پاکستان اسلام کا قلعہ (قائداعظم کی نظر میں)

الف نظامی

لائبریرین

اسلامی جمہوریہ پاکستان بلاشبہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ اس ملک کو اللہ نے بے شمار وسائل عطا فرمائے ہیں۔ دریا، سمندر، وادیاں، میدان، صحرا، معدنیات، مختلف پھلوں سمیت کئی موسم اور سب سے بڑھ کر پاکستانی قوم کے اندر بے شمار صلاحتیں اور دین اسلام پر مر مٹنے کا جذبہ بھی عطا فرمایا ہے۔ اس کے برعکس ہم خوشحال کیوں نہیں ہیں؟ اس حوالے سے مختصر بحث کے بعد ہم قائداعظم کے خطابات سے بھی رہنمائی لیں گے۔

سورۃ طہٰ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’وَمَن اَعَرَضَ عن ذکری فان لہ معیشتہ فنکا۔ ۔‘‘ ’’جس (شخص/ قوم) نے میرے ذکر (قرآن، نصیحت نظام...) سے منہ موڑا ہم اس پر دنیا میں معیشت تنگ کردیں گے اور ہم اسے قیامت کے دن بھی اندھا اٹھائیں گے۔‘‘

آج ہماری اقتصادی و معاشی زبوں حالی کی واحد وجہ سودی نظام معیشت ہے۔ اگر ہم نظام زکوٰۃ حقیقی انداز میں نافذ کردیں تو پورے ملک میں کوئی ایک شخص بھی بے روزگار نہیں رہے گا۔ قرآنی تعلیم کی رو سے سود کھانے والا شخص ہمیشہ کے لیے دوزخی ہو جاتا ہے جو قیامت کے دن مخبوط الحواس کیفیت میں گرتا پڑتا ہوگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’سود کی 73 قسمیں ہیں اور ادنیٰ قسم ایسے ہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ ’’سود کا ایک درہم کھانا حالت اسلام میں 36 دفعہ بدکاری کرنے سے بھی بڑا گناہ ہے‘‘۔

قرآنی افکار کی روشنی میں اگر ہم قائداعظم محمد علی جناح کے ارشادات پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ آپ نے معاشی استحکام کی تلقین کی۔ 30 اکتوبر 1947ء کو یونیورسٹی گراؤنڈ لاہور میں شہریوں سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح نے کہا "پروردگار عالم کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں باطل کی ان قوتوں سے نبردآزما ہونے کے لیے ہمت دی اور اعتماد سے نوازا۔ میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ فتح بالآخر ہماری ہوگی بشرطیکہ ہم قرآن کریم کو اپنے لیے فیضان و ہدایت کا سرچشمہ بنائے رکھیں"۔

آپ نے مزید کہا کہ میں آپ سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہم میں سے ہر شخص جس تک بھی میرا یہ پیغام پہنچے نہ صرف پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کا عہد کرے بلکہ اس عزم کا بھی اظہار کرے کہ ہمیں پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنانا ہے اور ایسی قوتوں کی صف میں کھڑا کرنا ہے جن کا مقصد ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ ہر جگہ امن ہو۔

بحثیت قوم ہمیں دنیا میں معاشی ابتری سے سبق سیکھنا ہوگا اور مالک حقیقی پر بھروسہ کرتے ہوئے مکمل اور غیر مشروط غیر سودی بینکاری کو اپنانا ہوگا۔ جب لیڈر کہلانے والے لوگ بھاری قرضے لیکر معاف کرا لیں اور مغربی ممالک میں اپنا پیسہ محفوظ کریں یا محفوظ سمجھیں تو ایسے لوگوں کا کڑا احتساب ہونا چاہیے۔ یہ لوگ وہ قومی مجرم ہیں جن سے ملکی سرمایہ کی پائی پائی وصول کی جائے۔ آیئے آج ہم قائداعظم کی فکری و نظریاتی اساس پر اظہار یکجہتی و تجدید عہد کریں تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک قابل تقلید مثال بن سکے۔

قائد اعظم نے مزيد کہا کہ شریعت اسلامی کی رو سے ہر مسلمان پر یہ فرض عائد ہے کہ وہ بلا لحاظ مذہب و ملت اپنے ہمسایوں اور اقلیتوں کی حفاظت کریں۔ ہندوستان میں مسلم اقلیت کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جارہا ہے اس کے باوجود ہمیں اقلیتوں کی حفاظت اور ان میں احساس تحفظ پیدا کرنے کے سوال کو اپنی عزت اور وقار کا مسئلہ سمجھنا چاہیے۔ اپنا فرض ادا کیجئے اور اللہ پر بھروسہ رکھیے، دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ختم نہیں کرسکتی۔ یہ ملک قائم رہنے کے لیے وجود میں آیا ہے۔

یکم جولائی 1948ء اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی افتتاحی تقریب سے قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسٹر گورنر، میں آپ کی ریسرچ آرگنائزیشن کے کام کا بھی دلچسپی اور غور کے ساتھ مطالعہ جاری رکھوں گا کہ وہ بنکاری کے لیے کون کونسے ایسے اصول وضع کرتی ہے جو معاشرتی اور اقتصادی زندگی میں اسلامی اصولوں کے مطابق ہوں۔ مغرب کے اقتصادی نظام نے نوع انسانی کے لیے عجیب عجیب لاینحل مسئلے کھڑے کر دیئے ہیں اور ہم میں سے بہت سے یہ خدشہ محسوس کرتے ہیں کہ آنے والی تباہی کو شاید کوئی معجزہ ہی روک سکے گا کیوں کہ اس نظام نے انسان کے ہاتھوں انسان کے ساتھ انصاف ختم کر دیا ہے اور بین الاقوامی فضاء میں سے منافقت اور خلفشار کو بھی دور کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔ اس کے برعکس یہ نظام پہلے ہی نصف صدی کے اندر اندر دو عالمگیر جنگوں کا باعث بن چکا ہے۔ مغربی دنیا ہزار تکنیکی اور صنعتی ترقی کے دعوے کرے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ اس کی حالت کبھی اتنی زبوں حال اور خراب تر نہیں تھی جتنی آج ہے۔ ہم نے یہ سر زمین ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے کے لیے حاصل کی ہے جو ہر لحاظ سے مسرور اور مطمئن ہو مگر اقتصادی نظریات ہمیں یہ مقصد پورا کرنے میں ہرگز کوئی مدد نہیں دے سکیں گے، ہمیں اپنی تقدیر کو آپ بنانا ہے اور انسانی مساوات، معاشرتی انصاف اور اسلامی تصورات کے تحت دنیا کے سامنے ایک مثالی اقتصادی نظام پیش کرنا ہے۔ ہم ایسا کریں تو تبھي ہم بحثیت داعیان اسلام اپنا صحیح مقام حاصل کرسکیں گے اور اسی طرح ہم دنیا کو ایسی امن دوستی کا پیغام پہنچا سکیں گے جس میں بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود، خوشحالی اور ترقی کی راہیں کھلی ہوں''۔

علامہ اقبال نے بھی کہا تھا "مزدکیت فتنۂ فردا نہیں اسلام ہے"۔

قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ نے مورخہ 6 اگست 1948ء کو عید کے موقع پر قوم سے خطاب کیا۔ انہوں نے جہاں پوری اسلامی دنیا کو متحد ہو جانے کا مشورہ دیا وہیں روزے کے فلسفے، ضبط نفس اور اپشار پر روشنی ڈالتے ہوئے قوم سے اپیل کی کہ وہ عام زندگی میں قربانی اور فرض شناسی کے اوصاف پر عمل پیرا ہوں تاکہ ترقی اور خوشحالی ان کے قدم چومے۔
 

الف نظامی

لائبریرین

پاکستان کا قیام تاریخ انسانی کا ایک عظیم واقعہ ہے۔ مسلمانان ہند کی سال ہا سال کی قربانیوں اور قائد اعظم کی ولولہ انگیز اور بابصیرت قیادت کا ثمر تھا کہ انگریزوں کی سازشوں اور ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں کے باوجود مسلمانان برصغیر نے چند سال کی محنت کے نتیجے میں کرہ ارض پر دنیا کا سب سے بڑی اسلامی مملکت قائم کرنے کا معجزہ کر دکھایا۔ لیکن آج جب ہم تاریخ کے اوراق میں جھانکتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ پاکستان قائم ہونے کے باوجود ان مقاصد سے ہم آہنگ نہیں ہوا جو قیام پاکستان کے وقت پیش نظر تھے۔ آج ہمیں اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ قائداعظم، علامہ اقبال اور تحریک پاکستان کے دیگر قائدین کے پیش نظر وہ کیا مقاصد تھے جن کے حصول کے لئے اتنی طویل جدوجہد کی گئی، جس کے لئے ان گنت قربانیاں دی گئی اور ہجرت کا ایک ایسا عظیم عمل وجود میں آیا جس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ صاف ظاہر ہے اس کے پیش نظر دنیا کا کوئی حقیر مقصد نہیں ہوسکتا تھا بلکہ یہ سب کچھ ایک عظیم نظریاتی، روحانی اور تہذیبی مقصد کے پیش نظر تھا۔ آج جب کہ قوم بانی پاکستان کا یوم ولادت منا رہی ہے یہ امر بہت اہم کہ ہم اس بات پر غور کریں کہ قائد اعظم کے پیش نظر پاکستان کے قیام کا مقصد کیا تھا اور ان کے تصور کے مطابق پاکستان کا نظام اور پاکستان کی قومی زندگی کی ہیئت کیا ہونی چاہیے تھی؟ قائد اعظم کے بیسیوں بیانات اور ان کی تحریریں اس امر کو واضح کرتی ہیں کہ ان کا تصورِ پاکستان کیا تھا۔ 22 مارچ 1940ء کو لاہور میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں ہونے والا قائداعظم کا خطاب اس امر کو بہت تفصیل سے بیان کرتا ہے کہ ان کے پیش نظر ہندو مسلم اختلاف اور فرق کی نوعیت کیا تھی اور اس فرق کے نتیجے میں متحدہ ہندوستان میں وہ کون سے حالات تھے جن کے تحت مسلمان زندگی نہیں گزار سکتے تھے اور وہ اس امر پر مجبور تھے کہ یہ ایک الگ خطہ کا مطالبہ کریں۔ قائد اعظم نے اپنے اس تاریخی خطاب میں ہندو مسلم تہذیب اور قوم کے اختلافات کو بیان کرتے ہوئے اس طرف اشارہ کیا کہ ہندؤوں اور مسلمانوں کا تنازعہ کوئی وقتی یا فرقہ وارانہ تنازعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک تہذیبی اور ثقافتی فرق ہے جس کی جڑیں مذہب میں گہری ہیں۔ آپ نے اس خطاب میں ہندو مسلم اختلافات کی اس تاریخی اور نظریاتی نوعیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’یہ سمجھنا بہت دشوار بات ہے کہ ہمارے ہندو دوست اسلام اور ہندو مت کی حقیقت نوعیت کو سمجھنے سے کیوں قاصر ہیں۔ یہ حقیقی معنوں میں مذاہب نہیں ہیں۔ فی الحقیقت یہ مختلف اور نمایاں معاشرتی نظام ہیں اور یہ ایک خواب ہے کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک مشترکہ قوم کی سلک میں منسلک ہو سکیں گے۔ ایک ہندی قوم کا تصور حدود سے بہت زیادہ تجاوز کر گیا ہے اور آپ کے بہت سے مصائب کی جڑ ہے۔ اگر ہم بروقت اپنے تصورات پر نظرثانی نہ کرسکے تو یہ ہند کو تباہی سے ہمکنار کر دے گا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کا دو مختلف مذہبی فلسفوں، معاشرتی رسم و رواج اور ادب سے تعلق ہے۔ نہ وہ آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں نہ اکٹھے بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں۔ دراصل وہ دو مختلف تہذیبوں سے متعلق ہیں جن کی اساس متصادم خیالات اور تصورات پر استوار ہے۔ یہ بھی بالکل واضح ہے کہ ہندو اور مسلمان تاریخ کے مختلف ماخذوں سے وجدان حاصل کرتے ہیں۔ ان کی رزم مختلف ہے، ہیرو الگ ہیں اور داستانیں جدا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایک کا ہیرو دوسرے کا دشمن ہوتا ہے اور اسی طرح ان کی کامرانیاں اور ناکامیاں ایک دوسرے پر منطبق ہو جاتی ہیں۔ ایسی دو قوموں کو ایک ریاست کے جوئے میں جوت دینے کا جن میں سے ایک عددی لحاظ سے اقلیت اور دوسری اکثریت ہو، نتیجہ بڑھتی ہوئی بے اطمینانی ہوگا اور آخر کار وہ تانا بانا ہی تباہ ہو جائے گا جو اس طرح کی ریاست کے لئے بنایا جائے گا۔ ‘‘

یہی وہ وژن تھا کہ قائد اعظم نے جب بھی قیام پاکستان کی بات تو اس حقیقت کو انہوں نے شرح صدر کے ساتھ جابجا بیان کیا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک الگ خطہ کا مطالبہ بنیادی طور پر ایک ایسی سرزمین کے حصول کے لئے کوشش ہے جہاں وہ ایک ایسی مملکت قائم کرسکیں جس میں ان کے اپنے نظریاتی روحانی اور مذہبی آدرش تکمیل پذیر ہوسکیں اور وہ اپنی خواہشات کے مطابق نظام کو قائم کرسکیں جس کے اندر ان کے ایمان و ایقان اورنظریات کی بقا ہے۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے پاکستان کے قیام کے اس مقصد کو بیان کرتے ہوئے نئی دہلی میں یکم اپریل 1940ء کو ارشاد فرمایا:

’’اس امر کے احساس ہی کی وجہ سے ہندو انڈیا کی مسلمان اقلیتوں نے آمادگی کے ساتھ قرارداد لاہور کی تائید کی تھی۔ ہندو انڈیا میں مسلم اقلیتوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا نو کروڑ نفوس پر مشتمل پورے مسلم ہند پر ہندو اکثریت کا راج مسلط کر دیا جائے جہاں انہیں اپنی روحانی، اقتصادی اور سیاسی زندگی کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق ترقی دینے اور اپنا مستقبل خود سنوارنے کا موقع حاصل ہو اور ہندوؤں اور دیگر لوگوں کو بھی یہی موقع حاصل ہو۔ مسلمانوں کے وطن میں ہندوؤں اور دیگر اقلیتوں کی یہی صورت حال ہوگی۔

میری رائے میں ایک فرقے کی دوسرے پر حکمرانی کرنے اور باقی ماندہ لوگوں پراپنی برتری قائم کرنے کی خواہش کی وجہ سے جو کشیدگی پیدا ہوگئی ہے اس کے ختم ہو جانے کے بعد ہمیں ماحول میں زیادہ مفاہمت اور خیرسگالی میسر آجائے گی۔ ہندوستان کی تقسیم کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں میں اکثریت پر یہ عظیم ذمہ داری عائد ہو جائے گی کہ وہ اپنی اقلیتوں میں تحفظ کاحقیقی احساس پیدا کریں اور ان کا مکمل اعتماد اور بھروسہ حاصل کریں۔ ‘‘

یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ قائد اعظم نے جب بھی قیام پاکستان کے مقاصد کا ذکر کیا انہوں نے ان مقاصد میں نظام اسلام کے قیام کو مرکز و محور کے طور پر بیان کیا تو اس سے ان کی مراد بڑی واضح تھی یعنی وہ اسلام کو بطور ایک نظام زندگی کے نافذ کرنے کی بات کرتے تھے۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے جہاں بھی اسلام کے نظام کی یا اسلام کے نفاذ کی یا اسلام کی دی ہوئی تعلیمات کے نظام کی تشکیل کی بات کی تو اس کا مرکز و محور اسلام کا معاشرتی انصاف عدل قرار دیا۔ آپ نے 11 اکتوبر 1947ء کو کراچی میں مسلح افواج کے افسروں سے خطاب میں فرمایا :

’’قیام پاکستان، جس کے لئے ہم گذشتہ دس برس سے کوشاں تھے، اللہ کے فضل و کرم سے آج ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن اپنی مملکت کا قیام دراصل ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے بذات خود کوئی مقصد نہیں۔ تصور یہ تھا کہ ہماری ایک مملکت ہونی چاہیے جس میں ہم رہ سکیں اور آزاد افراد کی حیثیت سے سانس لے سکیں۔ جسے ہم اپنی صوابدید اور ثقافت کے مطابق ترقی دے سکیں اور جہاں اسلام کے معاشرتی انصاف کے اصول جاری و ساری ہوں۔ وہ کار سخت جو ہمارا منتظر تھا اور راستہ کی وہ دشواریاں کہ جن سے ہمیں گزرنا تھا، مجھے ان کے بارے میں کوئی خوش فہمی نہیں تھی تاہم میں اس بات سے تقویت پا رہا تھا کہ مجھے تمام مسلمانوں کی بے پناہ حمایت حاصل ہوگی، نیز اقلیتوں کا تعاون بھی جسے ہم منصفانہ بلکہ فیاضانہ سلوک سے جیت سکیں گے۔ ‘‘

آج اگر ہم ملک کے حالات اور حکمرانوں کے رجحانات اور رویوں کو قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ان فرامین کی روشنی میں دیکھیں اور ان کا جائزہ لیں تو ہمیں ان میں بعد المشرقین نظر آتا ہے۔ قائد اعظم ایک ایسا پاکستان چاہتے تھے جس میں لوگوں کی جان اور مال محفوظ ہو، اقلیتوں کے حقوق محفوظ ہوں، رشوت ستانی، بدعنوانی، اقربا پروی کا خاتمہ ہو اور نسلی، علاقائی، لسانی اور صوبائی تعصبات کا وجود نہ ہو۔ لیکن شومئی قسمت ہے کہ نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم ان مقاصد کے کوسوں دور کھڑے ہیں جو قائد اعظم اور تحریک پاکستان کی دیگر قائدین کے پیش نظر تھے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں جب قائد اعظم کو اسمبلی کا صدر منتخب کیا گیا تو اس کے بعد جب آپ نے اسمبلی سے خطاب فرمایا۔ آپ نے اسمبلی کے فرائض بیان کرتے ہوئے جہاں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا کہ اس قانون ساز اسمبلی کو دو بنیادی اور تاریخی کام درپیش ہیں یعنی نوزائیدہ مملکت کے لئے ایک آئین تیار کرنا اوراس کے ساتھ ساتھ پاکستان کے وفاقی قانون ساز ادارے کا کردار ادا کرنا ہے۔ اسمبلی کے ان فرائض کو بیان کرنے کے ساتھ آپ نے اس امر کی وضاحت بھی کی کہ ہمارا بنیادی فریضہ یہ بھی ہے کہ ہم ایسے قوانین تشکیل دیں جن سے مملکت میں امن و امان قائم ہو، لوگوں کی جان اور مال محفوظ ہو۔ سماجی برائیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے قائد اعظم نے جس سماجی برائی کا قلع قمع کرنے کی تلقین کی وہ رشوت کی لعنت ہے۔ قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اس حوالے سے موثر اقدامات کی تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’اس مجلس کے پہلے فریضہ کے بارے میں، میں اس وقت کسی سوچی سمجھی بات کا تو اعلان نہیں کرسکتا لیکن ایک دو چیزیں جو میرے ذہن میں آئیں گی آپ کے سامنے پیش کر دوں گا۔ پہلی اور سب سے زیادہ اہم بات جو میں زور دے کر کہوں گا وہ یہ ہے، یاد رکھیئے کہ آپ خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو جملہ اختیارات حاصل ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یعنی آپ فیصلے کس طرح کرتے ہیں؟ پہلی بات جو میں کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے اور بلاشبہ آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ ایک حکومت کا پہلا فریضہ یہ ہوتا ہے کہ وہ امن و امان برقرار رکھے تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور انکے مذہبی عقائد کو مکمل طور پر تحفظ دے سکے۔

دوسری بات جو اس وقت میرے ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ دنیا کے دوسرے ممالک اس سے پاک ہے، لیکن میں یہ کہوں گا کہ ہماری حالت بہت ہی خراب ہے، وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے۔ دراصل یہ ایک زہر ہے، ہمیں نہایت سختی سے اس کا قلع قمع کر دینا چاہیے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس سلسلہ میں مناسب اقدامات کریں گے جتنی جلد اس اسمبلی کے لئے ایسا کرنا ممکن ہو۔‘‘

آپ نے مملکت کی ترقی میں حائل رکاوٹوں میں سے اقربا پروی کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا۔ اقربا پروی کی لعنت سے نجات دلانے کے لئے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا کیا کردار ہونا چاہیے اس پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے ارشاد فرمایا:

’’میں یہ واضح کر دوں کہ میں نہ احباب پروری اور اقربانوازی کو برداشت کروں گا اور نہ ہی کسی اثرو رسوخ کو جو مجھ پر بالواسطہ یا بلاواسطہ ڈالنے کی کوشش کی جائے گی قبول کروں گا۔ جہاں کہیں مجھے معلوم ہوا کہ یہ طریقہ کار رائج ہے خواہ یہ اعلی سطح پر ہو یا ادنی پر، یقینی طور پر میں اس کو گوارا نہیں کروں گا۔ ‘‘

قیام پاکستان کے ساتھ ہی مملکت کو درپیش چیلنجز میں سے ایک چیلنج فرقہ وارانہ تعصبات کا خاتمہ تھا۔ یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ آج بھی یہ چیلنج ایسے ہی سر اٹھائے کھڑا ہے جیسے کہ قیام پاکستان کے وقت تھا۔ گروہ در گروہ علاقائی، لسانی، مذہبی اور صوبائی تفریق نے آج ہمارے جسد قومی کو لخت لخت کر دیا ہے۔ قائد اعظم نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام کو مملکت کے لئے ضروری قرار دیا آپ نے اس کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں اس بات کو ایک نصب العین کے طور پر اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور پھر آپ دیکھیں گے کہ جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا نہ ہندو، ہندو رہے گا نہ مسلمان، مسلمان، مذہبی اعتبار سے نہیں، کیونکہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔ پس حضرات میں آپ کا مزید وقت لینا نہیں چاہتا اور ایک بار پھر اس اعزاز کے لئے آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے آپ نے مجھے نوازا۔ میں ہمیشہ عدل اور انصاف کو مشعل راہ بناؤں گا اور جیسا کہ سیاسی زبان میں کہا جاتا ہے تعصب یا بدنیتی دوسرے لفظوں میں جانبداری اور اقرباپروری کو راہ نہ پانے دوں گا۔ عدل اور مکمل غیر جانبداری میرے رہنما اصول ہوں گے اور میں یقیناً آپ کی حمایت اور تعاون سے دنیا کی عظیم قوموں کی صف میں پاکستان کو دیکھنے کی امید کرسکتا ہوں۔ ‘‘

یہ بات بڑی قابل غور ہے کہ ہماری دو بنیادی فکری، نظریاتی اور قومی قیادتوں حکیم الامت علامہ محمد اقبال اور بابائے قوم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ کے افکار اور تعلیمات میں اتنی ہم آہنگی ہے کہ اس سے ہمیں آج بھی اپنی منزل کے تعین میں مدد مل سکتی ہے۔ یہ ہماری بانی قیادت کی فکری ہم آہنگی تھی جس نے ہندوستان کے منتشرمسلمانوں کو ایک منظم قوم میں بدلا جو ایک مملکت کے حصول میں کامیاب ہوئی۔ اقبال کی فکر کی اہمیت کا نہ صرف قائد اعظم کو احساس تھا بلکہ انہوں نے 25 مارچ 1940ء کو لاہور میں یوم اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی تقریب میں اپنی صدارتی تقریر میں اس کا اظہار یوں کیا:

’’اگر میں اس وقت تک زندہ رہا کہ ہند میں مسلم ریاست کا حصول دیکھ سکوں اور اس وقت مجھے کلام اقبال اور مسلم ریاست کی فرمانروائی پیش کی گئی کہ دونوں میں سے ایک چن لوں تو میں بلا تامل اول الذکر کا انتخاب کروں گا۔‘‘

الغرض قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے تصور پاکستان کے وہ خدوخال جو ان کی مختلف تقریروں اور تحریروں میں جابجا بکھرے ہوتیہیں پاکستان کا ایک ایسا جامع اور منظم تصورپیش کرتے ہیں کہ ان کو عملی شکل دے کر آج ہم نہ صرف جملہچیلنجز سے عہدہ برا ہوسکتے ہیں بلکہ ایک باوقار، خودگر اور ترقی یافتہ قوم کی صورت میں دنیا میں آگے بھی بڑھ سکتے ہیں۔ ایک ایسی قوم جو نہ صرف اپنے معاصر چیلنجز سے عہدہ برا ہونے کی اہلیت رکھتی ہو، نہ صرف ہر لحظہ ترقی میں آگے بڑھتی ہوئی دنیا کے قدم بہ قدم اور شانہ بہ شانہ چل سکے بلکہ اس کے ہاتھ اپنے نظریہ، اپنی شناخت اور اپنی روایات پر بھی مضبوطی سے جمے ہوئے ہوں۔ یہی وہ بنیادی نکتہ تھا جو ہمیشہ قائد اعظم کے پیش نظر رہا۔ آپ نے جب بھی اسلام اور پاکستان کے تشخص کی بات کی وہ بات صرف رسمی، وقتی یا روایتی نہیں تھی بلکہ آپ نے اسے ایک عملی حقیقت کے طور پر بیان کیا۔ قائد اعظم کا تصور پاکستان اسلام کی عدل و انصاف پر مبنی تعلیمات کا حامل ہے جس کی منزل ایک ترقی یافتہ اسلامی فلاحی ریاست ہے نہ کہ پاپائی ریاست۔ اسلام کے مکمل ضابطہ حیات کو بیان کرتے ہوئے قائد اعظم نے 25 جنوری 1948ء کو کراچی میں عید میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم رہبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم مدبر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عظیم فرمانروا تھے جنہوں نے حکمرانی کی۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔

اسلام نہ صرف رسم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہر مسلمان کے لئے ایک ضابطہ بھی ہے جو اس کی حیات اور اس کے رویہ بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے۔ یہ وقار، دیانت، انصاف اور سب کے لئے عدل کے اعلی ترین اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک خدا اور خدا کی توحید اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ اسلام میں ایک آدمی اور دوسرے آدمی میں کوئی فرق نہیں۔ مساوات، آزادی اور یگانگت، اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔‘‘

قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے یہی وہ بنیادی اور کلیدی تصورات ہیں جن کی طرف آج ہمیں پھر سے پورے خلوص نیت اور استقامت عمل کے ساتھ متوجہ ہونے کی ضرورت ہے۔ قائد اعظم کے اس تصور پاکستان کو اختیار کرکے ہم بانیان پاکستان کی قربانیوں کا قرض بھی چکا سکتے ہیں، اپنے حال کو پروقار بھی بناسکتے ہیں اور اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک مضبوط، مستحکم، پائیدار اور ترقی یافتہ ملک کی تشکیل کرسکتے ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
یوم قائد اعظم اور موجودہ حالات میں ہماری ذمہ داری


تحریر : علامہ محمد حسین آزاد الازہری


پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا۔ یہ خطہ ارضی ہم نے پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الہ الا اللہ کا ایمان افروز نعرہ لگا کر بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل کیا مگر افسوس جس عظیم مقصد کے لئے یہ خطہ ارضی حاصل کیا گیا اسے حکمرانوں نے فراموش کر دیا اور اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہوگئے جس کی وجہ سے ہمیں تقسیم پاکستان جیسا کڑوا گھونٹ بھی بھرنا پڑا۔ اب بجائے اس کے کہ ہم پاکستان کو معاشی اور عسکری حوالے سے مضبوط بنا کر اپنے دشمن سے اپنا چھینا ہوا حق واپس لیتے حکمرانوں نے اپنے ہی وطن کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا۔ اندرونی و بیرونی دشمنوں اور شدت پسندوں کی ظالمانہ اور سفاکانہ کاروائیوں کی وجہ سے ملک عزیز دہشت گردی اور خود کش حملوں کی لپیٹ میں آگیا۔ امریکی ڈرون حملوں، کمر توڑ مہنگائی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ، بنیادی ضروریات زندگی کی عدم دستیابی، پہلے آٹے کا بحران اور اب چینی کا مصنوعی بحران پیدا کر کے عوام کو زندہ درگور کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ پاکستانی عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ ملک دشمن اور اسلام دشمن عناصر نے مل کر ملک عزیز کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ پہلے مساجد و مدارس، مزارات اور اب تعلیمی درسگاہوں، فوج اور پولیس کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بلکہ نوبت اب سرعام بازاروں میں معصوم شہریوں کی ہلاکت تک پہنچ چکی ہے جو انتہائی شرمناک، انسانیت کش عمل اور درندگی کی انتہا ہے۔

ان حالات میں روح قائد پکار پکار کر ہمیں جھنجھوڑ رہی ہے کہ ہم خواب غفلت سے کب بیدار ہوں گے؟ قیام پاکستان کے مقصد کو کب پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے؟ قائد کے خواب کو کب شرمندہ تعبیر کریں گے؟ کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا؟

اٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا

قائداعظم رحمۃ اللہ علیہ نے 1947ء کو کراچی میں پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو اس موقع پر اپنے خطاب میں قیام پاکستان کے مقصد سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا :

’’پاکستان کا قیام جس کے لئے ہم گذشتہ دس سال سے مسلسل کوشش کر رہے تھے۔ اب خدا کے فضل سے حقیقت ثابتہ بن کر سامنے آچکا ہے لیکن ہمارے لئے اس آزاد مملکت کا قیام ہی مقصود نہ تھا بلکہ یہ ایک عظیم مقصد کے حصول کے ذریعہ تھا۔ ہمارا مقصد یہ تھا کہ ہمیں ایسی مملکت مل جائے جس میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں اور جس میں ہم اپنی اسلامی روش اور ثقافت کے مطابق نشوونما پا سکیں اور اسلام کے عدل حکمرانی کے اصول پر آزادانہ طور پر عمل کر سکیں‘‘۔

اسی طرح 30 اکتوبر 1947ء کو لاہور کے یونیورسٹی سٹیڈیم میں آپ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :

’’حوصلہ نہ ہارو، موت سے نہ ڈرو، ہمارا دین ہمیں سکھاتا ہے کہ موت کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے۔ ہمیں جرات سے اس کا مقابلہ کرنا چاہئے تاکہ پاکستان اور اسلام کی آبرو کا تحفظ ہو سکے۔ ایک مسلمان کے لئے اس سے بڑی نوید اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ ایک سچے نصب العین کے لئے جام شہادت نوش کرے۔ اپنا فرض بجا لاؤ اور خدا پر یقین رکھو۔ پاکستان کو اب دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کر سکتی۔ پاکستان ہمیشہ قائم رہے گا‘‘۔

بانی پاکستان کے اس عظیم پیغام کو جو انہوں نے پوری قوم کو دیا آج ہم سب کو پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کی روشنی میں وہ جرات مند اور نڈر فوجی جواں مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر ملک عزیز کی حفاظت کرتے ہوئے دہشت گردی اور خود کش حملوں میں جام شہادت نوش کیا۔ اسی طرح پولیس کے وہ فرض شناس اور محب وطن سیکورٹی اہلکار بھی مبارکباد کے مستحق ہیں جنہوں نے ملک عزیز کی املاک کی حفاظت کرتے ہوئے اپنی جان دے کر ملک کو بڑے نقصان سے بچانے کا فریضہ سرانجام دیا اور وہ خواتین و حضرات، بچے اور بوڑھے جو وطن پر قربان ہوگئے۔

25 دسمبر، یوم قائد اعظم تجدید عہد کا دن ہے جو ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارے عظیم قائد نے قوت ایمانی اور سیاسی حکمت عملی کے اسلحہ سے لیس ہو کر انتھک محنت اور جدوجہد کر کے اس خطہ ارضی کو حاصل کیا۔ اس موقع پر ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہم اپنے قائد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے جذبہ ایمانی کو زندہ کر کے قائد کے اصل پاکستان کی حفاظت اور تکمیل کا فریضہ سرانجام دیں جو اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اپنے قائد جیسی عظیم، مخلص، باکردار، باعمل اور محب وطن قیادت اور ایسا نجات دہندہ اور مسیحا تلاش کریں جو ہمیں موجودہ مسائل کی دلدل سے نکال کر سوئے منزل رواں دواں کر سکے۔
 
Top