پاکستان میں بجلی کی پیداوار ؟

طالوت

محفلین
آج مجھے ایک ای میل موصول ہوئی جس میں پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کے ذرائع اور ان سے حاصل ہونے والی بجلی کی مقدار بیان کی گئی ہے ۔ میں اس فہرست کی تصدیق کرنے سے قاصر ہوں یہاں شئیرنگ کا مقصد اس کی تصدیق اور معلومات بہم پہنچانا ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں بجلی پیدا کرنے کےتین ذرائع ہیں۔
1۔ ہائیڈل
2۔ تھرمل (گیس ، بھاپ ، فرنس آئل)
3۔ ایٹمی توانائی

پاکستان میں چار قسم کے ادارے بجلی کی پیداوار میں حصہ لیتے ہیں ۔ واپڈا (WAPDA)، کے ای ایس سی ( KESC کراچی) ، پاکستان ایٹمی انرجی کمیشن (PAEC) اور آزاد طور پر بجلی پیدا کرنےوالے چند ادارے (IPPs) ۔
اب ذرا ان اداروں کی جون 2008 تک کے مطابق بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ملاحظہ ہو۔


1۔ واپڈا۔
الف۔ واپڈا ہائڈل

منگلا ۔ 1000 میگا واٹ
غازی بروتھا۔ 1450 میگا واٹ
وارسک۔ 243 میگا واٹ
چشمہ۔ 184 میگا واٹ
دارگئی۔ 20 میگا واٹ
رسول۔ 22 میگا واٹ
شادی وال۔ 18 میگا واٹ
نندی پور۔ 14 میگا واٹ
کرم گڑھی۔ 4 میگا واٹ
رینالہ۔ 1 میگا واٹ
چترال۔ 1 میگا واٹ
جگران (آزاد کشمیر) 30 میگا واٹ

کل ہائڈل پیداوار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔6461 میگا واٹ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ب۔ واپڈا تھرمل۔

گیس ٹربائین پاور اسٹیشن شاہدرہ۔ 59 میگا واٹ
اسٹیم پاور اسٹیشن فیصل آباد۔ 132 میگا واٹ
گیس ٹربائین پاور اسٹیشن فیصل آباد۔ 244 میگا واٹ
گیس پاور اسٹیشن ملتان۔ 195 میگا واٹ
تھرمل پاور اسٹیشن مظفر گڑھ۔ 1350 میگا واٹ
تھرمل پاور اسٹیشن گدو ۔ 1655 میگا واٹ
گیس ٹربائین پاور اسٹیشن کوٹری۔ 174 میگا واٹ
تھرمل پاور اسٹیشن جامشورو۔ 850 میگا واٹ
تھرمل پاور اسٹیشن لاڑکانہ۔ 150 میگا واٹ
تھرمل پاور اسٹیشن کوئٹہ۔ 35 میگا واٹ
گیس ٹربائین پاور اسٹیشن پنجگور۔ 39 میگا واٹ
تھرمل پاور اسٹیشن پسنی ۔ 17 میگا واٹ

کل تھرمل پیداوار 4811 میگا واٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


واپڈا کی کل پیداوار 11272 میگا واٹ
 

طالوت

محفلین
2۔ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کمپنی (kesc)

تھرمل پاور اسٹیشن کورنگی۔ 316 میگا واٹ
گیس ٹربائین پاور اسٹیشن۔ 80 میگا واٹ
گیس ٹربائین پاور اسٹیشن ، سائٹ ایریا۔100 میگا واٹ
تھرمل پاور اسٹیشن بن قاسم۔ 1260 میگا واٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
kesc کی کل پیداوار 1756 میگا واٹ
 

طالوت

محفلین
3۔ بجلی پیدا کرنے والے آزاد یا نجی ادارے (IPPs)


حب پاور پراجیکٹ (HPP)۔ 1292 میگا واٹ
(AES Lalpir Ltd) محمود کوٹ مظفر گڑھ۔ 362 میگا واٹ
(AES Pak Gen) محمود کوٹ مظفر گڑھ۔ 365 میگا واٹ
(Altern Energy Ltd) اٹک 29 میگا واٹ
فوجی کبیروالا پاور کمپنی خانیوال۔ 157 میگا واٹ
گل احمد انرجی لمیٹید اٹک۔ 136 میگا واٹ
حبیب اللہ کوسٹل پاور لمیٹید۔ 140 میگا واٹ
جاپان پاور جنیریشن لاہور۔ 120 میگا واٹ
کوہ نور انرجی لمیٹید لاہور۔ 131 میگا واٹ
لبرٹی پاور لمیٹید گھوٹکی۔ 232 میگا واٹ
(Rousch Power) خانیوال ۔ 412 میگا واٹ
صبا پاور کمپنی شیخو پورہ۔ 114 میگا واٹ
(Southern Electric Power Co. Ltd) رائے ونڈ 135 میگا واٹ
ٹپال انرجی لمیٹید کراچی۔ 126 میگا واٹ
اُچ پاور لمیٹید ڈیرہ مراد جمالی، نصیر آباد۔ 586 میگا واٹ
(Attock Gen Ltd) راولپنڈی۔ 165 میگا واٹ
اٹلس پاور شیخو پورہ۔ 225 میگا واٹ
اینگرو انرجی لمیٹید کراچی
کوٹ ادو پاور کمپنی لمیٹید۔ 1638 میگا واٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آزاد اداروں کی کل پیداواری صلاحیت 6365 میگا واٹ
 

طالوت

محفلین
4۔ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن
kanupp ۔ 137 میگا واٹ
chasnup۔ 325 میگا واٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایٹمی توانائی سے بجلی کی کل پیداوار 462 میگا واٹ
 

طالوت

محفلین
یوں ان تمام ذرائع سے حاصل ہونے والی بجلی کی مقدار 19855 میگا واٹ بنتی ہے۔ اور موجودہ سال کے اپریل کے شمار کے مطابق بجلی کی ضرورت صرف 14500 میگا واٹ ہے۔ ان اعداد و شمار میں میری یاد داشت کے مطابق بجلی کی ضرورت کے اعداد و شمار کم و بیش درست ہیں۔ اگر دو نوں اعدادو شمار درست ہیں تو یہ بڑی عجیب بات ہے کہ زیادہ پیدواری صلاحیت کے باوجود بجلی کا اس قدر شدید بحران کہ ساری قوم بلبلا اٹھے ؟

ہائڈل طریقے سے بجلی پیدا کرنے والا ادارہ واپڈا ، اس کی پیداواری صلاحیت دریاؤں میں پانی کے بہاؤ سے متاثر ہوتی ہے اور یہ 2414 میگا واٹ کم سے کم اور 6761 میگا واٹ تک جاتی ہے۔


وسلام
 

فرخ منظور

لائبریرین
میرے خیال میں یہ اعداد و شمار درست ہیں۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانوں کی نیتیں ٹھیک نہیں ورنہ بجلی کا بحران اتنا شدید نہیں۔ بجلی کی پیداوار اس وقت بری طرح متاثر ہوتی ہے جب گیس سے چلنے والے پاور سٹیشن کو گیس نہیں ملتی اور ڈیزل سے چلنے والے پاور سٹیشنز کو ڈیزل نہیں ملتا۔
 

الف نظامی

لائبریرین
طالوت آپ نے جو اعداد و شمار لکھے ہیں خصوصا تھرمل پاور جنریشن کے حوالے سے ،
اس میں یہ دیکھ لیجیے کہ کیا یہ installed capacity ہے یا De-rated capacity ہے۔ مطلب یہ کہ

installed capacity
جب تھریل پاور جنریٹر لگایا گیا اس وقت وہ کتنے میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا اہل تھا
اور
De-rated capacity
وقت کے ساتھ ساتھ اس کی کارکردگی میں جو کمی واقع ہوئی اس کے نتیجے میں اب وہ تھرمل پاور جنریٹر کتنے میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا اہل ہے۔

مزید یہ بھی دیکھیں کہ آئی پی پیز چند وجوہات کی بنا پر کبھی بجلی بنانا بند بھی کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے بجلی کی کل پیدوار کم ہو جاتی ہے۔
حکومت کی طرف سے ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے
حکومت کی تیل و گیس کی ترسیل روک دینے کی وجہ سے

کے ای ایس سی کے دعوی کے مطابق انہیں بجلی پیدا کرنے کیلئے فرنس آئل اور گیس کی حسب ضرورت فراہمی نہیں کی جاتی جبکہ پی ایس او اور سوئی سدرن گیس کا دعوی ہے کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن انہیں رقم کی ادائیگی نہیں کر رہی ہے۔
۔۔۔۔
کے ای ایس سی ذرائع کا کہنا ہے کہ لوڈشیڈنگ اور بجلی کی کمی کی اصل وجہ کے ای ایس سی کی جانب سے اپنے پلانٹس کے ذریعے پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی پیدا نہ کر نا ہے۔
۔۔۔۔
 

ماسٹر

محفلین
بجلی کا ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کی ضرورت تو ہر وقت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے مگر پیداوار مسلسل ہوتی ہے -
اس ہی لئے سارا نظام چلانے کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں بجلی کی پیداوار اس کی عام ضرورت سے بہت زیادہ رکھی جاتی ہے -
 

طالوت

محفلین
لیجئے تربیلا کو ملا کر تو اچھی خاصی پیدا کی جا سکتی ہے ۔ گویا نیتوں والا معاملہ ہی درست معلوم ہوتا ہے۔
 

طالوت

محفلین
طالوت آپ نے جو اعداد و شمار لکھے ہیں خصوصا تھرمل پاور جنریشن کے حوالے سے ،
اس میں یہ دیکھ لیجیے کہ کیا یہ installed capacity ہے یا De-rated capacity ہے۔ مطلب یہ کہ

installed capacity
جب تھریل پاور جنریٹر لگایا گیا اس وقت وہ کتنے میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا اہل تھا
اور
De-rated capacity
وقت کے ساتھ ساتھ اس کی کارکردگی میں جو کمی واقع ہوئی اس کے نتیجے میں اب وہ تھرمل پاور جنریٹر کتنے میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا اہل ہے۔

مزید یہ بھی دیکھیں کہ آئی پی پیز چند وجوہات کی بنا پر کبھی بجلی بنانا بند بھی کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے بجلی کی کل پیدوار کم ہو جاتی ہے۔
حکومت کی طرف سے ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے
حکومت کی تیل و گیس کی ترسیل روک دینے کی وجہ سے

کے ای ایس سی کے دعوی کے مطابق انہیں بجلی پیدا کرنے کیلئے فرنس آئل اور گیس کی حسب ضرورت فراہمی نہیں کی جاتی جبکہ پی ایس او اور سوئی سدرن گیس کا دعوی ہے کہ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن انہیں رقم کی ادائیگی نہیں کر رہی ہے۔
۔۔۔۔
کے ای ایس سی ذرائع کا کہنا ہے کہ لوڈشیڈنگ اور بجلی کی کمی کی اصل وجہ کے ای ایس سی کی جانب سے اپنے پلانٹس کے ذریعے پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی پیدا نہ کر نا ہے۔
۔۔۔۔
جی الف نظامی آپ کا تجزیہ بالکل درست ہے ۔ اور اگر ہم یہ تصور کر لیں کہ بجلی پیدا کرنے کے تمام یونٹس کی کارکردگی میں چالیس فیصد کمی واقع ہو چکی ہے تو بھی ملکی ضروریات کے لئے بجلی پیدا کی جا سکتی ہے ۔ اب رہا سوال کہ بجلی پیدا کرنے والوں کو بجلی کی پیدائش کے لئے مناسب مقدار میں آئل یا گیس وغیرہ نہ ملنا تو یقینا یہ بھی حکومت کی ہی نا اہلی ہے۔ جیسے کہ کے ای ایس سی کے بیان سے ظاہر ہو رہا ہے ۔

قصہ مختصر یہ با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ بجلی کی پیداواری صلاحیت ہماری ضروریات کو کافی ہے اور بارہ سے اٹھارہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ موجودہ، سابقہ و سابقین کی نااہلی یا کمینگی و کرپشن سے زیادہ کچھ نہیں۔ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت وقت اس معاملے میں چستی اور ایمانداری دکھائے اور رینٹل پاورز ، جینریٹر و یو پی ایس کمیشن و کاروبار مافیا کو کنٹرول کرے تاکہ نہ صرف لوگوں کی مشکلات میں کمی آئے بلکہ ملکی برآمدات کا جو بیڑہ غرق ہو چکا ہے اسے بھی سطح آب پر لایا جا سکے۔ کاروبار میں مسلسل مندی ، بے روزگاری ، افراط زر کی شرح میں تیزی سے ہوتا اضافہ ، برآمدات میں واضح کمی اور رہی سہی کسر امن و امان کی پیچیدہ صورتحال ، ان سب نے عوام کا جینا محال کر رکھا ہے۔

اب تو دنیا بھر میں دوسرے کئی ذرائع سے بھی خوب بجلی پیدا کی جا رہی ہے جیسے شمسی توانائی ، ہوائی پنکھے و سمندری لہریں وغیرہ مگر شاید یہ ٹیکنالوجیز ہماری قوت خرید سے باہر ہیں مگر میرے خیال میں اگر اس پر حکومت و “بڑے بڑے“ حضرات سنجیدگی سے توجہ دیں تو اس قدر مشکل نہیں ۔ مگر افسوس کہ اس ملک بے شمار ضروریات زندگی کی اشیاء وافر مقدار میں پیدا کرنے کی صلاحیت کے باوجود چند بڑے مگرمچھوں کی خاطر درآمد ہی کیا جاتا ہے تو اس معاملے میں کوئی کہاں دلچسپی لے گا؟
وسلام
 

arifkarim

معطل
بجلی کا ایک مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اس کی ضرورت تو ہر وقت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے مگر پیداوار مسلسل ہوتی ہے -
اس ہی لئے سارا نظام چلانے کے لیے ترقی یافتہ ممالک میں بجلی کی پیداوار اس کی عام ضرورت سے بہت زیادہ رکھی جاتی ہے -

جرمنی کا تو پتا نہیں۔ البتہ ناروے کی صرف 4 ملین آبادی کو بجلی پہنچانے تک جتنا خرچہ ہے وہ کسی اور ملک میں نہیں۔ ہم یہاں گرمیوں میں 10000 روپے ماہانہ اور سردیوں میں 20000 ہزار روپے ماہانہ عام 4 کمروں کے مکان کا خرچہ بھرتے ہیں۔ اور وہ بھی صرف اس لئے کہ مارکیٹ میں موجود بجلی کے بروکرز سارا پیسا راستے ہی میں ہڑپ کر جاتے ہیں۔ پچھلے 5 سال سے بجلی کا ایک عام سا ٹریڈر سالانہ 400 ملین کرونرز کما رہا ہے اور یہ خرچہ ہماری جیبوں سے پورا کیا جاتا ہے۔ اسکینڈینیون بجلی ایکسچینج اپنی نوعیت کی دنیا کی پہلی ایکسچینج ہے جہاں ناروے، اسویڈن اور ڈنمارک کے مابین بجلی کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں؛
http://en.wikipedia.org/wiki/Nord_Pool_Spot
یہ بجلی مافیا انشاءاللہ۔آہستہ آہستہ ہر ملک میں موجود ہوگا۔
 

ذوالفقار

محفلین
میں تمام تجزيہ نگاروں کو بتانا چاہوں گا کہ امريکی حکومت پاکستان کی بجلی کی ضروريات کو پورا کرنے کے ليے سخت کوششيں کر رہی ہے۔ اس سلسلے ميں ہم حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر ڈیموں کی تعمیر، آبی ذخائر اور دیگربجلی پيدا کرنے والے ذرائع پر کام کر رہے ہيں۔
پچھلے ہفتے، تيسرے پاک امريکہ سٹريجک ڈائيلاگ کے دوران، توانائی پر کام کرنے والےورکنگ گروپ نے ملک کے موجودہ انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے اور توانائی کے نئے ذرائع بنانے پر منصوبہ وضع کيا۔ ہم نے چار نئے پاور پلانٹس کا آرڈر ديا۔ ہم جلد ہی پبلک پرائيويٹ شراکت پر مبنی صوبہ سندھ ميں 150 میگاواٹ ونڈفارم مکمل کريں گےجو کہ پاکستان کے ساحل پرموجود ہواوں کو کارآمد بنائے گا۔ ان منصوبوں کے علاوہ ہم حکومت پاکستان سے کہيں گے وہ توانائی کے شعبے کے نظام کی اصلاح کريں۔
اگر آپ پاکستان کی ضروريات پورا کرنے کے حوالے سے ہماری وابستگی پرغور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارا کتنا گہرا تعلق ہے يہ واقعی ايک عمدہ مثال ہے۔

ذوالفقار- ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
 

الف نظامی

لائبریرین
میں تمام تجزيہ نگاروں کو بتانا چاہوں گا کہ امريکی حکومت پاکستان کی بجلی کی ضروريات کو پورا کرنے کے ليے سخت کوششيں کر رہی ہے۔ اس سلسلے ميں ہم حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر ڈیموں کی تعمیر، آبی ذخائر اور دیگربجلی پيدا کرنے والے ذرائع پر کام کر رہے ہيں۔
پچھلے ہفتے، تيسرے پاک امريکہ سٹريجک ڈائيلاگ کے دوران، توانائی پر کام کرنے والےورکنگ گروپ نے ملک کے موجودہ انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنانے اور توانائی کے نئے ذرائع بنانے پر منصوبہ وضع کيا۔ ہم نے چار نئے پاور پلانٹس کا آرڈر ديا۔ ہم جلد ہی پبلک پرائيويٹ شراکت پر مبنی صوبہ سندھ ميں 150 میگاواٹ ونڈفارم مکمل کريں گےجو کہ پاکستان کے ساحل پرموجود ہواوں کو کارآمد بنائے گا۔ ان منصوبوں کے علاوہ ہم حکومت پاکستان سے کہيں گے وہ توانائی کے شعبے کے نظام کی اصلاح کريں۔
اگر آپ پاکستان کی ضروريات پورا کرنے کے حوالے سے ہماری وابستگی پرغور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ پاکستان کے ساتھ ہمارا کتنا گہرا تعلق ہے يہ واقعی ايک عمدہ مثال ہے۔

ذوالفقار- ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
www.state.gov
یہ سب سے گھٹیا ترین مثال ہے جس کی تفصیل پڑھنے والوں کو مندرجہ ذیل اقتباس سے واضح ہوگی۔
پاکستانی ٹیکس دہندگان کا بھی ایک سوال
دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ سے پاکستان کی معیشت کو 50/ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا ہے چنانچہ پاکستان کے ٹیکس دہندگان بھی یہ سوال کر رہے ہیں کہ وہ اس نقصان کا بوجھ کیوں اٹھائیں۔ خصوصاً اس لئے بھی کہ اس جنگ میں معاونت کے صلے میں جو وعدے امریکہ نے کئے تھے ان میں سے عملاً ایک بھی وعدہ پورا نہیں ہوا۔ وزیر خارجہ قریشی کو یہ بھی کہنا چاہئے تھا کہ صرف گزشتہ مالی سال میں اس جنگ سے پاکستان کی معیشت کو 13.5/ارب ڈالر (تقریباً 1200ارب روپے) کا نقصان ہوا ہے جو گزشتہ مالی سال میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے ٹیکسوں کی مد میں جمع کی جانے والی مجموعی رقم کا تقریباً 90فیصد بنتا ہے جبکہ امریکہ اور یورپی یونین کے ملکوں کی جانب سے سیلاب زدگان کو جو ”فراخدلانہ“ امداد دی گئی ہے اس کا مجموعی حجم ان تمام ملکوں میں ٹیکسوں کی مد میں وصول کی گئی رقوم کا 0.01فیصد (صفر اشاریہ صفر ایک) کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی جانب سے یہ بھی کہا جانا چاہئے تھا کہ سیلاب کے متاثرین اور غذائی قلت کا شکار کروڑوں افراد یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ سیلاب زدگان کی بحالی اور تعمیر نو کو اولین ترجیح قرار دی جائے اور جب تک یہ کام احسن طریقے سے پورا نہ ہو جائے اور اس جنگ سے معیشت کو ہونے والے نقصان کا ازالہ امریکہ کی طرف سے نہ کر دیا جائے اس وقت تک اس جنگ میں معاونت کو روک دیا جائے۔ یہ بات بھی اب واضح کر دینی چاہئے کہ جمہوری حکومت طویل عرصے تک عوامی دباؤ کا سامنا نہیں کر سکتی۔
 
Top