عدیم ہاشمی پتھر ہے تیرے ہاتھ میں یا کوئی پھول ہے

نیرنگ خیال

لائبریرین
پتھر ہے تیرے ہاتھ میں یا کوئی پھول ہے
جب تو قبول ہے، تیرا سب کچھ قبول ہے

پھر تو نے دے دیا ہے نیا فاصلہ مجھے
سر پر ابھی تو پچھلی مسافت کی دھول ہے

تو دل پہ بوجھ لے کے ملاقات کو نہ آ
ملنا ہے اس طرح تو بچھڑنا قبول ہے

تو یار ہے تو اتنی کڑی گفتگو نہ کر
تیرا اصول ہے تو میرا بھی اصول ہے

لفظوں کی آبرو کو گنواؤ نہ یوں عدیمؔ
جو مانتا نہیں، اسے کہنا فضول ہے


یہ وقت وہ ہے جب کہ انا موم ہو چکی
اس وقت کوئی آئے، کوئی بھی، قبول ہے

آ کے ہنسی لبوں پہ بکھر بھی گئی عدیمؔ
جانے زیاں ہے یہ کہ خوشی کا حصول ہے
 
آخری تدوین:

محمداحمد

لائبریرین
تو دل پہ بوجھ لے کے ملاقات کو نہ آ
ملنا ہے اس طرح تو بچھڑنا قبول ہے


یہ وقت وہ ہے جب کہ انا موم ہو چکی
اس وقت کوئی آئے، کوئی بھی، قبول ہے

آ کے ہنسی لبوں پہ بکھر بھی گئی عدیمؔ
جانے زیاں ہے یہ کہ خوشی کا حصول ہے


بہت ہی خوب۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
تو دل پہ بوجھ لے کے ملاقات کو نہ آ
ملنا ہے اس طرح تو بچھڑنا قبول ہے


یہ وقت وہ ہے جب کہ انا موم ہو چکی
اس وقت کوئی آئے، کوئی بھی، قبول ہے

آ کے ہنسی لبوں پہ بکھر بھی گئی عدیمؔ
جانے زیاں ہے یہ کہ خوشی کا حصول ہے


بہت ہی خوب۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ !
نیلم کے کیفیت نامہ پر لگا غلط شعر اس پوری غزل کو شائع کرنے کا سبب بنا۔۔۔ حکایتی نے اس کو عدم سے منسوب کر مارا ہے۔ :)
 
لفظوں کی آبرو کو گنواؤ نہ یوں عدیمؔ
جو مانتا نہیں، اسے کہنا فضول ہے
ارے واہ ۔۔۔آج یہ مکمل غزل پڑھ ہی لی گئی آخر :)
یہ شعر تو بڑا مقبول ہے ۔
جیتے رہیں ، اور ہاں جو مانتا نہیں اُسے کہنا فضول ہے ۔ بسا اوقات خاموشی بھلی ہوتی ہے ۔سمجھ گئے ہیں نا :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
لفظوں کی آبرو کو گنواؤ نہ یوں عدیمؔ
جو مانتا نہیں، اسے کہنا فضول ہے
ارے واہ ۔۔۔ آج یہ مکمل غزل پڑھ ہی لی گئی آخر :)
یہ شعر تو بڑا مقبول ہے ۔
جیتے رہیں ، اور ہاں جو مانتا نہیں اُسے کہنا فضول ہے ۔ بسا اوقات خاموشی بھلی ہوتی ہے ۔سمجھ گئے ہیں نا :)
ہم نے اپنائی ہی ہوئی ہے اپیا۔۔۔ :)
بہت شکریہ انتخاب کو سراہنے کا۔۔۔ :)
 
ﺧﺸﮏ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﮩﮏ ﺁﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﻏﻢ ﮐﻮ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﭼﮭﭙﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ
ﺗﯿﺮﯼ ﺻﻮﺭﺕ ﮨﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﺎ ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ ﮨﮯ
ﺗﯿﺮﮮ ﭼﮩﺮﮮ ﺳﮯ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﮨﭩﺎﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ
ﺗﻮ ﮨﯽ ﺑﺘﻼ ﻣﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﻼﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ
ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﻮ ﺍﺱ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺑﮭﻼﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ
ﭘﮭﻮﻝ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﮮ ﺩﺭ ﭘﮧ ﺳﺠﺎ ﺑﮭﯽ ﺭﮨﺘﺎ
ﺯﺧﻢ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺗﯿﺮﯼ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﮧ ﺁﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ
ﻭﮦ ﺭﻻﺗﺎ ﮨﮯ ﺭﻻﺋﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﻋﺪﯾﻢ
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﮨﮯ ﻭﮦ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺭﻻﺅﮞ ﮐﯿﺴﮯ
 
ﺟﺎﻧﮯ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﮨﺠﺮ ﻣﯿﮟ ﭨﮭﺎﻧﯽ ﺩﻝ ﻧﮯ
ﭘﮭﺮ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯽ ﮐﭽﮫ ﺑﺎﺕ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﯽ ﺩﻝ ﻧﮯ

ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻧﻮﺣﮯ ﮨﯿﮟ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﻭﮨﯽ ﻣﺎﺗﻢ ﮨﮯ
ﺗﺮﮎ ﮐﺐ ﮐﯽ ﮨﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺳﻢ ﭘﺮﺍﻧﯽ ﺩﻝ ﻧﮯ

ﺑﺎﺕ ﺑﮯ ﺑﺎﺕ ﺟﻮ ﺑﮭﺮ ﺁﺗﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺍﭘﻨﯽ
ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ ﮐﺴﯽ ﺩﮐﮫ ﮐﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺩﻝ ﻧﮯ

ﮈﻭﺑﺘﯽ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﻭﯾﺮﺍﻥ ﺳﻤﮯ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ
ﺗﮭﺎﻡ ﺭﮐﮭﯽ ﮨﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﺍﯾﮏ ﻧﺸﺎﻧﯽ ﺩﻝ ﻧﮯ
 
Top