پاکستان میں اردو ادب کے ستر سال۔محمد حمید شاہد

l_361529_040930_updates.jpg
قیامِ پاکستان کو ستّرسال ہوگئے ہیں،اس دوران زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح، ادب کے میدان میں بھی خاصا کام ہوا ہے۔ جس سے پاکستانی ادیبوں اور شاعروں کی کارکردگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ستّر کی دہائی تک آتے آتے بہت تبدیلی آچکی تھی۔ ادب، انسان کے باطن میں موجزن احساس سے جڑ رہا تھا۔ اسی داخلیت نے دروں بینی کے چلن کو عام کیا تو لسانی تشکیلات کا تجربہ سامنے آیا ۔ علامت و تجریت کی طرف افسانہ مائل ہوا ، ہیئت اور تیکنیک کے تجربات ہوئے، اس سے ایک نیا اسلوب بنا۔
اردو ادیب، ہند اسلامی مشترکہ تہذیب کا نمائندہ تھا، تاہم قیام پاکستان کے بعد اس کا رشتہ، یہاں کی زمینی روایت کے ساتھ ساتھ فرد کی روحانی تاریخ کے مظاہر سے شعوری طور پر جڑتا چلا گیا۔ یہیں سے ایک کشمکش کا آغاز بھی ہوا ، یہ بات ترقی پسندوں کو ایک آنکھ نہ بھا رہی تھی، واقعہ یہ تھا کہ ادب کے مزاج میںاگر ایک طرف یہاں کی ہزاروں سالہ تاریخ کام کر رہی تھی تو اس کے قلب میں یہ سوال بھی موجود تھا کہ اس کی جڑیں کہیں اور سے روحانی اور فکری غذا پا رہی ہیں۔

Liturature_02.jpg

سچ پوچھیں تو ہمارے ادب میں ہماری قوم سانس لے رہی ہے، وہ قوم، جسے تاریخ کا سفاک جبر کاٹ کاٹ کر مُردہ بنا رہا ہے۔ عام آدمی کی خوشیاں، اُن کے غم سب اس میں جھلکتے ہیں۔ یہ اندازِ نظر اور تاریخ نویسی کا یہ ڈھنگ ہمارے ادب کا شعار رہا ہے۔
جن دنوں پورے برصغیر کا مسلمان ایک الگ وطن کا خواب دیکھ رہا تھا ،یہاں کا ترقی پسند ادیب اپنے ہی ڈھب سے سوچ رہا تھا۔ ایک الگ وطن کا خیال اس کے لہو میں کسی قسم کا جوش پیدا نہیں کر رہا تھا، تاہم قیام پاکستان کے بعد اِدھر بھی اور اُدھر بھی ترقی پسندوں نے نئے نئے موضوعات کا در اردو ادب پر کھول دیا ۔ یہ سوال بھی عین اسے زمانے میں سامنے آیا تھا کہ کیا پاکستان کا ادب اپنے مزاج کے اعتبار سے تقسیم سے پہلے والے ادب سے مختلف ہونا چاہیے؟ اور کیا ادب کو قومی شناخت کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے؟ تقسیم سے پہلے کا اردو ادیب ہند اسلامی مشترکہ تہذیب کا نمائندہ تھا، تاہم قیام پاکستان کے بعد اس کا رشتہ، یہاں کی زمینی روایت کے ساتھ ساتھ فرد کی روحانی تاریخ کے مظاہر سے شعوری طور پر جڑتا چلا گیا ۔ یہیں سے ایک کشمکش کا آغاز بھی ہوا کہ یہ بات ترقی پسندوں کو ایک آنکھ نہ بھا رہی تھی، خیر واقعہ یہ تھا کہ ادب کے مزاج میں اگر ایک طرف یہاں کی ہزاروں سالہ تاریخ کام کر رہی تھی تو اس کے قلب میں یہ سوال بھی موجود تھا کہ اس کی جڑیں کہیں اور سے روحانی اور فکری غذا پا رہی ہیں۔
یاد رہے کہ وہ ادیب، جو تقسیم کے حامی نہ تھے اور انسان اور انسانیت کے ساتھ بہت سختی سے وابستہ تھے، ایک وقت ایسا آیا تھا کہ وہ ادیب بھی ہندوستان چھوڑ کر پاکستان آنے پر مجبور ہوگئے تھے ، شاید اس لیے کہ یہیں ان کے باطنی تخلیق کار کی تکمیل ممکن تھی۔ ’منٹو کی کہانی ’’ کھول دو‘‘ کو کچھ لوگ کسی اور نگاہ سے دیکھتے ہیں ،مگر مجھے تو یہ بھی اُس کے پاکستانی ہونے کی روداد سناتی ہے۔
پاکستان آنے کے بعد منٹو نے جو دو پہلی کہانیاں لکھیں، اُن میں ’’کھول دو‘‘ شامل ہے ، تاہم یہی منٹو کی پہلی پاکستانی کہانی بنتی ہے ۔ ا س افسانے میں جہاں فسادیوں اور لوٹ مار کرنے والوں کے خلاف نفرت اُبھاری گئی ہے، وہیں ہماری ملاقات ایک حساس پاکستانی سے بھی ہوتی ہے ۔ ایسا پاکستانی، جو فسادات اور قتل وغارت گری کو نفرت اور دُکھ سے دیکھتا ہے۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اپنے خوابوں کی سرزمین کی طرف دیکھنے والوں کے ساتھ ایسا ہوتا ۔’’کھول دو‘‘ کو سمجھنے کے لیے قیام پاکستان کے بعد کے بدلے ہوئے منٹو کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔
میں اُس تبدیلی کی بات کر رہا ہوں، جسے ناقدین نے باقاعدہ نشان زد کیا ہے۔ منٹونے خود ’’زحمت مہر درخشاں‘‘ میںلکھا تھا کہ پاکستان آنے کے بعد یہ الجھن پیدا کرنے والا سوال اس کے ذہن میں گونجتا رہا ہے کہ کیا پاکستان کا ادب علیحدا ہوگا؟ اگر ہوگا تو کیسے؟ اور یہ کہ اسٹیٹ کے تو ہم ہرحالت میں وفادار رہیں گے ‘ مگر کیا حکومت پر نکتہ چینی کی اجازت ہوگی ؟اور آزاد ہو کر کیا یہاں کے حالات فرنگی عہد حکومت کے حالات سے مختلف ہوں گے؟ یہی وہ بنیادی سوالات ہیں، جو پاکستانی ادب کا مزاج متعین کر رہے تھے ۔میں نے کہا نا،وہ ادیب بھی جو پاکستان کے قیام سے پہلے تقسیم کے مخالف تھے یا اس سارے تاریخی عمل سے الگ تھلگ ہو کر بیٹھ گئے تھے ،پاکستان بننے کے بعد پاکستانی ہوکر سوچ رہے تھے ۔
منٹو صاحب پاکستان آئے ، اسے اپنا وطن بنایا ، اسٹیٹ کے وفادار ہوئے اوراس نظام کے ناقد ہو گئے، جو فرنگی عہد سے مختلف نہیں ہورہا تھا،جہاں جہاں انہیں ٹیڑھ نظر آیا وہاں وہاں انہوںنے بھر پور چوٹ لگائی ۔ اَفسانہ ’’کھول دو‘‘ بھی ایسی ہی شدیدچوٹ ہے۔ ایک سچے پاکستانی کی اُس معاشرتی روّیے پر بے رحم چوٹ جس نے ہمارے سنہرے خوابوں کو گدلا دیا تھا ۔
برصغیر کی تقسیم کا واقعہ جہاں آزادی کے دِل خوش کن خوب سے جڑا ہواہے، وہیں نقل مکانی کے المیے سے بھی وابستہ ہے ۔ وہ علاقے ،جن سے ماضی کی ساری یادیں وابستہ تھیں،وہ خیال میں بہت گہرائی میں پیوست تھے، ادیب کا رشتہ اس خیال سے مستحکم ہو کر سامنے آیا ۔ اس نئی زمین کے لیے جس طرح کے خواب دیکھے گئے تھے، اس کی عملی تعبیر میں سو طرح کے رخنے تھے،یہی سبب ہے کہ فیض احمد فیض کی جانب سے داغ داغ اُجالا کی بات ہونے لگی تھی ایسے میں ماضی کی زمینوں کو دیکھنا، وہاں کے دُکھ سکھ کا نئی صورت حال سے موازنہ کرنا اُردو ادب کا باقاعدہ موضوع بن گیا۔


Liturature_06.jpg
سینتالیس سے ساٹھ تک کے زمانے کے ادب میں اسی ماضی کی گونج صاف طور پر سنی جاسکتی ہے ، حتیٰ کہ انتظار حسین پر تو اسی ناسٹلجیا کا شکار ہونے کی پھبتی بھی کسی جاتی رہی، تاہم واقعہ یہ ہے کہ انتظار حسین جیسے ادیب محض ماضیِ قریب سے وابستہ نہیں ہوئے تھے، وہ ہندِ اسلامی تہذیب سے وابستہ ہوکر کچھ خواب دیکھ رہے تھے، چاہے یہ خواب ’’آخری آدمی ‘‘ کی صورت میں ہی کیوں نہ ہوں۔
ساٹھ اور ستر کی دہائی تک آتے آتے بہت تبدیلی آچکی تھی۔ ترقی پسندوں کا نعرے لگانے والا رجحان مات کھا چکا تھا ۔ ادب انسان کے باطن میں موجزن احساس سے جڑ رہا تھا۔ اسی داخلیت نے دروں بینی کے چلن کو عام کیا تو لسانی تشکیلات کا تجربہ سامنے آیا ۔ علامت و تجریت کی طرف افسانہ مائل ہوا ۔ ہیئت اور تیکنیک کے تجربات ہوئے، اس سے ایک نیا اسلوب بنا، یوں مجموعی سطح پر دیکھا جائے تو ادب ایک نئے تصور سے جڑا اور زبان کے اندر اظہار کی بے پناہ قوت پیدا ہوئی۔
تخلیقی زبان لکھنے کی اس لگن کے زمانے میں جہاں نظم مختلف ہوگئی تھی، وہاں ہمارا افسانہ بھی اس سے اثر قبول کر رہا، یہی وہ زمانہ ہے، جب ہمارے ہاں سب کچھ ’’نیا ‘‘ ہو گیا تھا۔ نیا افسانہ، نئی نظم، نیا ادب حتیٰ کہ غزل بھی نئی۔ ان دنوں ادھر سرحد کے پار بلراج مین را نے ’’ماچس‘‘ لکھا تھا اور سریندر پرکاش نے’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ تو ادھر پاکستان میں انورسجاد نے ’’ماں اور بیٹا‘‘، رشید امجد نے ’’گملے میں اُگا ہو شہر‘‘ لکھے تھے ،احمد ہمیش نے ’’کہانی مجھے لکھتی ہے‘‘ لکھی حتیٰ کہ کہانی کی روایت سے جڑے ہوئے منشایاد جیسے افسانہ نگاروں نے نئے بھی اس چلن میں لکھنا قبول کر لیا تھا کہ اُس زمانے میں اس میدان میں قدم گاڑھے بغیر توجہ پانا ممکن ہی نہ تھا، تاہم جب اس نئی لہر سے یکسانیت کی بُو آنے لگی اور یہ تحریک فیشن زدگی کا شکار ہو گئی تو قاری اور ادیب میں مغائرت در آئی۔
ایک بات یہاں دہرانے کے لائق ہے کہ سن سینتالیس میں ہجرت کرنے والے جب انسانیت کے دشمن درندوں کے نرغے میں تھے تو بھی ہمارا اَفسانہ چوکنّا تھا۔ منٹو نے، کھول دو لکھا یوں کہ سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ قیدی اثاثوں کی طرح تقسیم ہوئے تو اسی کے باکمال قلم نے، ٹوبہ ٹیک سنگھ لکھا۔

احمد ندیم قاسمی کا، پرمیشر سنگھ قافلے سے بچھڑ جانے والے کا صرف سانحہ ہی نہیں وقت کے مخصوص پارچے پر کہانی کی مہر بھی ہے۔ یہ روّیہ اب تک چلا آتا ہے۔ کچھ دن گزرتے ہیں منشا یاد نے اَفسانہ لکھا تھا، کہانی کی رات اور مجھے افسانہ لکھنا پڑا تھا، سورگ میں سور یا پھر ناول مٹی آدم کھاتی ہے۔ سچ پوچھیں تو ہمارے ادب میں ہماری قوم سانس لے رہی ہے، وہ قوم، جسے تاریخ کا سفاک جبر کاٹ کاٹ کر مُردہ بنا رہا ہے۔ عام آدمی کی خوشیاں ان کے غم سب اس میں جھلکتے ہیں۔ یہ اندازِ نظر اور تاریخ نویسی کا یہ ڈھنگ ہمارے ادب کا شعار رہا ہے۔
Liturature_05.jpg

ستر کی دہائی کے عین آغاز میں ہم دولخت ہو گئے تھے۔ انتظار حسین، مسعود مفتی اور مسعود اشعر کے علاوہ وہ تخلیق کار، جو براہِ راست اس سانحے سے گزرے، وہ وہیں بس گئے یا وہ جو یہاں آگئے تھے، لکھنے بیٹھے تو لہورُلا گئے۔ غلام محمد، محمود واجد، امِ عمارہ، شہزاد منظر، نور الہدیٰ سید، علی حیدر ملک، احمد زین الدین، شاہد کامرانی اور شام بارکپوری کے لکھے ہوئے افسانے اس قومی سانحے کی سچی تصویر بناتے ہیں۔ میں جب بھی اس قومی سانحے کی بابت سوچتا ہوں تو مجھے ریاض مجید کی غزلوں کا مجموعہ، ڈوبتے بدن کا ہاتھ یاد آ جاتا ہے۔
ضیا الحق والے اسلامی مارشل لا، جسے امریکی حمایت نے گیارہ سال تک پھیلا دیا تھا، بھٹو کی پھانسی، افغانستان میں امریکی مفادات کے تحفظ کو جہاد قرار دینا، روس کا ٹوٹنا اور ہماری تہذیبی حمیت کا پارہ پارہ ہونا، ایسے سانحات کو لیے ہوئے تھا، جو اُس زمانے کے ادب کا مزاج بدلتے رہے ۔پہلے امریکی جہاد اور پھر دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک حربے کے طور پر استعمال کی جانے لگی تو عالمی سامراج کو ہم نوا بھی مل گئے، یہی وہ فکری انارکی کا زمانہ ہے کہ ملکوں ملکوں دہشت گردی پھیلانے اور دہشت زدہ کرکے عالمی وسائل پر قبضہ کرنے کی مہم چلی اور سوچنے سمجھنے والے چکرا کر رہ گئے۔
اُسی زمانے میں میڈیا کے ذریعے کامیاب ذہن سازی کے تجربات ہوئے اور قومی سطح پر بیانیہ تشکیل دینے کی باتیں ہونے لگی۔ ایسے میں ہمارے ادیب الگ تھلگ ہو کر کیسے بیٹھ سکتے تھے، اُنہوں نے اپنے قلم کا حق ادا کیا اور جم کر لکھا۔ لکھتے ہوئے، ان کی ہمیشہ کوشش رہی کہ وہ کمزور کا ساتھ دیں، کیوں ہمارا ادیب سمجھتا ہے کہ طاقتور کی حمایت ادب کا منصب نہیں ہے۔ خالدہ حسین کا افسانہ ’’ابنِ آدم ‘‘ پڑھ لیجئے، اس میں آپ کو دہشت زدہ انسان کا چہرہ اورامریکی فوجیوں کے ہتھے چڑھ کر جنسی تشدد کا شکار ہونے والی عراقی عورت کا چہرہ دونوں نظر آجائیں گے۔ دونوں کے چہرے نفرت اور کرب و اذیت نے بدل کر رکھ دیئے ہیں۔ ہمارا ادب خود کو اس عراقی عورت کے ساتھ پاتارہا ہے، جس پر تشدد روا رکھا گیا تھا۔ دہشت کا اگلا موسم ہماری زمین پر اترا تو سب کچھ خزاں رسیدہ نظر آنے لگا، مسجدوں، امام بارگاہوں، مزاروں پر دھماکے، ڈرون اور خود کش حملے ہماری نفسیات کو تلپٹ کرنے لگے، جہاں جہاں دہشت کی آگ برس رہی تھی، وہاں وہاں سب کچھ حتی کہ انسانیت اور اس کی مسلّمہ اقدار بھی راکھ ہوتی جارہی تھیں۔ ابھی اپنے پیاروں کو دفنا کر لوٹے بھی نہ ہوتے کہ کچھ اور جنازے تیار ملتے، کہیں کہیں تو جنازہ پڑھنے والے بھی دہشت گردوں کا نشانہ ہو جاتے تھے۔ ایسے میں انسانیت پر ایمان متزلزل ہو نے لگا، کہانیاں اور شاعری ایسے میں ان موضوعات سے وابستہ کیسے رہتیں، جو اسے تہذیبی امی جمی والے زمانے میں مرغوب تھے، یہ اپنے مزاج کے اعتبار سے برہم ہوئیں کہ برہم ہونا بنتا تھا ۔
آزادی سے لے کر ٹوٹنے تک اور اب تک کے پر آشوب زمانے کے آتے آتے یوں محسوس ہونے لگا ہے، جیسے دنیا یکدم سکٹر گئی ہے۔ ساری لکیریں مٹ گئی ہیں، ساری شناختیں معدوم ہو گئی ہیں۔ گلوبل ویلج بنتی اس دنیا میں اب اندر کے دُکھوں سےکہیں بڑے دکھ باہر سے آرہے ہیں۔ مارکیٹ اکانومی نے کنزیومر ازم کی جو ہوا باندھ رکھی ہے، عالمی سامراج کا اس سے بھی مفاد وابستہ ہے، اس نے بھی ہمارے ادب میں ایک مزاحمت کا روّیہ پیدا کر دیا ہے، پھر اس دبائو کے زمانے میں ہماری معاشرت کے اندر کے تضادات، فرقہ ورانہ تعصبات، جہالت اور اندر دبی غلاظتیں باہر پھوٹ پڑیں۔
ہم علم، تہذیب اور تربیت سے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو غچہ دے کر آگے بڑھ سکتے تھے، مگر اس کے ذریعے ریاستی قوت کو سامراج اور سرمائے نے ہتھیا کر سارے راستے مسدود کر دیئے ہیں، کئی کئی چینلز بظاہر کھلی آزادی کے ساتھ موجود ہیں، مگر فی الاصل ایسا نہیں ہے، پھر یوں بھی ہے کہ ٹی وی کا ریموٹ کنٹرول ہر ایک کے ہاتھ میں یوں آگیا ہے، جیسے بندر کے ہاتھ استرا۔ مناظر بدل رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ثقافتی چولیں بھی ڈھیلی پڑنے لگی ہیں۔
کمپیوٹر کے ہر آئی کون کے پیچھے سے انفارمیشن کا جو سیلاب امنڈا پڑتا ہے، اس کی کوئی تہذیب نہیں ہے، لہٰذا بچی کھچی مثبت روایات بھی اسی ریلے میں غوطے پر غوطہ کھا رہی ہیں۔ ساری انسانیت، بازاری نفسیات اور قبضہ گیروں کی زد پر ہے۔ بجا کہ جارحیت کرنے والے کو دنیا بھر کے سارے وسائل پر دسترس چاہیے۔ یہ بھی درست ہے کہ جنگ اور دہشت اسی کا پروڈیکٹ ہے، مگر اس کا احساس بھی تو ہونا چاہیے کہ ہم ادبدا کر اپنے تضادات کا خود شکار ہو رہے ہیں۔
بنیاد پر ستی سے لے کر دہشت گردی تک ہمارا اپنا چہرہ مکروہ ہو کر سامنے آتا رہا ہے اور آرہا ہے، تاہم یہ امر لائق امتنان ہے کہ دہشت کے اس زمانے میں ہماری شاعری اور ہمارا ادب اس دیو زاد کو نشان زد کرتا رہا اور کر رہا ہے، جو ہماری کہانیوں میں کبھی ’’آدم بو‘ آدم بو‘‘ پکارتے آیا کرتا تھا اور ان تضادات کو بھی، جو ہمارے اندر سے بدبودار گٹر کی طرح اُبل پڑے ہیں۔


Liturature_04.jpg
اُردوغزل: مقبول ترین شعری صنف
ہماری شاعری کی مقبول ترین صنف غزل تھی ، سال بہ سال وقت گزرتا رہا مگر اس کی مقبولیت میں کمی نہ آئی یہ الگ بات کہ اظہار و بیان کی نئی صورتوں کی تاہنگ بھی اس عرصے میں بڑھی جس نے نظم کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن اس سب کے باوجود غزل شاعروں کی ترجیح رہی ہے۔ اردو غزل ایک تہذیبی صنف ہے اور اپنی مضبوط روایت رکھنے کی وجہ سے ، ایک ہی وقت میں آسان ترین اور مشکل ترین صنف رہی ہے ۔ غزل کی اس روایت کو بنانے والوں میں میر ،سودا، مصحفی، آتش، مومن، غالب ، یگانہ سے اقبال تک سب نے حصہ ڈالا اور تقسیم تک آتے آتے غزل نہ تو صرف مارے جانے کے خوف سے نکلی ہرن کی دردناک چیخ رہی،نہ محض عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنایہ الگ بات کہ مجموعی اعتبار سے غزل کو دیکھا جائے تو یہ صنف ایک تہذیب کے مسلسل انہدام کی ایک مسلسل اور دردناک چیخ ہو گئی ہے اور اپنی جمالیات کے اعتبار سے نسائی حسن جیسی لطافتیں اور نزاکتیں رکھتی ہے۔
دلچسپ مشاہدہ یہ رہا کہ قیام پاکستان کے بعد ترقی پسند وں کا ہدف غزل رہی جب کہ غزل نے انہی ترقی پسندوں کے لحن کو قبول بھی کیا اور کلاسیکی روایت کو بدل جانے دیا۔ ویسے غزل کا بدلنا بہت پہلے سے شروع ہو چلا تھا جس میں اقبال نے سرعت پیدا کی اور ترقی پسندوں تک آتے آتے تبدیلی کو بہت نمایاں طور پر دیکھا جاسکتا تھا۔ قیام پاکستان کے وقت صوفی غلام مصطفیٰ تبسم، حفیظ جالندھری، احسان دانش، مجید امجد، میرا جی، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی،ساقی فاروقی، ضیا جالندھری اور دوسرے شاعر موجود تھے ، کچھ نمایاں اور کچھ شناخت بنانے کی جدو جہد میں مصروف ۔ اسی زمانے میں عابد علی عابد نے کہا تھا: ’’لوح مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا/ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا‘‘اور اسی زمانے میں فیض رومان اورانقلاب کو ہم آہنگ کر رہے تھے :’’ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد/فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے‘‘ تو یوں ہے کہ غزل بدلی مگر اس نے اپنی نزاکتوں کو نہ چھوڑا ۔ انجم رومانی نے کہا تھا:’’ہمیں نے آج تک اپنی طرف نہیں دیکھا/توقعات بہت کچھ زمانہ رکھتا ہے‘‘ تو یوں ہے کہ زمانے کی غزل سے بہت توقعات رہیں مگراس کا بدلنا بھی ایک ادا رکھتا تھا جس نے اس ادا کو نہ سمجھا وہ پٹ گیا۔ عارف عبدالمتین نے کہہ رکھا ہے:’’میں سمندر تھا مگر جب تک رہا تجھ سے جدا/اپنی گہرائی کا خود مجھ کو بھی اندازہ نہ تھا‘‘، ایک تخلیقی انسان سمندر سہی مگر غزل ہی ایسی صنف رہی ہے جو انسان کو اس کے باطن کی گہرائی کی خبر دیتی ہے۔
Liturature_03.jpg
ظفر اقبال تک آتے آتے غزل کے بدلنے اور نہ بدلنے کا سوال بہت شدت سے سامنے آیا ۔ اس سارے عرصے میں ناصر کاظمی، احمد مشتاق، رساچغتائی، سلیم احمد، محبوب خزاں ، منیر نیازی،جون ایلیا، عطا شاد، احمد فراز، توصیف تبسم ، ریاض مجید،افتخار عارف،بیدل حیدری،علی مطہر اشعر،خورشید رضوی، جلیل عالی ، عبیداللہ علیم، اظہار الحق،عدیم ہاشمی، محسن احسان، پروین شاکر،جمال احسانی،ثروت حسین ،حلیم قریشی ، فیصل عجمی ،خالد اقبال یاسرسے خالد احمد اور غلام حسین ساجد تک مجھے جیسے جیسے نام یاد آتے جا رہے ہیں لکھتا جارہا ہوں ، انہی میں ، اس کشور ناہید کو بھی شامل جانیے جنہوں نے کہا تھا:’’اس قدر تھا اداس موسم گل/ہم نے آب رواں پہ سر رکھا‘‘ اور شاہدہ حسن اور فاطمہ حسن کو بھی۔ تو یوں ہے کہ غزل کا دامن مالامال کرنے والے ان گنت ہے ۔ اور اس باب میں اچھے شاعروں کی ایک قطار ہے ، ایک سے بڑھ کر ایک ۔ غلام محمد قاصرکو میں کیسے بھول رہا ہوں اور محسن نقوی کو بھی۔ تنویر سپرا اور شکیب جلالی نے اپنے مزاج کی الگ غزل کہی اور ہمارے ذہنوں میں اپنے نام محفوظ کر گئے۔
انور شعور کی غزل کے میں عاشقوں میں ہوں ، انورکا ایک شعر ہے:’’ دُرجِ دل ڈھونڈ کر نہال ہوں میں/جیسے دریافت ہو سفینے کی‘‘ تو یوں ہے کہ غزل کے باکمال شاعروں کے ہاں ہر بار آپ کو ایک دفینہ ملے گا اور لطف یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ڈسپلن میں اردو اور سماجی علوم کہیں نیچے چلے گئے مگر شاعروں کے ہاں غزل کہنے کی لگن ویسے ہی برقرار ہے۔ یقین نہیں آتا تو عباس تابش، ذوالفقار عادل، رحمان حفیظ،سجاد بلوچ، طارق نعیم ، اختر عثمان، قمر رضا شہزاد، شاہین عباس، حمیدہ شاہین،ادریس بابر،انجم سلیمی، سعود عثمانی، ضیا ترک،اجمل سراج ، صاحب کس کا نام لوں کس کا نہ لوں ۔ تہذیب حافی سے محسن چنگیزی تک اوراحمد حسین مجاہد سے عمران عامی تک آتے آتے کئی نام ذہن کے افق پر چمکنے لگے ہیں مگر ناموں کا یہ سلسلہ میں یہیں روکتا ہوں کہ فی الاصل مجھے یہاں یہ کہنا ہے کہ اس صنف میں تخلیقی اظہار کرنے والوں میں کمی نہیں آئی اوران ستر برسوں کی مقبول ترین شعری صنف غزل ہی ہے۔
روزنامہ جنگ
 
آخری تدوین:
Top