پاکستان پیپلزپارٹی، عوام دوست پالیسیوںکی روایات کی امین؟؟؟؟

زین

لائبریرین
ابھی بیٹھا اپنی ای میل چیک کررہا تھا تو پی آئی ڈی کی جانب سے جاری کیا گیا یہ آرٹیکل ملا تو شریک محفل کررہا ہوں۔

آپ لوگوں کی اس بارے میں‌کیا رائے ہیں


پاکستان پیپلزپارٹی۔ عوام دوست پالیسیوںکی روایات کی امین
تحریر: شیری رحمن(وفاقی وزیراطلاعات ونشریات)

وطن عزیز کی تاریخ اورسیاسیات کا مطالعہ اس حقیقت کو اجاگرکرتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی حقیقی معنوں میں عوام کی نمائندہ اورترجمان ہے یہ پارٹی گزشتہ چار عشروں سے عوام کے حقوق اورجمہوریت کے فروغ کے لئے اس انداز سے سرگرم عمل ہے کہ ملکی سیاست میں اب اس کوایک مثال کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے ۔ پارٹی کی بنیاد چالیس سال پہلے اس وقت کے ایک جواں سال مگرانتہائی دور اندیش سیاستدان ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے انقلابی نظریات کی بنیاد پر رکھی تھی۔ پارٹی کا روزاول سے ہی طرہ امتیاز یہ رہا کہ اس نے آمریت کے خلاف اپنے تن من اوردھن کی ایسی قربانیاں دیں جن کا نہ کوئی شمار ہے اورجن کی نہ کوئی حد ہے ۔ آمروں نے اس پارٹی کو ختم کرنے کے لئے اپنے تمام تر حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے مگر وہ اس میں نامراد اورناکام ہی رہے جبکہ پارٹی آزمائش کی ہر بھٹی سے کندن ہوکر نکلی ۔جب بھی عام انتخابات ہوئے اور عوام کواپنی رائے اورفیصلے کا موقع ملا تو ہربار انہوںنے پیپلزپارٹی کوہی اپنی امنگوں اورامیدوں کا مرکز قراردیا اسی حوالے اورنسبت سے پاکستان پیپلزپارٹی کواب دنیا بھرمیں پاکستانی عوام کی حقیقی نمائندہ اور ترجمان سیاسی جماعت کا درجہ حاصل ہے۔
عوامی حقوق کے حصول اورجمہوریت کے فروغ کے لئے پارٹی کی قربانیوںکا سلسلہ یوں تو اس وقت ہی شروع ہوگیا تھا جب پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کے فوراً بعد اس کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو پرقاتلانہ حملہ ہوا اوران کونظربندکیاگیا جبکہ پارٹی کے سینکڑوںکارکنوںکوپس دیوار زنداں دھکیل دیا گیا لیکن ان قربانیوںکواصل جلا اور شناخت اس وقت میسر آئی جب 1979ءمیں ذوالفقارعلی بھٹو کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کرکے پھانسی کی سزا دے دی گئی اس سے پہلے جب پارٹی کواقتدار میں آنے کا موقع ملا تو اس وقت قوم ذہنی طورپر شکست خوردہ تھی اور مایوسی کے بادل چاروں طرف چھائے ہوئے تھے ایسے میں ذوالفقار علی بھٹونے نہایت حوصلہ مندی اورعزم کے ساتھ” نئے پاکستان“ کی نوید سنائی اورملک کی تعمیرنوکا آغاز کیا انہوںنے دن رات ایک کرکے ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود کے لئے منصوبوںکوروبہ عمل لایا۔مزدوروں ، کسانوںاوراستحصال زدہ طبقوں کو ان کے حقوق دلائے ، قوم کوایک متفقہ آئین دیا معاہدہ شملہ کے تحت اپنا علاقہ اور جنگی قیدی واپس لئے ، بیرون ملک ملازمت کے مواقع فراہم کئے اورعالم اسلام کے اتحاد کے لئے شاندار خدمات انجام دیں ۔ اس دور میں سٹیل ملز اوراقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے جوبنیادی کام ہوئے ان کے فوائد اگرچہ فوری طورپرسامنے نہیں آئے لیکن مستقبل میںان سے عوام نے استفادہ کیا اورمجموعی طورپرملکی ترقی پراس کے مثبت اور خوشگوار اثرات مرتب ہوئے ملکی سلامتی اورقومی وقارکویقینی بنانے کے لئے اسی دور میںپاکستان کے پرامن ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی۔
قائد عوام کی شہادت کے بعدان کی صاحبزادی بے نظیربھٹونے پارٹی کی قیادت سنبھال لی اور یہ فریضہ کچھ ایسے وقار اوراعتماد کے ساتھ انجام دیا کہ سیاسی منظرنامے پران کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منوراور تابندہ ہوگیا محترمہ بے نظیربھٹوکو1988ءاور1993ءمیں عوام کی تائیداور حمایت کے نتیجے میں ایوان اقتدار تک پہنچنے کا موقع ملا ۔ ان دونوں ادوار میں پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنی قائد کی رہنمائی میں عوام کی فلاح وبہبود اورملکی ترقی کے لئے ایسے اہم اور قابل ذکراقدامات کئے جن کو آج بھی ملکی تاریخ میں یادگار حیثیت حاصل ہے ان اقدامات میں انسانی حقوق کے تحفظ ، شمالی علاقہ جات کے لئے قانون سازی ، مزدوروںاورمحنت کشوںکے معیار زندگی کوبہتر بنانے کے لئے ان کے معاوضوں اوراجرتوں میںاضافہ ، ملازمت کا تحفظ ، لیبر کالونیوں کی تعمیر ، جبری مزدوری اوربچوں کی مشقت کا خاتمہ ، خواتین کے حقوق کا تحفظ اورملازمت کے بہتر مواقع ، آمریت کے دورکے کالے قوانین کا خاتمہ ، شرح آبادی پرقابوپانے کے موثر اقدامات، دنیا کے سب سے بڑے خواتین ہیلتھ ورکرزپروگرام کا آغاز، حقوق نسواں کے لئے بین الاقوامی معاہدے ، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ، آمریت کے دور میںمیڈیا کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کے ازالے ، توانائی کی ضرورتوںکوپورا کرنے کے لئے حوصلہ افزاءاقدامات ، انحطاط پذیر معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ حکمت عملی ،زرعی دولت ٹیکس کا نفاذ ،زرعی شعبہ کی حوصلہ افزائی کے لئے سہولتوںاورمراعات کی فراہمی ، غازی بروتھا اورنیلم جیسے پروجیکٹس کا آغاز، ذرائع مواصلات کی ترقی ، صنعت و حرفت کے شعبہ میں ٹھوس پیش رفت ،پاکستان سٹیل ملز میں توسیع ، سٹیٹ بینک آف پاکستان کوخودمختار ادارہ بنانے کا فیصلہ ،میڈیکل کی تعلیم بارے دور رس اقدامات ، پولیو کے خاتمے کے لئے موثر اقدامات ،پیپلزفارمیسی کا اجراء، بے زمین مزاروںاورکسانوںمیں زمین کی تقسیم ،طلباءتنظیموںاوریونین پر پابندی کا خاتمہ ،ملکی دفاع کے لئے موثر اقدامات اورعالمی برادری کے ساتھ باہمی احترام اوربرابری کی بنیاد پر تعلقات کا فروغ، ایسے اقدامات ہیں جنہوںنے محترمہ بے نظیربھٹو کی حکومت کے حوالے سے آج بھی عوام میں قدر اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کو اب حالات کی ستم ظریفی کے سوا کیا نام دیا جائے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت دونوں بار ہی سازشوںاور ریشہ دوانیوںکے نتیجے میں ختم کردی گئی ۔ محترمہ کوایک بارپھرجلاوطنی اورسیاسی جدوجہد کا سامنا کرناپڑا۔ اسی عرصہ میں محترمہ بے نظیربھٹوکے شوہر جناب آصف علی زرداری کوجھوٹے مقدمات میںملوث کیا گیا اورایک سازش کے تحت میڈیا میںان کی کردارکشی کی مہم چلائی گئی۔جناب زرداری پرکوئی الزام درست ثابت نہ ہوا اورعدالت نے ان کوباعزت بری کردیا لیکن ان کی جوانی کے گیارہ قیمتی برس جیل کی نذرہوگئے ۔ محترمہ کے خلاف کئے گئے اقدامات ان کے اس عزم اور حوصلہ کو شکست نہ دے سکے جو وہ پارٹی کے منشورپرعمل کرنے اور عوام کی توقعات پرپورا اترنے کے لئے اپنے دل و دماغ میں محفوظ کئے ہوئے تھیں۔ محترمہ بے نظیربھٹو نے 27 دسمبر2007ءکو لیاقت باغ ، راولپنڈی کے سامنے اپنے ہزاروں کارکنوںکے پرجوش نعروں اورتالیوںکی گونج میں جام شہادت نوش کیا ۔ اس المناک لمحہ سے کچھ دیرپہلے ہی انہوںنے لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا ” میںاس ملک کو بچانے کے لئے اپنی جان تک دے سکتی ہوں“ میںاپنے عوام کے مستقبل کومحفوظ بنانے کے لئے اوراس ملک کو محفوظ بنانے کے لئے موت سے نہیں ڈرتی“ اوریوں انہوںنے یہ بات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ثابت کردی کہ پاکستان پیپلزپارٹی ہی وہ پارٹی ہے جو ملک و قوم کے لئے کسی قربانی سے گریزنہیںکرتی۔
محترمہ کی شہادت کے بعدان کے شوہر آصف علی زرداری نے ان کی وصیت کے مطابق پارٹی کی قیادت سنبھالی اورحقیقت تویہ ہے کہ انہوںنے انتہائی صبرو تحمل ، برداشت ،حب الوطنی اوردور اندیشی کے ساتھ یہ فریضہ انجام دیا یہ ان کی سیاسی بصیرت اورتدبر کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ فروری 2008ءکے عام انتخابات میںنمایاں کامیابی حاصل کرنے کے باوجودپاکستان پیپلزپارٹی نے وطن عزیز کی دیگرسیاسی جماعتوںکے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی ۔ یہ وہ وقت تھا جب وطن عزیز کوآمریت کے حامی عناصر کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں دہشت گردی ،معاشی مشکلات اورسماجی اضطراب کا شدید سامنا تھا ۔ عالمی برادری میں بھی سبزہلالی پرچم کی توقیر انحطاط پذیر محسوس کی جارہی تھی ۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنی روایت کے مطابق اس چیلنج کو قبول کیا اور 8 ماہ کے اس عرصے میںاب صورت حال بڑی حد تک مختلف دکھائی دیتی ہے جس کا اندازہ اہم شعبوںمیں ہونے والی پیش رفت کے سرسری جائزہ سے بخوبی کیا جاسکتاہے۔
 

زین

لائبریرین
کتنا سچ اور کون سی بات سچ ہے ؟؟؟؟؟ ، مجھے تو اس میں کوئی بات بھی سچ نظر نہیں‌ آئی
 

قیصرانی

لائبریرین
ہمت علی، اس آرٹیکل کے شائع ہونے کے دس منٹ بعد آپ کا تبصرہ آ‌گیا۔ ویسے روزانہ کتنے ہی دھاگے ایسے ہوتے ہیں جن پر آپ کی آمد کا انتظار ہی ہوتا رہ جاتا ہے :p
 

جوش

محفلین
شیری رحمن کے آرٹیکل سے 'اپنے منہ میاں مٹھو' بننے کے علاوہ اور کیا اخذ کیا جاسکتا ہے،
 

زین

لائبریرین
یہ تو سب کوپتہ ہے کیا سچ اور کیا جھوٹ ہے
پی پی پی کے نام سے تو اب نفرت سی ہونے لگی ہے

(آپ کی دل آزاری ہوئی تو اس کے لیے پیشگی معافی چاہتا ہوں)
 
یہ تو سب کوپتہ ہے کیا سچ اور کیا جھوٹ ہے
پی پی پی کے نام سے تو اب نفرت سی ہونے لگی ہے

(آپ کی دل آزاری ہوئی تو اس کے لیے پیشگی معافی چاہتا ہوں)
کسی سے نفرت کرنا اپکا ذاتی حق ہے مگر اس نفرت کے باوجود سچ کو سچ تو کہیں۔
 

زین

لائبریرین
کیا سچ ہے اورکیا جھوٹ ،یہ سب کو پتہ ہے ۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی زبان سے تو میں‌نے آج تک سچ نہیں‌سُنا ۔
 

جوش

محفلین
کیا سچ ہے اورکیا جھوٹ ،یہ سب کو پتہ ہے ۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی زبان سے تو میں‌نے آج تک سچ نہیں‌سُنا ۔

برادرم زین زیڈ ایف - آپ ایک ایسی سیاسی پارٹی سے سے سچ کی امید کیوں رکھتے ہیں جس کا منشور ہو 'وعدے اور تحریری مہادوں کوی قران و حدیث تو ہیں نہیں" ، جس کی موجودہ لیڈرشپ کا خمیرآیں آر آو سے اٹھا ہو، اور جس کو ایک بار نہیں۔۔ بار بار آزمایہ جا چکا ہو۔۔۔۔۔
 

ابوشامل

محفلین
ابھی بیٹھا اپنی ای میل چیک کررہا تھا تو پی آئی ڈی کی جانب سے جاری کیا گیا یہ آرٹیکل ملا تو شریک محفل کررہا ہوں۔

آپ لوگوں کی اس بارے میں‌کیا رائے ہیں


پاکستان پیپلزپارٹی۔ عوام دوست پالیسیوںکی روایات کی امین
تحریر: شیری رحمن(وفاقی وزیراطلاعات ونشریات)

وطن عزیز کی تاریخ اورسیاسیات کا مطالعہ اس حقیقت کو اجاگرکرتا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی حقیقی معنوں میں عوام کی نمائندہ اورترجمان ہے یہ پارٹی گزشتہ چار عشروں سے عوام کے حقوق اورجمہوریت کے فروغ کے لئے اس انداز سے سرگرم عمل ہے کہ ملکی سیاست میں اب اس کوایک مثال کی حیثیت حاصل ہوچکی ہے ۔ پارٹی کی بنیاد چالیس سال پہلے اس وقت کے ایک جواں سال مگرانتہائی دور اندیش سیاستدان ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے انقلابی نظریات کی بنیاد پر رکھی تھی۔ پارٹی کا روزاول سے ہی طرہ امتیاز یہ رہا کہ اس نے آمریت کے خلاف اپنے تن من اوردھن کی ایسی قربانیاں دیں جن کا نہ کوئی شمار ہے اورجن کی نہ کوئی حد ہے ۔ آمروں نے اس پارٹی کو ختم کرنے کے لئے اپنے تمام تر حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے مگر وہ اس میں نامراد اورناکام ہی رہے جبکہ پارٹی آزمائش کی ہر بھٹی سے کندن ہوکر نکلی ۔جب بھی عام انتخابات ہوئے اور عوام کواپنی رائے اورفیصلے کا موقع ملا تو ہربار انہوںنے پیپلزپارٹی کوہی اپنی امنگوں اورامیدوں کا مرکز قراردیا اسی حوالے اورنسبت سے پاکستان پیپلزپارٹی کواب دنیا بھرمیں پاکستانی عوام کی حقیقی نمائندہ اور ترجمان سیاسی جماعت کا درجہ حاصل ہے۔
عوامی حقوق کے حصول اورجمہوریت کے فروغ کے لئے پارٹی کی قربانیوںکا سلسلہ یوں تو اس وقت ہی شروع ہوگیا تھا جب پاکستان پیپلزپارٹی کے قیام کے فوراً بعد اس کے بانی ذوالفقارعلی بھٹو پرقاتلانہ حملہ ہوا اوران کونظربندکیاگیا جبکہ پارٹی کے سینکڑوںکارکنوںکوپس دیوار زنداں دھکیل دیا گیا لیکن ان قربانیوںکواصل جلا اور شناخت اس وقت میسر آئی جب 1979ءمیں ذوالفقارعلی بھٹو کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کرکے پھانسی کی سزا دے دی گئی اس سے پہلے جب پارٹی کواقتدار میں آنے کا موقع ملا تو اس وقت قوم ذہنی طورپر شکست خوردہ تھی اور مایوسی کے بادل چاروں طرف چھائے ہوئے تھے ایسے میں ذوالفقار علی بھٹونے نہایت حوصلہ مندی اورعزم کے ساتھ” نئے پاکستان“ کی نوید سنائی اورملک کی تعمیرنوکا آغاز کیا انہوںنے دن رات ایک کرکے ملک کی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود کے لئے منصوبوںکوروبہ عمل لایا۔مزدوروں ، کسانوںاوراستحصال زدہ طبقوں کو ان کے حقوق دلائے ، قوم کوایک متفقہ آئین دیا معاہدہ شملہ کے تحت اپنا علاقہ اور جنگی قیدی واپس لئے ، بیرون ملک ملازمت کے مواقع فراہم کئے اورعالم اسلام کے اتحاد کے لئے شاندار خدمات انجام دیں ۔ اس دور میں سٹیل ملز اوراقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے جوبنیادی کام ہوئے ان کے فوائد اگرچہ فوری طورپرسامنے نہیں آئے لیکن مستقبل میںان سے عوام نے استفادہ کیا اورمجموعی طورپرملکی ترقی پراس کے مثبت اور خوشگوار اثرات مرتب ہوئے ملکی سلامتی اورقومی وقارکویقینی بنانے کے لئے اسی دور میںپاکستان کے پرامن ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی گئی۔
قائد عوام کی شہادت کے بعدان کی صاحبزادی بے نظیربھٹونے پارٹی کی قیادت سنبھال لی اور یہ فریضہ کچھ ایسے وقار اوراعتماد کے ساتھ انجام دیا کہ سیاسی منظرنامے پران کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے منوراور تابندہ ہوگیا محترمہ بے نظیربھٹوکو1988ءاور1993ءمیں عوام کی تائیداور حمایت کے نتیجے میں ایوان اقتدار تک پہنچنے کا موقع ملا ۔ ان دونوں ادوار میں پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنی قائد کی رہنمائی میں عوام کی فلاح وبہبود اورملکی ترقی کے لئے ایسے اہم اور قابل ذکراقدامات کئے جن کو آج بھی ملکی تاریخ میں یادگار حیثیت حاصل ہے ان اقدامات میں انسانی حقوق کے تحفظ ، شمالی علاقہ جات کے لئے قانون سازی ، مزدوروںاورمحنت کشوںکے معیار زندگی کوبہتر بنانے کے لئے ان کے معاوضوں اوراجرتوں میںاضافہ ، ملازمت کا تحفظ ، لیبر کالونیوں کی تعمیر ، جبری مزدوری اوربچوں کی مشقت کا خاتمہ ، خواتین کے حقوق کا تحفظ اورملازمت کے بہتر مواقع ، آمریت کے دورکے کالے قوانین کا خاتمہ ، شرح آبادی پرقابوپانے کے موثر اقدامات، دنیا کے سب سے بڑے خواتین ہیلتھ ورکرزپروگرام کا آغاز، حقوق نسواں کے لئے بین الاقوامی معاہدے ، اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ، آمریت کے دور میںمیڈیا کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کے ازالے ، توانائی کی ضرورتوںکوپورا کرنے کے لئے حوصلہ افزاءاقدامات ، انحطاط پذیر معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ حکمت عملی ،زرعی دولت ٹیکس کا نفاذ ،زرعی شعبہ کی حوصلہ افزائی کے لئے سہولتوںاورمراعات کی فراہمی ، غازی بروتھا اورنیلم جیسے پروجیکٹس کا آغاز، ذرائع مواصلات کی ترقی ، صنعت و حرفت کے شعبہ میں ٹھوس پیش رفت ،پاکستان سٹیل ملز میں توسیع ، سٹیٹ بینک آف پاکستان کوخودمختار ادارہ بنانے کا فیصلہ ،میڈیکل کی تعلیم بارے دور رس اقدامات ، پولیو کے خاتمے کے لئے موثر اقدامات ،پیپلزفارمیسی کا اجراء، بے زمین مزاروںاورکسانوںمیں زمین کی تقسیم ،طلباءتنظیموںاوریونین پر پابندی کا خاتمہ ،ملکی دفاع کے لئے موثر اقدامات اورعالمی برادری کے ساتھ باہمی احترام اوربرابری کی بنیاد پر تعلقات کا فروغ، ایسے اقدامات ہیں جنہوںنے محترمہ بے نظیربھٹو کی حکومت کے حوالے سے آج بھی عوام میں قدر اور تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس کو اب حالات کی ستم ظریفی کے سوا کیا نام دیا جائے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت دونوں بار ہی سازشوںاور ریشہ دوانیوںکے نتیجے میں ختم کردی گئی ۔ محترمہ کوایک بارپھرجلاوطنی اورسیاسی جدوجہد کا سامنا کرناپڑا۔ اسی عرصہ میں محترمہ بے نظیربھٹوکے شوہر جناب آصف علی زرداری کوجھوٹے مقدمات میںملوث کیا گیا اورایک سازش کے تحت میڈیا میںان کی کردارکشی کی مہم چلائی گئی۔جناب زرداری پرکوئی الزام درست ثابت نہ ہوا اورعدالت نے ان کوباعزت بری کردیا لیکن ان کی جوانی کے گیارہ قیمتی برس جیل کی نذرہوگئے ۔ محترمہ کے خلاف کئے گئے اقدامات ان کے اس عزم اور حوصلہ کو شکست نہ دے سکے جو وہ پارٹی کے منشورپرعمل کرنے اور عوام کی توقعات پرپورا اترنے کے لئے اپنے دل و دماغ میں محفوظ کئے ہوئے تھیں۔ محترمہ بے نظیربھٹو نے 27 دسمبر2007ءکو لیاقت باغ ، راولپنڈی کے سامنے اپنے ہزاروں کارکنوںکے پرجوش نعروں اورتالیوںکی گونج میں جام شہادت نوش کیا ۔ اس المناک لمحہ سے کچھ دیرپہلے ہی انہوںنے لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا ” میںاس ملک کو بچانے کے لئے اپنی جان تک دے سکتی ہوں“ میںاپنے عوام کے مستقبل کومحفوظ بنانے کے لئے اوراس ملک کو محفوظ بنانے کے لئے موت سے نہیں ڈرتی“ اوریوں انہوںنے یہ بات ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ثابت کردی کہ پاکستان پیپلزپارٹی ہی وہ پارٹی ہے جو ملک و قوم کے لئے کسی قربانی سے گریزنہیںکرتی۔
محترمہ کی شہادت کے بعدان کے شوہر آصف علی زرداری نے ان کی وصیت کے مطابق پارٹی کی قیادت سنبھالی اورحقیقت تویہ ہے کہ انہوںنے انتہائی صبرو تحمل ، برداشت ،حب الوطنی اوردور اندیشی کے ساتھ یہ فریضہ انجام دیا یہ ان کی سیاسی بصیرت اورتدبر کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ فروری 2008ءکے عام انتخابات میںنمایاں کامیابی حاصل کرنے کے باوجودپاکستان پیپلزپارٹی نے وطن عزیز کی دیگرسیاسی جماعتوںکے ساتھ مل کر مخلوط حکومت تشکیل دی ۔ یہ وہ وقت تھا جب وطن عزیز کوآمریت کے حامی عناصر کے غلط فیصلوں کے نتیجے میں دہشت گردی ،معاشی مشکلات اورسماجی اضطراب کا شدید سامنا تھا ۔ عالمی برادری میں بھی سبزہلالی پرچم کی توقیر انحطاط پذیر محسوس کی جارہی تھی ۔ پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنی روایت کے مطابق اس چیلنج کو قبول کیا اور 8 ماہ کے اس عرصے میںاب صورت حال بڑی حد تک مختلف دکھائی دیتی ہے جس کا اندازہ اہم شعبوںمیں ہونے والی پیش رفت کے سرسری جائزہ سے بخوبی کیا جاسکتاہے۔
مجھے تو اس پر رحم آ رہا ہے، جسے اس مضمون کو "ایڈٹ" کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہوگی :)
 

ابوشامل

محفلین
:laugh::laugh::laugh:
لیکن شیری رحمن کا میڈیا سے تعلق تو بہت عرصے سے ہیں‌پھر وہ اس طرح۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔:confused:
میڈيا سے تعلق تو بہت سارے رہنماؤں کا ہے، لیکن پارٹی بیان جاری کرتے ہوئے سارے یہ حقیقت بتا دیتے ہیں کہ ان کی صحافتی حیثیت دو کوڑی کی ہے۔
 
Top