پاک بھارت تعلقات ، جنونی بھارتی میڈیا کے ہاتھوں یرغمال، برطانوی جریدہ

پاک بھارت تعلقات ، جنونی بھارتی میڈیا کے ہاتھوں یرغمال، برطانوی جریدہ
IndiaandPakistan-Holdtheline-on%e2%80%99tletextremistsornationalistsscupperIndo-Pakistanipeacetalks_8-16-2013_113899_l.jpg

کراچی…محمدر فیق مانگٹ … برطانوی جریدہ”اکنامسٹ“ لکھتا ہے کہ انتہا پسندوں یا قوم پرستوں کے ہاتھوں پاک بھارت امن مذاکرات ناکام نہ ہونے دیے جائیں۔پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ امن کی ضرورت کا برملا اظہار کرچکے ہیں۔ پاک فوج کے سربراہ کا خیال ہے کہ بھارت کی طرف سے ممکنہ خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اعصاب شکن بحرانوں کے بعدپاک بھارت تعلقات کی بہتری میں معمولی سی پیش رفت ہوئی جیسا کہ مشکل ویزا عمل اور تجارتی ضوابط میں نرمی میں دونوں ممالک صرف چند انچ آگے بڑھیلیکن مفاہمت کی امید جلد ہی تشدد کے آغاز سے دم توڑ دیتی ہے۔ اس میں بھارت کا جنونی میڈیا غم وغصے کو بھڑکا رہا ہے ،رواں برسکشمیر میں42فوجیوں کو ہلاک کیا جاچکا ہے جب کہ2012میں 17فوجی ہلا ک ہوئے۔ بڑے ملک ہونے کے ناطے من موہن سنگھ کو پہل کرنی چاہیے،وہ گیس پائپ لائن، ریفائنڈ آئل یا بھارتی بجلی گرڈ کی سرحد پار توسیع کی پاکستان کو پیش کش کرسکتے ہیں۔ سرمایہ کاری کے فروغ،غیر ضروری ٹیرف کی تجارتی رکاوٹیں، اور پاکستان سیاحو ں اور زائیرین کو ہراساں کرنے کے خاتمے جیسے اقدامات سے تجارت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ بھارت واضح کرے کہ اس کا افغانستان میں کوئی بڑا ایجنڈا نہیں ، ایک مثبت قدم ہو گا۔نوازشریف کے لئے بڑے چیلنجز ہیں،ان کے پاس تجارتی تعلقات کو معمول میں لانے میں تاخیر کا کوئی عذر نہیں ۔ جریدے نے حافظ سعید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسلامی عسکریت پسندوں کا سامنا کرنے میں نواز شریف اپنی ہچکچاہٹ پر قابو پائیں۔ اگر وہ اس طرح عسکریت پسندوں کو مسترد کرکے من موہن سنگھ سے ملاقات کرتے ہیں تو نواز شریف امن کے راستے پر چلنے والے بن جائیں گے۔بھارت کے خودساختہ ماہرین کے گروپ نے وزیر اعظم من موہن سنگھ کو پٹیشن پیش کی کہ وہ آئندہ ماہ نیویارک میں نواز شریف کے ساتھ طے شدہ ملاقات نہ کریں۔جریدہ لکھتا ہے کہ ملاقات نہ کرنا غلطی ہو گی، تشدد کی تازہ لہر میں یہ ضروری ہے کہ دونوں رہنماوٴں کو فوری بات چیت کرنی چاہیے اور انتہا پسندو ں کو کھڈے لائن لگانا چاہیے۔ اگر چہ مشیروں کا کہنا ہے کہ بھارت کے قریب ہونے کا یہ موقع نہیں، اگر چہ نواز شریف کو نئے آغاز کے لئے سیاسی عمل کو اہمیت دینی چاہیے کیونکہ وہ بھارت کے ساتھ امن چاہتے ہیں اور مئی کے انتخابات نے انہیں یہ مینڈیٹ بھی دیا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم بھی بات چیت کو اہمیت دیتے ہیں، وہ بھی لڑائی نہیں چاہتے۔وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے کو دونوں ممالک میں پائی جانے والی نفرت میں نہیں چھوڑنا چاہتے ہیں۔ بھارت کے وسیع تر اسٹریٹجک عزائم بھی امن کا مطالبہ کرتے ہیں۔وہ وسطی ایشیا میں زیادہ اثرورسوخ اور خطے میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کا مقابلہ چاہتا ہے۔ دونوں ممالک مغربی ممالک سے بھی اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ عسکریت پسند تشدد کے ساتھ مذاکرات چاہتے ہیں۔ اعتماد سازی کے لئے ستمبر میں دونوں رہنماوٴں کی ملاقات ضروری ہے۔ جریدہ لکھتا ہے کہ 6اگست کو پونچھ کے علاقے میں لائن آف کنٹرول پر پانچ فوجیوں کی ہلاکتوں کا الزام بھارت نے پاکستان پر لگایا اور کہا کہ کئی دہائیوں سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی گئی۔اس واقعے کے بعد سے دونوں طرف سے فائرنگ اور مارٹر گولوں کے علاوہ تلخ الزامات لگائے جا رہے ہیں۔13اگست کوپاکستانی پارلیمنٹ نے بھارتی الزامات کو مسترد کردیا۔ایک دن بعد بھارتی پارلیمنٹ نے بھی ایسی ہی قرار داد پیش کردی ۔
 
Top