پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کارنامے ۔۔۔دکتور ظہور اعوان۔۔روزنامہ آج پشاور

Dilkash

محفلین
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کارنامے
پاکستان کی کرکٹ ٹیم پر الزامات لگے ہیں اور ہر سطح پر اس پر لعن طعن ہو رہی ہے کہ انہوں نے پیسے لے کر میچ فکسنگ کی ہے۔ میں اس تھیسس سے ہرگز متفق نہیں‘ میچ فکسنگ کسی دو بڑی اور مضبوط ٹیموں کے درمیان طے پاتی ہے جو ٹیم اپنی کارکردگی کی وجہ سے زوال کے پاتال میں اتر چکی ہو اس سے جیتنے کے لئے لاکھوں ڈالر پاؤنڈ ادا کرنے کی کیا تک ہے‘ وہ تو ہر میچ انتہائی ذلالت کے ساتھ شاندار طریقے پر ہار رہی ہے اس سے ہاری ہوئی ٹیم اس وقت دنیا بھر میں نہیں ہے۔ یہ بات نہ میرے ایسے چھوٹے بھیجے میں آئی نہ آئے گی‘ کوئی مجھے اس کی منطق سمجھا دے تو سمجھ لوں گا۔

آسٹریلیا سے 16 بار مسلسل ہارنے کے بعد اس کی ساکھ زیرو سے بھی نیچے چلی گئی‘ آسٹریلوی ٹیم کو دیکھتے ہی اس کا دم نکل جاتا ہے۔ اس وقت پاکستانی ٹیم گراوٹ کے جس درجے پر ہے اتنی نہ ہوئی تھی نہ ہونے کا امکان ہے‘ کھلاڑی گاجروں مولیوں کی طرح کٹتے اور مٹتے ہیں‘ اس کے بعد بھی ان کو سپرسٹار کہا جاتا ہے جو سپرسٹار لفظ کی توہین ہے‘ ان کے لئے تو سپر زیرو کا لفظ استعمال کرنا چاہئے۔ دنیا کی وہ کون سی ٹیم ہے جس سے وہ جیتتی ہے اور اگر ہارتی بھی ہے تو 70-80 رنز بنا کر‘ اس سے زیادہ پاکستان کی رسوائی کا اہتمام پاکستان کا کوئی ادارہ نہیں کر سکتا۔

اس وقت دنیائے کرکٹ میں جس طرح پاکستان اور اس کی کرکٹ ٹیم کی تھڑی تھڑی ہو رہی ہے اور پاکستان کرپٹ‘ بدعنوان اور بے ایمان ملکوں کی فہرست میں ٹاپ پر آ گیا ہے اس کو دیکھ کر ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے۔ لوگ پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب اور الطاف حسین کے طوفانی سیاسی بیان کو بھول کر ان ناکارہ کھلاڑیوں کی تصویریں دیکھنے پر مجبور ہو گئے۔ ایک طرف یہ عالم ہے‘ دوسری طرف جناب چیف جسٹس نے تمام بھارتی ٹی وی چینلوں پر پابندی لگا کر لاکھوں گھروں خاص طور پر ان کی خواتین کے دلوں پر برچھیاں چلا دی ہیں۔

ہماری خواتین شام کو افطاری کے بعد ٹی وی کھول کر انڈین ڈرامے اور بڑے پروگرام دیکھتی تھیں اس طرح ان کا دل بہل جاتا تھا مگر عدلیہ نے اس بے ضرر تفریح کا دریچہ بھی ان پر بند کر دیا ہے۔ پاکستان کے ڈراموں اور پروگراموں کا معیار اس قدر پست ہو گیا ہے کہ کوئی کھول کر نہیں دیکھتا اس کے مقابلے میں ہندی ڈراموں اور پروگراموں کا معیار بلندیوں کو چھونے لگا ہے‘ ہر خاتون خانہ نے اپنے لئے ایک پروگرام کا انتخاب کر رکھا ہے جسے وہ کسی حال میں مس نہیں کرتی۔ ہماری بچیوں کے کمروں میں صف ماتم بچھ چکی ہے مگر یہ منطق سمجھ میں نہیں آتی کہ ہندی چینلوں پر یہ زلزلہ کیسے ٹوٹا‘ اگر ان کے پاس لینڈنگ رائٹس نہ تھے تو پیمرا ان کو چھ ماہ کی مدت دے کر کاغذی اور ضابطے کی کارروائی مکمل کروا سکتا تھا۔

امریکہ کے ایچ بی او اور انگریزی موویز اسی طرح چل رہی ہیں‘ کوئی انگریزی پروگرام بند نہیں ہوا ہے مگر نزلہ گرا ہے تو بے چارے سٹار ٹی وی پر‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگوں نے پھر سے ڈش انٹینے لگا لئے ہیں‘ کمپیوٹر پر یہ پروگرام دیکھنے لگے ہیں‘ ایک بڑی تھالی کے بڑے چھوٹے چھوٹے ڈش ہاتھوں ہاتھ بک رہے ہیں جن پر 350 چینل دیکھے جا سکتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ پیمرا اس انڈسٹری کو مکمل تباہی سے بچانے کے لئے ان چینلوں پر سے پابندی اٹھا لے ورنہ چند ماہ میں سات آٹھ ہزار کے چھوٹے ڈش گھر گھر‘ کھڑکیوں اور برآمدوں پر لگ جائیں گے اور پاکستان کے ڈش آپریٹر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

یہ محض انٹرٹینمنٹ کا معاملہ نہیں بزنس کا بھی معاملہ ہے‘ چند دنوں کا معاملہ ہے اگر انڈین چینلز پر سے پابندی نہ اٹھی تو لوگ متبادل سوچ لیں گے۔ میں نے یہ پروگرام ٹی وی پر دیکھنے شروع کر دیئے ہیں اور دبئی میں ایک دوست رحمدل خان کو سب سے مختصر اور جدید ڈش لانے کو کہا ہے‘ یہ خرچہ ایک بار ہوتا ہے چھ سات ہزار کا ڈش خرید کر 350 چینل بھی دیکھیں اور مقامی ڈش آپریٹر کو ڈھائی تین سو روپے ماہانہ دینا بھی چھوڑ دیں۔ یہ قوم بڑے بڑے کام چھوڑ کر فروعات میں کھو گئی ہے‘ اس وقت ساری توجہ سیلاب اور مارشل لاء کی طرف دینی چاہئے نہ کہ انڈین چینلز پر اپنا غصہ اتارنا چاہئے۔

یہ بات تو برسبیل تذکرہ آ گئی ہے اصل مسئلہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی مبینہ سٹے بازی کی طرف ہے کہ اس سے وطن عزیز کا امیج کس قدر برباد ہوا ہے اورپاکستان ٹھگوں اور بدکاروں کی حیثیت سے مشہور ہو گیا ہے یہی وجہ ہے کہ سیلاب کے لئے آنے والی امداد اب حکومت کو ملنے کی بجائے این جی اوز کے ہاتھوں تقسیم ہونے لگی ہے۔ پاکستان دن بہ دن رسوائی اور گراوٹ کی پاتال میں اترنے لگا ہے اس کا امیج بحال کرنے کے لئے نہ جانے کتنے عشرے لگیں۔

Dated : 2010-09-06 00:00:00
 
Top