پاکستان کے توانائی کے منصوبوں پر عالمی برادری کی ڈرامے بازیاں !!

کوئلے سے بجلی کی پیداوار پر دہرا عالمی معیار...شہ رگ۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
تھرکول پر میں اس سے قبل کئی کالم تحریر کرچکا ہوں لیکن حال ہی میں پاکستان میں امریکہ کے سفیر کی شہ سرخی ’’کوئلے سے بجلی پیدا کرنا عالمی پالیسی کے منافی ہے۔‘‘ نے مجھے حیران کردیا کیونکہ یہ بیان ایسے موقع پر آیا جب وزیراعظم میاں نواز شریف نے تھرکول سے بجلی پیدا کرنے کے اہم منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا۔ دنیا میں کوئلے سے بجلی کی پیداوار پر تحقیق اور عالمی کوئلہ تنظیم کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں کوئلے کے مجموعی ذخائر تقریباً 929 ارب ٹن ہیں جن سے اس وقت اوسطاً 41% بجلی پیدا کی جارہی ہے جبکہ 21% گیس، 16% پن بجلی، 13% سول نیوکلیئر انرجی، 5% تیل اور باقی 4% متبادل انرجی ذرائع سے بجلی حاصل کی جاتی ہے۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنیوالے سرفہرست ممالک میں جنوبی افریقہ 93%، آسٹریلیا 78%، پولینڈ 87%، چین 79%، قازقستان 75%، بھارت 68%، اسرائیل 58%، یونان 54%، مراکش 51%، امریکہ 45% اور جرمنی 41% شامل ہیں لیکن اس کے برعکس دنیا میں کوئلے کے تیسرے بڑے ذخائر رکھنے کے باوجود پاکستان میں کوئلہ سے حاصل ہونے والی بجلی کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ پاکستان میں تقریباً 175 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر پائے جاتے ہیں جو 400 ارب بیرل تیل کے مساوی ہیں اور یہ ذخائر سعودی عرب اور ایران کے تیل کے مجموعی ذخائر کے برابر ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 50 ڈالر فی بیرل تیل کی قیمت کے حساب سے ہمارے کوئلے کے ذخائر کی مالیت تقریباً 30 ٹریلین ڈالر ہے جو ملکی جی ڈی پی سے 187 گنا زائد ہے اور ان ذخائر سے مسلسل 200 سال تک ایک لاکھ میگاواٹ سالانہ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن ملک میں توانائی کے بحران کے باوجود ان ذخائر کو استعمال نہ کرنا ہماری بدقسمتی ہے۔
پاکستان جب بھی اپنی توانائی کی طلب کو پورا کرنے کے لئے کوئی بڑا منصوبہ تشکیل دیتا ہے تو اس پر بین الاقوامی پالیسیوں کے تحت اعتراضات شروع ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب پاکستان نیوکلیئر ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے تو اسے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی حالانکہ امریکہ نے بھارت کو سول نیوکلیئر انرجی کے حصول کی اجازت دے رکھی ہے، اس کے علاوہ دنیا کے 31 ممالک کے 426 ایٹمی بجلی گھروں سے 3,70,326 میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے جن کی پیداوار آئندہ 10 برسوں میں دگنی ہوجائے گی۔ پاکستان کو صرف چین نے سول نیوکلیئر انرجی فراہم کی ہے جبکہ بیشتر ممالک نے پاکستان کویہ ٹیکنالوجی فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس وقت ملک میں چین کے چشمہ I اور چشمہ II سول نیوکلیئر انرجی پروجیکٹ سے 462 میگاواٹ بجلی حاصل کی جارہی ہے جو ملکی پیداوار کا صرف 2% ہے۔ اس کے علاوہ چین نے پاکستان میں 660 میگاواٹ کے 2 پروجیکٹ چشمہ III اور چشمہ IV سے سول نیوکلیئر انرجی پیدا کرنے کے لئے معاہدے کئے ہیں۔ اسی طرح جب پاکستان بڑے ڈیم بناکر سستی اور صاف پن بجلی پیدا کرنا چاہتا ہے تو ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک کو قرضے دینے سے اس لئے روک دیا جاتا ہے کہ بڑے ڈیم ماحولیات کے لئے مناسب نہیں۔ اس کے علاوہ پاک ایران گیس منصوبے پر امریکہ نے پاکستان پر مختلف طریقے سے دبائو ڈالا ہوا ہے حالانکہ ایران نے منصوبے پر عملدرآمد کرکے اپنی سرحد تک گیس پائپ لائن بچھادی ہے اور پاکستان اپنے حصے کی پائپ لائن بچھاکر صرف ایک سال میں 700MMCF گیس حاصل کرسکتا ہے۔ امریکہ اور یورپی یونین کیساتھ سمجھوتے سے ایران پر عالمی دبائو میں کمی آئی ہے جس سے یہ امید کی جارہی ہے کہ جلد ہی ایران پر عائد پابندیاں نرم یا ختم کردی جائیں گی۔ اس تناظر میں ہمیں چاہئے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کیلئے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ پاکستان کی معاشی ترقی کیلئے توانائی کا حصول انتہائی ضروری ہے اور پاک ایران گیس منصوبہ ملکی معاشی ترقی اور روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کیلئے نہایت اہم ہے۔حال ہی میں مجھے ابوظبی میں منعقدہ ورلڈ انرجی کانفرنس میں شرکت کا اتفاق ہوا جہاں 30 ممالک کے سربراہان کے علاوہ توانائی کے عالمی ماہرین شریک تھے، جنہوں نے متبادل انرجی کے حصول پر جدید معلومات پیش کیں اور ان میں سے کچھ کو ابوظبی نے اپناکر اپنے بجلی صارفین کے بلوں میں 10% کمی کی ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کا انرجی مکس خطے میں سب سے مہنگا ہے کیونکہ ہم زیادہ تر بجلی فرنس آئل اور گیس جیسے مہنگے ذرائع سے پیدا کررہے ہیں جس سے بجلی کی اوسط لاگت بہت زیادہ آتی ہے۔ ملکی توانائی کا شعبہ 50% گیس، 29% آئل، 11% پن بجلی (ہائیڈرو(، نیوکلیئر انرجی 6.6% اور کوئلے 1%پر مشتمل ہے۔ پاکستان تقریباً 18000 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر صرف 14000میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے ، اس طرح ملک کو تقریباً 4000 میگاواٹ بجلی کی کمی کا سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق 2020ء میں پاکستان میں بجلی کی طلب 26000 میگاواٹ تک بڑھ جائے گی اور اگر بجلی کی پیداوار ہنگامی بنیادوں پر نہ بڑھائی گئی تو بجلی کی کمی میں مزید اضافہ ہوگا جس کے ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ملک میں پانی سے 40 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جاسکتی ہے لیکن پانی سے صرف 6500 میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ خطے میں چین اس وقت اپنی ضرورت کی تقریباً 79% بجلی کوئلے سے پیدا کررہا ہے اور وہ کوئلے سے بجلی کے حصول میں پاکستان سے تعاون کے لئے تیار ہے مگر ہم اس سے فائدہ اٹھانے کو تیار نہیں۔ کچھ سال قبل پاکستان میں چین کی ایک کمپنی نے تھرکول منصوبے پر 3 سال تک کام کرکے حکومت کو کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی پیشکش کی تھی لیکن بجلی کی قیمت میں صرف ایک سینٹ کے فرق کی وجہ سے اُس وقت کی بیورو کریسی نے پیشکش ٹھکرادی اور چینی کمپنی اپنی فزیبلٹی رپورٹ کے ساتھ واپس چلی گئی۔ گزشتہ دور حکومت میں سابق صدر آصف زرداری کے دورہ چین کے موقع پر میں نے صدر مملکت سے درخواست کی تھی کہ مذکورہ چینی کمپنی کو تھرکول منصوبے کی پیشکش دے کر دوبارہ پاکستان لایا جائے لیکن چینی کمپنی نے معاوضے کی ادائیگی کے باوجود نہ تو ہمیں فزیبلٹی رپورٹ دی اور نہ ہی تھرکول منصوبے میں دلچسپی ظاہر کی۔پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کو ماحولیاتی آلودگی کے پس منظر میں عالمی پالیسی کے منافی قرار دیا جارہا ہے جبکہ یورپ، امریکہ اور دنیا کے کئی ممالک میں کوئلے سے بجلی پیدا کی جارہی ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا عالمی پالیسیاں پاکستان کے لئے الگ اور باقی دنیا کے لئے الگ ہیں؟ یہ بات خوش آئند ہے کہ عالمی دبائو کے باوجود حال ہی میں وزیراعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر آصف زرداری نے کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کا افتتاح کیا جسکے تحت تھرکول ذخائر کو 12 بلاکوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں سے ایک بلا ک پر سندھ اینگرو کول مائننگ کمپنی، حکومت سندھ کے اشتراک سے بجلی گھر قائم کرے گی۔ منصوبے کے پہلے مرحلے میں ہر سال 38 لاکھ ٹن کوئلہ نکال کر اس سے 660میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی جبکہ دوسرے مرحلے میں یہ پیداوار 1320 میگا واٹ تک ہو جائے گی اور منصوبے سے حاصل ہونے والی بجلی کو 250 کلومیٹر طویل ٹرانسمیشن لائن کے ذریعے نیشنل گرڈ سے ملایا جائیگا۔ اس سے قبل وزیراعظم نے کراچی میں ہی جوہری بجلی گھر بنانے کے K1 اور K2 منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا تھا جس سے 2200 میگا واٹ بجلی پیدا کی جاسکے گی۔ اسکے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں کے تعاون سے دریائے سندھ پر دیا میر بھاشا، داسو اور منجھی ڈیم کے منصوبوں سے بھی 15000 میگا واٹ کی صاف اور سستی بجلی کی پیداوار کی جاسکتی ہے۔ حکومت کو میرا مشورہ ہے کہ ملک میں کوئلے کے ذخائر میں سرمایہ کاری کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پرکشش مراعات دے کر راغب کیا جائے۔
پاکستان میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ تھرکول کا کوئلہ پانی اور سلفر کی زائد مقدار کے باعث بجلی پیدا کرنے کے لئے مناسب نہیں لیکن میرے خیال میں ہم جدید ٹیکنالوجی اپناکر ان مشکلات پر قابو پاسکتے ہیں۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ 14 ارب ڈالر کی آئل امپورٹ کے پیش نظر ملٹی نیشنل آئل کمپنیوں کی مضبوط لابی کی وجہ سے پن بجلی اور کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کی تمام تجاویز اور منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا ہے اور 64 سال بعد بھی ہم تھرکول کے کالے سونے کو زمین سے نکال کر اپنی توانائی کی ضروریات پوری نہیں کرسکے ہیں لیکن اب جبکہ حکومت سنجیدگی سے ان منصوبوں کو شروع کرنا چاہتی ہے تو ملٹی نیشنل آئل کمپنیوں کی لابی اور عالمی طاقتیں اس پر اعتراضات اٹھارہی ہیں۔ کیا یہ اُن کا دہرا معیار نہیں؟
 
ایک طرف دہشت گردی کی آگ لگا کر ملک کو تباہ کی جارہا ہے اور دوسری طرف توانائی کے منصوبوں میں روکاوٹیں ڈال کر ترقی اور صنعتوں کو روکا جارہا ہے۔
حکمرانوں کو تمام دباؤ نظر انداز کر کے صرف ملکی مفاد کے بارے میں سوچنا ہوگا۔
 

x boy

محفلین
یہ خنزیر کھانے، شراب میں نہانے، نارکوٹکس ایجاد پہ ایجاد کرنے والے کبھی نہیں چاہین گے کے امن قائم رہے، بد امنی دنیا میں پھیلاکر اپنے اسلحے بیچ کر خود فل فیملی عریاں دوسرے فیملی کے ساتھ سوئمنگ پول پر دنیا جہاں کے بد امنی کی خبر دیکھ کر جام سے جام لگاکر انجوائے کرتے ہیں
 

x boy

محفلین
کوتاہی نہیں ہوئی، جیلیسی ہے
جب سے اس برصغیر میں ایک ملک اسلام کے نام پر لڑکر لیا گیا اس سے سبھی کفار جیلس ہیں
 
کوتاہی نہیں ہوئی، جیلیسی ہے
جب سے اس برصغیر میں ایک ملک اسلام کے نام پر لڑکر لیا گیا اس سے سبھی کفار جیلس ہیں

شاید جیلیسی سے زیادہ پاکستان کو اپنے پاؤں پر کھڑا نا ہونے کی خواہش ہے تاکہ ملک ہمیشہ ان کا محتاج رہے۔ اسی لئے تو یہ ٹریڈ کی بجائے ایڈ دیتے ہیں۔
 
Top