اور اسکا سماجی اطور' کے لیے عمل کے اصول رایئج کرتی ہیں۔ مجموعہ قانون سماجی اطورکو پانچ حصوں میں تقسیم کرتا ہے۔

  • لازم
    قابل
    ِتعریف
    جائز
    نا جائز
    عیب
    منع۔

اسلامی مدرسہِ قانون کی چار شاخیں جو اس وقت سنّی اسلام میں موجود ہیں۔
شمال اور مغربی افریقہ میں مَلَکی، توریک ایشیا میںحنّفی، شَافِی مصر ، مشرقی افریقہ، جنوبی مغربی ایشیا اور حَنبالی سودیہ عرب میں۔

ان شاخوں میں کچھ مذہبی ارکان اور ان کی تعمیل میں اختلا ف رائے ہے۔شیا ؤں کا شرعی قانون جافری یا بارہ امام ہے۔مسلم مُلا ،اسلام کو د ینِ مقرر قرار کہتے ہیں ، یعنی اللہ تعالی نے اسلام پر مذہب کو مکمل کردیا ہے اور اب یہ اصول اور احکام ہر دور اور زمانہ کے لئے ہیں ۔اس لیے اسلامی فق میں کویئ تبدلی جا ئزنہیں ہے۔

اسلام کے عظیم اور جلیل دور جو کہ سات صدی سے بارہ صدی تک تھا مسلمانوں نے اجتہاد کو اپنایا۔ بارویں صدی میں ابن تمییا جو کہ اسلامی متعلمِ قانون اور فلاسفر تھا اس نے نئے علم برتاؤ اور سمجھ دانی کو سماج کی ضروریت سے یکسانیت دکھای۔ لیکن دوسرے علماء نے غیر متحرکی اختیار کرلی۔ اور کہا کی جو کچھ علم ہے حاصل ہو چکا ہے۔اور انہوں نے اسلامی قوانین کی ترقی کو روک دیا۔ جب الغزالی ، الافغانی اور محمد ابدو جسے علماء پیدا ہوےئے تو انہوں نے پھر سے اسلامی فقہ میں جان ڈالی اور اسلام کی حودد میں رہتے ہوے مارڈن زندگی کی انفرادی اور اجتماعی متضاد کو حل جانے کا کام شروع کیا۔

ایک حدیث میں رسول نے کہا۔ "مذہب وہ نہیں ہے جو آپ رسموں کی طرح باقاعدہ مشق کرتے ہیں بلکہ وہ ہے جو آپ اپنا تے ہیںاورایک دوسرے سے حصہ کرتے ہیں۔

٭٭٭
[color=#0000FF
]سماجی طریقہ اور اسلامی اخلاقیات[/color]


ایک دفعہ حضور صلم مسجد میں داخل ہوے اور دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص تسبیح پڑھ رہا ہے۔ حضور صلم کو بتایا گیا کہ یہ شخص سارا دن مسجد میں گزار تا ہے اور دوسروں کو بھی تبلیغ کرتا ہے۔تو حضور صلم نے پوچھا۔کہ یہ اپنی روزی کیسے کماتا ہے۔ حضور صلم کو بتایا گیا کہ ا یک خدا پرس تاجر اسکے اخراجات ادا کرتا ہے۔ حضور صلم نے کہا ان دونوں میں تاجر کا درجہ بڑا ہے۔

ایک حدیث میں یہ کہا گیا ہے۔ حضور صلم نے فرمایا۔ "اگرکویئ تمہارے درمیان کسی کو غلطی کرتا دیکھے تواسکا فرض ہے کہ ہاتھوں یعنی عمل، خوش اطوار، اصرار سے اسکو صحیح کرے۔ اگر نہیں تو پھر زبان سے یعنی اس کے خلاف بولے۔اگر تب بھی غلطی موجود رہے تو خاموشی سے ناپسندید گی کا اظہار کرے اور اگرسامنے نہیں تو دل میں کرے ۔ دل میں ناپسندید گی کا اظہار کا درجہ واثق کی نشانی ہے۔

ایمان کی زندگی عبادہ ہے، انسانیت کی فلاح و بہبود کرنا سے خدا ملتا ہے۔ اکھٹا فصلیت اور اخلاقیت قران میں برابری، انصاف و عدل، ا یمان داری، بھایئ بندی ، رحم، ہمددری، اتحاد، خود اختیاری۔

اسلام میں بھی فرد کے حقوق اوربہبودگیِ رعایا ، میں رشتہ ہے۔ اس سے پہلے کے وہ اپنے حقوق مانگے، فرد کو اپنی ذمداری پوری کرنی ہے۔

٭٭٭

اسلام ، بالغیت، عورت اور شادی۔

١۔ اسلا م میںچار عورتوں تک شادی جایئز ہے۔ " اگر یہ خوف ہے کہ تم یتیموں(جن کو تم نے رکھا) کے ساتھ انصاف نہ کرو گے تو جو تم کو اچھی لگیں ان دو یا تین یا چارعورتوں سے شادی کرلو۔اگر تم ان کو حق نا دے سکو تو ایک سے شادی کرو۔ "(سورۃ ا لنساء )

٢۔ اسلام میں عورت کو ڈاوری یا مہر یا والور دینا جایئز ہے۔ " اور عورتوں کو ڈاوری کا تحفہ دو۔لیکن اگر اپنی مرضی سے اسکے کچھ حصہ تم کو دیںتو تم اس کو خوشی سے لے لو۔" (سورۃ ا لنسا ء )

٣۔اسلام میں لڑکی اپنی پہلی ماہواری کے بعد بالغ کہلاتی ہے۔ بعض علاقوں میں لڑکیوں کی ماہواری ٩ سال سے ١٢ سال کی عمر میں ہوتی ہے۔ " کچھ اور تمہاری عورتیں جو کے ماہواری سے گزر چکی ہیں۔اگر تم کو شک ہو تو تین مہینہ کا انتظارکرو۔" (سورۃ ا لنسا ئ)

٤۔" یتیموں کو جانچوں اگر وہ شادی کی عمر کے ہیں اور تم ان کو سمجھ دار سمجھتے ہو توان کو ان کی ملکیت واپس دے دو۔" (سورۃ ا لنسا ء )

٥۔ " اور مرد بالغ جب ہوجاتا ہے جب وہ چالیس سال کا ہوجاتاہے۔"(سورۃ الاحقاف)



اسلام اور بدلہ۔
اسلام میں اللہ کی راہ میں بدلہ لینا جائزہے۔
٭٭٭

حدود ارڈیننس( جرمِ زنا)

١۔ یہ قانون ، جرمِ زنا سارے پاکستان پر بارہ رجب اول تیرا سو ننانوے(١٩٧٩ کو نافذ ہوتا ہے۔
٢۔تطریف۔
(١)۔بالغیت: مرد ١٨ سال اور بالغ عورت ١٦ سال،
(ب)۔حدد : سننہ یا قران سے سزالیگی ہیں۔
(ت) ۔شادی: جو کہ ذاتی قانون یا نالش ذاتی سے ختم نا کیگی ہو۔
شادی شدہ۔
محسن۔
(١) ایک مسلم بالغ عورت جو کہ پاگل نہیں ہے اور اس نے یک مسلم بالغ مرد سے ہم بستری کی جو کہ اس عورت سے شادی شدہ تھا اور پاگل نہیں تھا۔
(١١)ایک مسلم بالغ مرد جو کہ پاگل نہیں ہے اور اس نے یک مسلم بالغ عورت سے ہم بستری کی جو کہ اس مرد سے شادی شدہ تھی اور پاگل نہیںتھی۔
(ث)تازیر۔ کا مطلب وہ سزایئیں جو کہ ۔ قانون" حد " سے باہر ہیں۔ اور تمام شرایئط و بیان جو کی یہاں نہیں لکھی ہیں بلکل ویسی ہیں جیسی کہ پاکستان کے پینل کوڈ یا کوڈ آف کریمنل پروسیجر۔اٹھارہ سو اٹھانوے۔
٣۔ یہ ارڈیننس کی حکم سزا اپنی جگہ پر قایئم رہیں گی باوجود کہ دوسرے قانون جو اس وقت نافذ ہوںاسے اختلاف کریں۔
٤۔ زنا۔ ایک مرد اور عورت جو کہ شادی شدہ نہ ہوں دونوں کی مرضی سے ہم آپس میں بستری کریں۔


٭٭٭

نظم و نسق

دو یا دو سے زیادہ لو گوں کا ایک مقصد کو حاصل کرنے کے لے مل کر کام کرنا نظم و نسق یا آرگینایئزیشن کہلاتا ہے۔نظم و نسق کے لے کویئ مقصد کا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ مقصد کو حاصل کرنے کے لیے، منصوبہ بندی، ذرایئع منظمی ، رہبری عملداری اور سپردگی کی مشق کو جماعت منتظمان کہتے ہیں۔

منصوبہ بندی مقصدوں کی شناخت، وضع ، ذرایئع جو کہ مقصد کو حاصل کرنے کے ضروری ہیں۔ منصوبہ بندی کیئ قسم کی ہوتی ہے۔ تذویری,بیو,ار اور بھی بہت سی دوسری قسم کی منصوبہ بندی ہوتی ہیں

تذویری پوری ارگینایئزیسن کے لیے ہوتی ہے۔۔ مقصدکیا ہے؟ مقصدکس طرح حاصل کرنا ہے؟ کیسے جانچے کے مقصد حاصل ہو گیا؟ ۔

بیوپار کی منصوبہ بندی صرف productکے لیے ہوتی ہے۔ مقصدکیا ہے؟ مقصدکس طرح حاصل کرنا ہے؟ کیسے جانچے کے مقصد حاصل ہو گیا؟ ۔

ذرایئع منظمی ذرایئع کو اکٹھا کرنا اور ان کا مؤثر طریقہ سے استعمال کرنا ۔

رہبری جو لوگ آپ کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کو مقصد کا بتانا، مقصد کو حاصل کرنے کے طریقوں سے آگاہ کرنااور ٹریننگ دنیا۔

عملداری دو یا دو سے زیادہ لو گوں کا ایک مقصد کو حاصل کرنے کے لے مل کر کام کرنا نظم و نسق یا آرگینایئزیشن کہلاتا ہے۔نظم و نسق کے لے کویئ مقصد کا حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس مقصد کی شناخت کے لے منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مقصد پر پہنچنے تجاویزکی اطلا ع دہی اور پھر ان عمل کرنا۔

عملداری یاکنٹرولینگ نظم و نسق یا سسٹم ، کام کے طریقے یا پروسس کی اطلا ع اور ان پر نگاہ رکھنا اور ٹریکینگ دینا۔

سپردگی بہت سی صورتوں میں ایک ناظم ا پنے کا کام تھوڑا حصہ ایک یا زیادہ لوگوں میں باٹتا ہے۔ان لوگوں کو ان کاموں کی تکمیل کرنے کی پوری ذمہ داری بھی دیتا ہے۔جس کی وجہ سے ان نایئبوں کو ذرایئع استمعال کرنے کا ا خیتاری مل جا تا ہے۔


٭٭٭

پختون کی نفسیات

ایک درمیانے قد کا آدمی ، جس کی آنکھیں حساس ہیں روشنی سے اور جس کے چَھلے دار تیلی بالوں کو خوبصورتی سے کنگا کیا گیا ہے۔با لوں کو پھرایک لال پکڑے سے پگڑی کی طرح باندھا ہے۔اس نے اپنے بالوں میں ایک پھول پہنا ہے ، آنکھوں میں سرما لگایا ہے اور اخروٹ کی چھال سے سرخ کیے ہونٹ ہیں۔اسکے ایک ہاتھ میں ستار ہے اور کندھے پر رائفل۔اس کی آنکھیں دلیر، خطرے سے نا وافتہ ہیں اور نہیں جانتی کہ اتنی دیر تک زندہ نہیں رہیں گی کہ جان سکیں موت کیا ہے؟

یہ بہادر پختون کا بیٹا جب خطرہ سے گزر رہا ہوتا ہے ہنستا ہے اور گانا گاتا ہے۔ یہ شکیل اور قویئ جواں مرد پختون جلد ہی ایک جنگ میں مرجائے گا۔ یہ مرد صر ف محبت کرنے، ہنسنے اور لڑنے کے علاوہ کچھ نہیں جانتا۔اس کو اور کچھ نہیں سکھایا گیا ہے۔ ایک دن وہ اپنی ماں کو بتاتا ہے کہ اس کو ایک لڑکی پسند ہے۔ ماں لڑکی کے ہاتھوں حنّا لگانے اپنی بہترین لباس میں ملبوس عورتوں کو لیکر لڑکی والوں کے ہاں جاتی ہے۔

ایک دن وہ گھر سے باہر نکلتا ہے۔ اور ہنستا ہوا اپنے ہی خون اورنسل کے مرد کی گولی کا شکار ہو جاتا ہے۔اسکی بیوی کو وراثت میں ایک خوشی کا لمحہ، دو لڑکے اور زندگی بھر کا غم ملتا ہے۔وہ شوہر کی رائفل کو لٹکا دیتی ہے اور بچوں کوستار دے د یتی ہے۔

وہ اپنے آنسوں چھپانا سیکھ لیتی ہے۔ وہ بڑے بیٹے کو بہت چاھتی ہے کیوں کہ اس میں باپ سے بہت مشابہت ہے۔ اور چھوٹے کو کیوں کہ وہ اپنے با پ کی طرح مسکراتا ہے۔ جب شام میں وہ تینوں آگ کے ارد گرد بیٹھتے ہیں اور بچے پوچھتے ہیں " ۔ ہمارا باپ کون تھا؟۔" وہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ ایک مشہور ڈاکٹر، فلاسفر، یا عالم تھا۔دہ صرف یہ کہتی ہے ۔ " وہ ایک بہت بڑا آدمی اور ایک بہادر سپاہی تھا" اور پھر وہ انکو وہ اُس جنگ گانے سننا تی ہے جس میں انکا باپ اور اپنے تین بھایئیوں اور پانچ چچازاد بھائیوں کے ساتھ مارا گیا۔

پٹھان کا دل نازک ہے لیکن وہ اس کو چھپاتا ہے۔

وہ ایک اچھا سپاہی ہے جواپنی کردار کی کمزوری کو ظاہر نہ ہونے دے گا۔" شیرین مت ہو۔" " لطا فت کی ، تو لوگ تم کو ہضم کر جایئیں گے اور حد دسے زیادہ تلخی کی تو وہ اُگل دیں گے "

حفاظتِ ذات : لطافت کو میں تلخی چھپانا ہے۔ و ہ تند مزاجی، مضبوط جسم اور نرم دل کا زندہ مجموعہ ہے لیکن یہ تو ایک شاعر ی کے لے ایک رنگین موضوع ہے۔ چہرے پہ کھردراپن۔ ۔" کیونکہ وہ تمہیں اپنی نم آنکھوں نہیں دیکھنا چاھتا۔وہ تمہیں اپنا کھردراپن دیکھاے بجاے اسکے کہ تم اسکی آنکھیں بیوی کے غم میں نم دیکھو"

اسکے ماں باپ اپنی زندگی کے تجربات سے اسکو آگاہ کرتے ہیں " کبوتر کی آنکھیں پیاری ہیں لیکن فضا شاہین کے لئے بنایئ گئ ہے۔ تم اپنی آنکھوں کو چھپاؤ اور اپنے پنجوں کو بڑھاؤ۔ "

لیکن کبھی جب وہ شام میں تنہا بیٹھتا ہے تو وہ کبوتر کیطرع کو کو کرتا ہے۔وہ شادی کے بغیر محبت کو مکمل نہی سمجھتا۔لیکن اگر وہ محبت جرائت کرتا ہے تو یہ جانتے ہوے کے اسکا قتل عام ہوگا۔

پٹھان اپنی بیٹی کے معشوق کو گولی مار دیگا لیکن وہ عشق کی عظمت کے گانے گاے گا۔ جب وہ محبت کا ساز بجاتا ہے توآنکھیں نم ناک ہوکر خوابوں میں ڈوب جاتی ہیں۔

٭٭٭
 

تفسیر

محفلین

پختون کی سیاست

پٹھان صاف اور سیدھا ہوتا ہے۔ ہر پٹھان یہ سمجھتا ہے کہ وہ سکندرِاعظم ہے۔ اور وہ سب لوگ اس با ت کو منظو ر کریں۔ اس وجہ سے بیٹا باپ سے، بھائ بھائ سے اورکزن کزن سے لڑتا ہے۔ پختون ایک بڑی قوم نہیں بن سکتی اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہر گھر میں ایک مطلق العنان ہوتا ہے جو کہ اپنا گھر جلادیگا بجاے اس کے کہ اسکا بھائ حکومت کرے۔

پٹھان کے عمدہ خیال کے وسیلے غصہ کرنا ، زبردستی کرنا اور گہری جہالت ہیں۔اگر وہ کوہاٹ کا ناظم اعلیٰ نہیں بن سکتا تو اسے کوہاٹ سے حقارت ہو جاتی ہے اوروہ اپنے ڈھائ مٹی کے گھر کو کوہاٹ سمجھنے لگتا ہے۔

موقع شناسی کا اس کو علم نہیں۔ سوچ سے کام لینے کے بجاے وہ ہمشہ طاقت کے بل پر مسائل کو حل کرنا چاہتا ہے۔ بلند نظری بغیر صبری کی وجہ سے جوانی میں مرتا ہے۔

اسکا دل بڑا اور دماغ چھوٹا۔ اسی دجہ سے وہ ایک دل فریب دوست اور ایک اچھا میزبان ہے۔ وہ ڈاکہ اس لئے ڈالتا ہے کیونکہ اسکا دماغ مغرور ہے اور پیٹ خالی ہے۔

جب اسے خیرات اور فدیہ کے درمیان پسند کرنا ہوتا ہے تو وہ فدیہ کو قبول کرتا ہے ۔

کیونکہ وہ آدمی ہے کیڑا نہیں۔دیکھو اس کی خوبصورت جوان بیوی کے پٹھے کپڑے اور بچے کی بھوکی آنکھیں۔وہ دانت پیس کر ر ائفل اٹھا تا ہے اور ایک کے لے ایک گز کپڑا اور دوسرے کے لے ایک منہ بھر غذا کے لے موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ جب ایک معاشرہ اس کے پیاروں کے لے زندگی کے سامان نہیں مہیا کرتا تو وہ اسکو اپنے پاوں تلے روند دیتا ہے۔

وہ بھیک مانگنے کے بجاے چوری کرنا اچھا سمجھتاہے۔ وہ خدا کے اور انسان کے قہر کو قبول کرنے کو تیار ہے لیکن غریبی کی شرم و ذلت اور تحقیر کو برداشت نہیں کر سکتا۔

انگریزوں نے دو سو سال تک اس کو رشوت دے کر بگاڑا ہے۔ انہوں نے اس کے ملاؤں، خانوں اور فقیروں کو خرید لیا۔

٭٭٭

اباجان نے سب کو نچلی منزل کے زمین دوز(بیس مینٹ) کمرے میں جمع ہونے کا کہا۔ یہ کمرہ ہمارا انٹرٹینمیٹ روم ہے۔ اس میں ایک سارے گھر کی سہولیات ہیں۔ پورا کیچن، ڈایئنیگ ٹیبل، مشروبات کا بار، باتھ روم، جم ،گیم ٹیبل اور کمپوٹر روم اور سیٹیلائٹ کنشن ۔

اِنٹرٹینٹ مینٹ سینٹر میں ماڈرن پراجیکشن سسٹم ہے۔ جو پلازمہ کے اسکرین پر فلم کو دیکھاتا ہے۔سکرین ساؤنڈ اس کمرہ کو تھیٹر بنادیتا ہے۔دس لوگ آرامدہ صوفوں میں بیٹھ کر فلم دیکھ سکتے ہیں۔ ہم لوگ مگر چھہ ہیں۔ اباجان، اماجان، نورا، سکینہ، سعدیہ اور میں۔

نورا نے کھانے کی میز پر پھل، ڈرایئ فروٹ، مٹھایئ ، اور چائے لگا رکھی تھی۔ میں نے سب کو پانچ منٹ دیے تاکہ وہ پیلٹ اور چائے لیے لیں۔ پھر میں نے کھڑے ہوکر کہا۔

خواتین و حضرات ، توجہ۔

اس کو پرواز بلندی کا ہے فخر اور امتیاز
حسن لاجواب عقلمند بھی تو ہے بے حساب

نڈراتنی کہ کرتی ہے حملہ اس جابر و فْقیر پر
لگاتاہے ڈاڑھی پر اپنی جو خضاب
رنج ہے بہت اسکو بہنوں کی تباہی کا
شرمسار، جب مسلمان کرتے ہیں عمالِ خرابِ

قلم کی بڑایئ یا تلوار کی تیزی تو ایکطرف
دیکھیں اسکو جب وہ دشمن سے کرتی ہے خطاب

میں سعدیہ کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ سعدیہ پہلے میں آپ کو یہ مسئلہ اور اسکا حل پیش کر یں گی اس کے بعد دس منٹ کا وقفہ اور پھرسوال اور جواب کا سیشن ہوگا۔ تب تک آپ اپنے سوالوں کو کاغذ پر لکھ لیں۔"

میری بہن، میری دوست ، میری سردارنی سعدیہ۔ "
سعدیہ نے ایک سویچ کو آن کیا اور اسکی سلایڈ پلازمہ اسکرین پر نظر آیئ۔

پختون کی لڑکیوں کا مسلہ

سعدیہ نے گہری سانس لی۔ اسکا جسم تنا ہوا تھا۔"

بھیا نے کہا تھا کہ تین گہری سانس لینا اور پھر سب کودیکھنا۔ تم ہم سب سے ہر روز باتیں کرتی ہو۔ سوچو کہ یہ دن دوسرے دِنوں کی طرح ہے۔ جب بے چینی یا گھبراہٹ ہو میر ی طرف دیکھنا "۔

سعدیہ نے دوسری گہری سانس لی اور اپنی توجہ حاضرین کی طرف کی۔ابا جان کی آنکھوں میں بیٹی پر فخر تھا۔ اماجان کی آنکھوں میں پیار تھا۔ نورا کی آنکھوں میں چاھت تھی اور بھیا، بھیا کی آنکھوں میں شرارت تھی۔ صرف سکینہ کی آنکھوں میں اشتیاق تھاا ور میں فیصلہ کیا اگرمیں نے بے چینی محسوس کی تو سکینہ کی آنکھوں سے آرام اور بہلاؤ حاصل کروں گی۔

سعدیہ نے تیسری گہری سانس لی۔

"بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔

روح القدوس نے اپنے نور سے ایک روح کو جدا کیا اور اسکو خوبصورت کی صفات دی۔
اللہ تعالیٰ نے اس روح کو خوش اسلوب اور رحم دلی کی برکت دی۔

پھر اس روح کو خوشی کا پیالہ عطا کیااور فرمایا۔'اس پیالہ سے اسوقت تک مت پینا جب تک کہ تم ماضی اور مستقبل کو نہ بھول جاؤ۔

وقتِ حال کی خوشی کے سوا کویئ خوشی نہیں۔

' پھر اللہ تعالیٰ اس روح کوغم کا پیالہ دیا اور فرمایا ' ا گر اس پیالے سے پیو تو چند روزا خوشی اور مستقیل غم ہوگا۔

تب روح القدوس نے عورت کو ایسی محبت دی جس کو وہ دنیاوی دل جوئ کے خاطر ، وہ کھودئے گی۔ اور جھوٹی تعریفوں کی وجہ سے اپنی لطافت اور نرمی کو چھوڑ دے گی۔

اللہ نے عورت کو جنت سے عقل مندی عطا کی تاکہ وہ صحیح راستہ پر چلے۔ اس کے دل کی گہرائیوں میں ایک آنکھ رکھی جو کے نہ دیکھی ہوئ چیزوں کو دیکھ سکے اور اس کو ہر چیز سے الفت اور ا چھایئ کی خوبی دی۔

روح القدوس نے اس کو امید کا لباس پہنایاجس کو جنت کے فرشتوں نے قوس و قزح سے بنایا اور اسکو پریشانی دماغ کا جامہ پہنا یا جو کہ زندگی کی صبح اور روشنی ہے۔

اس کے بعداللہ تعالی نے غصہ کی آگ سے جہالت کے ریگستان کی خشک ہوا اور نفس پرستی کے سمندر کے کناروںکی چاقو کی طرح تیز ریت اورکُھردری ، مددتوں پرانی زمین کی مٹی کو ملا کر آدمی بنایا۔

اللہ تعالی نے مرد کوایسا اندھی قوت دیئی جواسکو دیوانا بنادتی ہے اور وہ اس خواہش تکمیل کیلئے وہ موت کے منہ میں بھی چلا جاتا ہے۔

اللہ تعالی ہنسا اور رویا۔ اُس نے مرد کیلے شفقت اور ترس محسوس کیا۔اور اس نے مرد کو اپنی نمائیندگی میں لے لیا۔

سعدیہ نے سانس لی۔اور بولی۔

"خلیل جبران نے اپنی مشہور کتاب 'ُProphet 'میں یہ لکھاتھا۔" سعدیہ نے ہنس کر کہا۔

"مرد کوبہت ریاعت حاصل ہے" ۔

" لیکن اللہ تعالی نے ہم عورتوں کو عقل مندی، گہری سمجھ ، الفت و اچھایئ اور امید بخشی ہے۔

خواتین و حضرات،

ہم اس مسلہ کو حل کر سکتے ہیں۔ سینکڑوں لڑکیوں کی زندگی ہر سال تباہ ہوتی ہے۔وہ میری تمہاری بہن ہیں ۔

سلائیڈ پر لکھا تھا۔


پختون کی لڑکیوں کا مسئلہ​

آپ سوال کریں گے کہ کیا مسئلہ؟

پختون کی لڑکیوں کا کیا مسئلہ؟ " سعیدہ نے سلایڈ کوآگے بڑا یا۔
  • کم عمری میں شادی
    پیدایئش کے دوران مرنا
    شوہر اور اس کے خاندان کیطرف سے ظلم اُٹھانا۔
یہ تو بہت بھیانک خرابی ہے۔

٭

ماں باپ لڑکی کی کم عمر کی شادی کیوں کرتے ہیں اس کئی وجہ ہیں۔ سعیدہ نے گہرا سانس لیا۔

پہلی اور سب سی اہم وجہ ۔ بالغ ہو نے کی عمر۔ اسلامی قانون میں بالغیت کا تصور۔
دوسری اہم وجہ ۔ رسم و رواج ۔ پختونولی۔ پختون کے رسم و رواج۔
تیسری اہم وجہ ۔والور۔ لڑکیاں آمدنی کا زریع بن گی ہیں۔
چوتھی اہم وجہ ۔ غریبی۔ ایک پیٹ کم بھرنے کو۔
پانچوی اہم وجہ ۔ ا سلامی قانون۔ حکومت پاکستان کاا سلامی قانون جولڑکی کوسولہ سال کی عمر میں بالغ کرتا ہے مگراس قانون کا صحیح معنی میں نفاظ نہیں ہے۔
چھٹی اہم وجہ ۔ کلچر۔ صوبہ سرحد کی حکومت کا رسمووں کی سرپرستی۔

پیدایئش کے دوران ننھی ماں کیوں مرتی ہے

کم عمری۔ ہر تیرا سال کی لڑکی دماغی اور جسمانی طور پر بچے کی پیدایئش کیلئے تیار نہیں ہوتی۔
تعلمِ صحت کی کمی۔ اسپتال کی صولتوں کی غیر دستیابی۔ ڈاکٹر اور اسپتال دور دور ہیں۔
شوہر اور اس کے خاندان کا ظلم
روائت۔ شادی کے بعد شوہر کے خاندان کا برتاؤ

٭٭٭

ہمارا مقصد

  • پختون کی لڑکیوں کی فلاح و بہبود ی

    خان اور ملک کے ہاں پلنے والی لڑکیوں میں خود اختیاری کے بیج بونا جن کی عمریں انداز اً چھ سال سے بارہ سال کی ہیں۔

    انکو زریعوں اور وسئلوں سے آگائ کرانا جن سے وہ مدد حاصل کرسکیں۔

    تعلیم ۔اردو، پشتو اخبار اور باہر نکلے کی آزادی۔

    ذرایئع۔ خان ذادیاں اور ملک ذادی، پختون کی لڑکیوںکو تعلییم و تربیت دیںگی۔

    تعلیم ۔ وہ ان بچوں کو نئے آداب زندگی سکھلایئں گی۔ اردو زبان اب بہت مقبول ہو چکی ہے اور اسکا بولنا، لکھ نا بہت ضروری ہے، اور اخبار پڑنا کا پڑھنا ہمیں ہمارے شہر، ملک اور ہمارے معاشرے سے مطلق خبریں مہیا کرتا ہے۔پشتو۔بولنا، لکھنا،اورپشتو کا اخبار پڑسکنا بھی ضروری ہے۔ پشتو زبان ہم کو اپنے کلچر سے قریب رکھتی ہے۔

    انگریزی۔ الفابیٹ ،اور دو سو سے تیں سو روزا میں استعمال ہونے والے اردو، انگریزی کامن الفاظ کا جاننا ، ریڈیو اور ٹلیویزن کو سننے اور سمجھنے میں مدد کرے گا۔ آجکل اردو اور پشتو زبانیں انگریزی کامن الفا ظ استمعال کرتی ہیں۔

    سو تک گنتی کا گننا، آٹھ سے دس تک پہاڑے جانا ، جمع، تفریق، ضرب، اورتقسیم میں مہارت ہونا ۔ بازار میں سامان خریدنے کی قابلیت پیدا کرتاہے۔ اور دوسروں کی محتاجی سے بچا تاہے۔

وقت تکمیل

میرے خیال میں ابتدائ نتیجہ پہلے چھ سال میں نکلے گا اور ہم پندرہ پرسنٹ لڑکیوں کی کم عمری میں مرنے کو ختم کرسکتے ہیں ۔یہ چارٹ سے یہ عیاں ہو گا

مکمل تبدیلی کا اندازاً وقت

١٥ (%)
٥٠ (%)
٧٥ (%)
٩٠ (%)
٦ سال
١٢ سال
١٨ سال
٢٤ سال

کامیابی کی وجہ ۔خان زادیاں اور ملک زادیاں کو پختون کی لڑکیوں تک رسایئ حاصل ہے۔ پختون کی لڑکیوں اُ ن کی پاس میں پانچ سے چھ سال تک ہوتی ہیں۔

اب ہم دس منٹ کا وقفہ لیں گے۔ اس کے بعد میں آپ سوالوں کا جواب دوں گی۔

٭٭٭
اب میری باری تھی۔

خواتین و حضرات،

" آپ نے سننا کہ ہمارے ملک میں ایک علا قہ ایسا ہے جو کہ پانچ ہزار سال پرانے رسم ورواج پر چلتا ہے ان رسموں میں سے ایک رسم اسی ہے جو کہ پختون کی لڑکیوں پر بے انتہا ظلم کرتی ہے۔ صوبہ سرحد میں لڑکی کی کم عمری میں شادی کرنا ایک بدکاری نہیں ہے اور بچہ کی پیدایئش کے دوران لڑکی کا مرنا ایک سنگ میل نہیں ہے شوہر اور اس کے خاندان کا لڑکی پرظلم کرنا ایک حقیقت ہے۔ اسکا علا قہ نام صوبہ سرحد ہے۔ اگر آپ اس ڈیموگرافیک پر نظر دوڑایں تو لاکھوں لڑکیاں ١٥ سال سے کم عمر ہیں۔ ہر سال ان میں سے سیکڑوں لڑکیاں بچہ کی پیدایئش کے دوران مر جایئںگی یا شوہر اور اس کے خاندان کا ظلم کا شکار ہوں گی۔"

ڈیموگرافیک انڈیکیٹرس - ١٩٩٨ سینسس
عدد نما
صوبہ سرحد
فاٹا
آبادی (ہزاروں)
٧٤٥٤٤
٢٧٢٢٠
مرد (%)
٢٢.٥١
١٠.٥٢
عورت (%)
٨٧.٤٨
٩٩.٤٧
آبادی ۔ شہری
٧٨.١٦
٧٠.٢
مناسبت جنس ( ١٠٠ مرد)
٠٢.١٠٥
٤٠.١٠٨
سالانہ اصافہ آبادی (%)
٨٢.٢
١٩.٢
آبادی ١٥ سال سے کم (%)
٢٠.٤٧
٩٠.٢٥
آبادی ١٥ ۔٦٤سال (%)
٧٩.٤٩
٣٠.٢٤
آبادی ٦٥سال اور زیادہ (%)
٠١.٣
٨٠.١
خواندگی ( ١٠+) ، مرد
٤١.٣٥
٤٢.١٧
خواندگی ( ١٠+) ، عورت
٨٢.١٨
٠٠.٣

اس وجہ سے سعدیہ اورمیں یہ تجویز کرتے ہیںکہ ایک ارگےنایئزیشن بنایئ جائے یہ ارگےنایئزیش پختون کی لڑکیو ں کی فلاح بہبودی کے لئے کام کرے۔

ارگےنایئزیش کے تین سیکشن ہونگے۔

  • ظاہری (ویب سایئٹ)
    بیرونی (ممبرشپ)
    غائبی (( undercover

ظاہری (ویب سائیٹ) ۔موجوہ دور میں پیغام کو ہزاروں لوگوں تک پہنچانے کے لے ویب سائیٹ ایک عمدہ طریقہ ہے۔ ویب سائیٹ بنانے کے بہت سی وجوہات ہیں۔ اُن میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ظالم اور ملظوم دونوں کو واقفیت ہو تی ہے کہ کچھ لوگ اس مسئلہ کو سمجھتے ہیں اور مدد کرنے کے لے تیار ہیں۔

٭تعلیم۔ ویب سائیٹ نہ صرف مسئلہ سے آگاہ کرتی ہے بلکہ اس مس،لہ کے حل کو بھی سیکڑوں لوگوں تک پہنچاتی ہے۔ اس نمونہ کی مدد سے ہماری طرح دوسرے لوگ بھی ایسی ہی ارگےنایئزیشن شروع کرسکتے ہیں اور اس نیک کام میں حصہ لے سکتے ہیں۔

٭آن لایئن سبق (طلب علم)۔ ویب سائیٹ پر لڑکیوں اور لڑکوں کے لے آداب ، اردو، اردو (رومن) ، پشتو ، انگریزی کی اسباق ہوں گے۔

٭آن لایئن سبق (استاد)۔ اسباق سے مطلق استادوں کے کی ہدایت ہوں گی۔

٭ پٹھان اور صوبہ سرحد کی معلومات ۔ یہ حصہ بچوں کو انکی میراث سے آگاہی کرائے گا۔

٭ پشتو زبان کی نظم و نثر۔ یہ حصہ کلچر سے آگاہی کرا ئے گا۔

٭ باتیں کرنے کا مرکز formum) (discussion

٭ لڑکیوں کا صفحہ (Teen 's Page)

٭بچوں کے مضامین۔ صحت، آداب، لطیفے

٭ بیرونی
٭ ایک ممبر ہر ضلع میں کم سے کم
٭ ایک ممبر ہرتحصیل میںکم سے کم
٭ ہر کالج اور یونیورسٹی سے رضا کار

٭ غائبی
٭ پناہ گیر( لڑکیوں کی حفاظت کرنے والے لوگ)
٭چھپے پناہ گھر((halfway house

گراس رُوٹ ارگینایزیشن
تو پھر کسطرح ہم اس puposal) (کو عمل میں لاےں؟
ہم ایک گراس رُوٹ ارگینایزیشن بنانی چاھیئے۔ گراس رُوٹ ارگینایزیشن کیا ہوتی ھے۔؟



گراس رُوٹ ارگینایزیشن کی خصو صیات
مکمل مسئلہ کع دیکھنا اورمسئلہ کے ایک دوسرے سے اثرانداز کرنے والے جز
لچکداری
عمدہ خیال یا تخلیقی تحریک
ممبر ہم قسم ہو نا ضروری نہیں

ایک تنطیم جس میں ہم مسئلہ کی پیچیدگی کے بجائے مکمل مسئلہ اورمسئلہ کے ایک دوسرے سے اثرانداز کرنے والے جز کے متلق سوچا جاتا ہے ،گراس رُوٹ ارگینایزیشن کہلاتی ہے۔ گراس رُوٹ ارگینایزیشن میں لچکداری ہوتی ہے اور وہ ہر عمدہ خیال کو اپناتی ہے۔ ا سکے مختلف قسم کے ممبروں کا ہو نا ضروری ہے۔

تنظیم کی نشوونما
معاشرے کی بُرایئوں کا علاج
وصائل کا اکھٹا کرنا
٭٭٭



تنظیم کی نشوونما​



' ' vision, value and mission ایک مؤثر تنظیم میں تمام حصوں کو یکجا رکھتے ہیں۔ اگر ایک بھی تنظیم کے ضروری حصے میں ویزن، ویلییو اور مشن کی یکسانیت نہیں ہے تو تنظیم ناکامیاب ہوجائے گی۔

تنظیم کی ذمہ داری ۔معاشرے کی بُرایئوں کا علاج۔

ریسرچ کرنا ۔معاشرہ جس میں مس،لہ ہے اس معاشرے کو ہر طرح سے سمجھنے کی کوشش کرو

مقامی رہایش اختیارکرنا۔ اور مقامی زبان سیکھواور بڑے بوھڑوں سے میلو۔

آوٹ ریچ۔ خاموشی سے اوردل نشینی سے لوگوںکی باتوںکو سننو،۔
اپنے خیال کو بنانا۔ مقامی لوگوں کے خیالات کو سننو

مقصد بنا نا۔ مقصد کی منصوبہ بندی کرواورمقصد کی حمایت کرنے والوں سے تعلق پیدا کرو۔

مقصد کو مکمل کرنے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہے۔ سیکھنا، منصوبہ بندی اور عمل۔سب لوگ مل کر منصو بہ کے ایک حصہ کو مکمل کرتے ہیں۔ سیکھنا۔ ایک حصہ کی تکمیل بعد اسکے نتائج کا جای،زہ لیتے ہیں۔ منصوبہ بندی۔ جو سبق پچھلے حصہ کی تکمیل سے حاصل ہوے ہیں ان کو بھی اگلے حصہ کی منصوبہ بندی کئے لئے استمعال کرتے ہیں۔

٭٭٭

واصائل کا اکھٹا کرنا

اقوام متحدہ کی بہت سی برانچ گرانٹ اور فنڈ دیتی ہیں۔ دوسری غیر نفایئ تنظیم گراس رُوٹ ارگینایزیشن کو چندہ دیتی ہیں۔ لوگوں سے مانگنے میں مت ڈرو۔اُ نکو آگاہ کر و کی اس برایئ کی جڑ کاٹنا کتنا ضروری ہے۔ لوگوں کو اپنا جذبہ اور جوش دیکھاؤ۔ ہر ایک سے مقرر رقم مانگو۔ چندہ جمع کرنا ،دوستی، جان پہچان پر ہے۔ جو لوگ
تمہاری ویزن، ویلییو اور مشن پر بھروسہ کرتے ہیں وہ چندہ میں شرکت کریں گے۔


٭ فنڈینگ ذرائع
٭ ویب سائیٹ (ا یڈورٹاِزمینٹ )
٭ یو ،ا ین ، او
٭یو۔ این۔ او
The United Nations Fund for Population (UNFPA)
United Nations Population Fund (UNFPA)NHCR
United Nations Population Fund (UNFPA)
٭ای ۔ سی
Reproductive health Awareness Marie Stopes Society (MSS)
Pakistan Voluntary Health and Nutrition Association (PVHNA)
Peri Urban Welfare Association and Anjuman-i-Khawateen
The Pakistan Red Crescent Society (PRCS)
Khwendo Kor and Sarhad Rural Support Programme (SRSP(
Sustainable Development Networking Programme )SDNPK)
Phone: (+9251) 2270684,Fax: 2279072: PO Box 3099, House 12, Street 85, G-6/4, Islamabad 44000, Pakistan.
portrayal of women in media (UDUP)
Population family welfare centres in Hangu
Hashoo Foundation: Umeed-e-Noor (children)
Hashoo Foundation :HOAP (Helping O ppressed And Powerless)
The Asian Development Bank (ADB)
Tribal Reforms and Development Forum (TRDF)
Social Action Program (SAP(
community-based organisations (CBOs)
Social Action Program (SAP(
community-based organisations (CBOs)

٭حکومت پاکستان
The National Education Foundation
National Economic Council (ECNEC) (school in Fata)
Ministry of Women Development (NCCWD)

خواتین و حضرات،اباجان نے ہمیں کامیابی کے اصول سکھلائے۔ اماجان نے ہمیں پٹھان ،،اسکی تاریخ اور نفسیات سمجھایئ۔ افغانہ ( سعادیہ ) نے ہمیں مسئلہ، اسکی وجہ اوراسکا حل بتلایا اور میں ان سب سے منصوبہ بندی کے جز بنائے۔اب یہ سکینہ اور ہم سب کی ذمداری ہے کہ اس کو عملی جامعہ پہنایئں۔

ہر شخص نےاقرار کیا۔

نورا نے کھانے کااعلان کیا۔ اور سب کھانے کی میز کی طرف چلے۔

( تیسری قسط کا خاتمہ
)
 
Top