پاکستان میں خودکش حملے اور خونِ مسلم کی حرمت

قسیم حیدر

محفلین
پاکستان میں خودکش حملوں اور دہشت گردی کی موجودہ لہر نے ہر حساس دل کو تڑپا کر رکھ دیا ہے۔مسلمان مسلمان کا خون بہانے میں مصروف ہے۔ کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرامین کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ یہ اللہ کے عذاب کی ایک شکل ہے۔
قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ أَوْ مِنْ تَحْتِ أَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ (سورۃ الانعام 65)
''کہو، وہ (اللہ) اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔''
جو لوگ جہاد کے نام پر ملک میں دہشت گردی کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمان کا خون دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (سورۃ النساء۔93)
''رہا وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔''
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا :
فإِنَّ دِماءَكم وأموالكم وأعراضكم وأبشارَكم عليكم حَرام كحرْمةِ يومكم هذا، في شهركم هذا، في بَلدِكم هذا. ألا هل بَلغتُ؟ قلنا: نعم۔ (صحیح البخاری 6924)
''تم (مسلمانوں) کے خون، اموال اور عزتیں ایکدوسرے پر حرام ہیں، اِس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجۃ) اور اس شہر(مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچا دی؟ صحابہ نے کہا ''جی ہاں۔''
جو شخص امت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ہتھیار اٹھاتا ہے، اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا ہے:
''من حملَ علينا السلاحَ فليسَ منا'' (صحیح البخاری حدیث نمبر6916)
''جس نے ہم (مسلمانوں) پر ہتھیار اٹھایا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔''
مسلمان کوقتل کرنا تو بہت دور کی بات ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تو اس سے بھی منع فرمایا کہ ہتھیار کے ساتھ مسلمان کی طر ف اشارہ کیا جائے:
لا يُشيرُ أحدُكم على أخيهِ بالسلاح، فإِنه لا يدري لعلَّ الشيطانَ يَنزغُ في يدَيه فيقع في حُفرَة منَ النار (صحیح البخاری حدیث نمبر 6918
'' تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے۔ اسے کیا معلوم کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ سے اسے (ہتھیارکو) گرا دے (یا چلا دے) تو (مسلمان کو قتل کرنے کی وجہ سے) وہ جہنم کے ایک گڑھے میں جا گرے۔''
دورِ نبوی میں کوئی شخص اگر تیر لے کر مسجد یا بازار میں جاتا تو اسے حکم دیا جاتا تھا کہ وہ اس کی نوک کو پکڑے رہے ایسا نہ ہو کہ کسی مسلمان کو خراش آ جائے۔ (صحیح بخاری حدیث نمبر 6918
اللہ اکبر۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی امت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
''لا ترجِعوا بَعدي كفّاراً يَضرِبُ بعضُكم رِقابَ بعضٍ (صحیح البخاری کتاب الفتن۔ باب لا ترجعوا بعدی کفارا)
میرے بعد دوبارہ کافر نہ بن جانا کہ آپس میں ایکدوسرے کی گردنیں مارتے پھرو۔''
اور فرمایا:
سِبابُ المسلم فُسوقٌ وقِتالُهُ كفرٌ (صحیح البخاری۔ حدیث نمبر6922)
''مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔''
قتل مسلم کا ارادہ کرنے سے بھی منع فرما دیا۔ فرمایا:
إذا تَواجَهَ المسلمان بسيفَيهما فكلاهما من أهل النار. قيل: فهذا القاتل، فما بالُ المقتول؟ قال: إنه أرادَ قتلَ صاحبه (بخاری حدیث نمبر6929)
'' جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔'' صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے (اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیا قصور؟ فرمایا '' اس لیے کہ اس نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔''
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپس کی لڑائیوں سے سختی سے منع کیا ہے اور بتایا ہے کہ آپس کی لڑائیاں مسلمانوں کی ہلاکت کا سبب بنیں گی۔ جو لوگ جہاد کے نام پر یہ کاروائیاں کر رہے ہیں انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اُس فرمان کی روشنی میں ہوش کے ناخن لینے چاہییں جس میں انہوں نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے وعدہ کیا کہ امتِ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قحط کے ذریعے تباہ نہ کی جائے گی، اور نہ کوئی ایسا دشمن باہر سے ان پر مسلط کیا جائے گا جو انہیں بالکل ختم کر دے۔ امت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اگر تباہ ہو گی تو ایکدوسرے کو قتل کرنے کی وجہ سے ہو گی۔ اصل الفاظ یہ ہیں
حَتَّىٰ يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضاً، (صحیح المسلم حدیث نمبر7207)
''یہاں تک امت کا ایک گروہ دوسرے گروہ کو ہلاک کرنے لگے۔''
مذکورہ بالا آیت اور احادیث کی روشنی میں کسی مسلمان کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں مسلمانوں اور بے گناہ لوگوں پر خود کش حملے کرنے والے گمراہ لوگ ہیں جن کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کی یہ حرکت دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کے لیے خوشیاں لے کر آئی ہے۔ پاکستان اور اسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ یہاں کا امن تباہ کر دیا جائے اور بدامنی کی آگ بڑھکا کر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ یہ لوگ پوری انسانیت کے قاتل ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا (المائدۃ۔32)
'' جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔''
مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی کلمہ گو کی جان لے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو ایک مہم پر بھیجا۔اسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے صبحدم اپنے دشمنوں کو جا لیا اور انہیں شکست دی۔ ان میں سے ایک شخص میرے اور ایک انصاری صحابی کے قابو میں آگیا۔ جب ہم نے اس پر قابو پایا تو اس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا۔ اس پر انصاری صحابی نے اسے چھوڑ دیا لیکن ( میں نے سمجھا کہ وہ جان بچانے کے لیے کلمہ پڑھ رہا ہے اس لیے)میں نےاسے نیزہ مارا اورختم کر دیا۔ پھر ہم واپس ہوئے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس کی خبر پہنچی تو انہوں نے فرمایا '' اے اسامہ! تو نے اسے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی قتل کر دیا؟'' میں نے عرض کیا ''وہ جان بچانا چاہتا تھا۔'' لیکن نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بار بار اس جملے کو دہراتے رہے کہ '' اے اسامہ! تو نے اسے لا الہ الا اللہ کہنے کے بعد بھی قتل کر دیا؟'' حتٰی کہ میں نے تمنا کی کاش میں آج ہی مسلمان ہوا ہوتا (تو اسلام قبول کرنے کی وجہ سے میرا یہ گناہ ختم ہو جاتا)۔ (بخاری حدیث نمبر4170)
علمائے کرام کی ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام اور جہاد کے صحیح اسلامی عقیدے سے آگاہ کریں اور انہیں اِن فتنہ پروروں کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے بچائیں جو نہ کسی حرمت کا لحاظ کر رہے ہیں نہ قرآن و حدیث کے واضح فرامین کا پاس رکھتے ہیں۔

قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اس مضمون کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں، اپنے جاننے والوں کو ای میل کریں، ویب سائٹ کا ربط دیں وغیرہ۔ شاید اللہ تعالیٰ کسی کو اس کے ذریعے ہدایت دے دیں اور ہمیں ان لوگوں میں شمار کر لے جنہوں نے کسی انسان کی جان بچا کر ساری انسانیت کو بچا لیا۔
 
Top