پاکستانی بھآئیو ایک بار یہ چھوٹی سی کہانی ضرور پڑھیں ۔۔

یہ 1947 کے بعد انڈیا سے پاکستان آنے والی ایک کمزور غریب بڑھیا کی کہانی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آخری فقرہ مت مس کریں
ایک بڑھیا بےچاری بڑی مشکل سے ہانپتی کانپتی ٹرین کے ڈبے میں سوار ہوگئی ۔ چھوٹی سی گٹھری اس کے ساتھ تھی ۔ اسے لے کر بامشکل وہ ایک طرف کو تھوڑی سی جگہ بنا کر بیٹھ گئی ۔ یہ دو آدمیوں کا چھوٹا سا فرسٹ کلاس کا ڈبہ تھا لیکن اس کے اندر بیس آدمی ٹھسے ہوئے تھے۔ کوئی کھڑا تھا، کوئی بیٹھا تھا، جو جگہ لوگوں سے بچ گئی تھی اس میں سامان رکھا ہوا تھا۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ کوئی کسی سے پوچھ نہ سکتا تھا
کہ ۔۔۔۔ بھیا تم کس درجہ کے مسافر ہو؟ یہ فرسٹ کلاس کا ڈبہ ہے اور پہلے سے دو آدمیوں کے لئے ریزرو ہے۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ملک تقسیم ہوا تھا پاکستان وجود میں آیا ہی تھا، اللہ اور رسول کے نام پر۔ اس لئے یہی مسلمانوں کا وطن تھا۔ ہندوستان سے مسلمان سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جان بچائے کسی نہ کسی طرح پاکستان پہنچ رہے تھے ۔
یہ بے چاری بُڑھیا بھی اپنا سب کچھ لٹا کر نہ جانے کس طرح بچتی بچاتی پاکستان پہنچ گئی تھی۔ اسے اتنا ہوش ہی کہاں تھا کہ یہ تمیز کر سکتی کہ وہ کس درجہ میں آکر بیٹھ گئی۔ اُسے تو بس ایک بات معلوم تھی کہ ۔۔ ۔ یہ ہمارا ملک ہے ، یہ ہماری گاڑی ہے۔ جو دوسرے مسافر تھے ان کا بھی یہی حال تھا۔ ہر ایک کا چہرہ غم و الم کی تصویر تھا۔ کیا کیا کچھ کھویا تھا کہ اس ملک کو پا لیں یہ کون کہتا ؟کیا کہتا ؟ کس سے کہتا؟ مسلسل صدمات برداشت کرتے کرتے دلوں میں ناسور پڑ گئے تھے اور زبانیں گنگ ہوگئی تھیں۔
گاڑی کو پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئے کچھ بہت زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک اسٹیشن پر ٹکٹ چیکر ڈبے میں داخل ہوا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک کاپی ٹکٹ چیکر کو دیکھ کر سب مسا فروں کے دل میں خیال آیا کہ دیکھو ! یہ ٹکٹ چیکر کیا کرتا ہے۔
چیکر نے بڑھیا کو دیکھا تو اس سے ٹکٹ کا مطالبہ کیا۔ و ہ اللہ کی بندی کسی قابل ہوتی تو کچھ کہتی۔ بے اختیار اس کی آنکھوں سے آنسو ٹوٹ پڑے ۔ اس کے پاس ٹکٹ نہ تھا۔ کسی درجہ کا بھی ٹکٹ نہ تھا ۔ ملک کے حالات، بڑھیا کی کیفیت ، غم واندوہ کی فضا ایسی تھی کہ عام معمولات کی پابندی بہت مشکل تھی۔ سب مسافروں نے بڑٰی حیرت سے دیکھا کہ چیکر نے اپنی نوٹ بک نکالی اور بلا ٹکٹ سفر پر بُڑھیا کا چالان کر دیا۔ اس نے رسید کاٹ دی تو بُڑھیا اُس سے بے اختیار بولی ۔ ۔۔۔ بیٹا! میرے پاس کچھ نہیں تو یہ رسید نہ کاٹ ۔ جواب ملا ۔۔۔ امّاں اگر ہم بلا ٹکٹ سفر کریں تو ہمارے نئے ملک کا کام کیسے چلے گا؟ تمھارا چالان ہوگا پیسے داخل ہوں گے۔ تم بہت دکھیاری ہو ۔ تمھارے لئے میرا دل بھی دکھی ہے۔ یہ جرمانہ تم نہیں دوگی میں اپنی طرف سے دے دوں گا۔
احساسِ فرض، ملک کی محبت اور بے سہاروں کی خدمت کا یہ ایسا انمول واقعہ تھا کہ سب مسافروں کے دلوں پر نقش ہوگیا۔ آج کوئی نہیں جانتا کہ یہ فرض شناس اور ملک دوست ٹکٹ چیکر کون تھا؟ لیکن دل بے اختیار کہتا ہے کہ وہ بہت بڑا آدمی تھا۔ یا کم از کم موجودہ وزیر ریلوئے سے بڑا آدمی تو تھا ہی..
لعنت بشیر بلور تمہاری پھٹکار والی شکل پر ۔۔۔۔ اس کے ساتھ موجودہ حکومت پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واسلام
( فاروق بیگ)


296984_451473804898100_1615321140_n.jpg
 

محمداحمد

لائبریرین
ایک دوست ہیں فیس بک پر

ویسے یہ تحریر میں نے "روشنی" میں پڑھی تھی۔

"روشنی" شاہ بلیغ الدین صاحب کی کتاب ہے۔ شاہ بلیغ الدین صاحب اس قصہ کو کسی "مشتاق احمد" صاحب کی" کاروان" سے منسوب کرتے ہیں۔

یہ تحریر کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے بلاگ پر یہاں شئر کی تھی۔

فاروق صاحب نے اسے بشیر بلور سے لنک کردیا ہے۔ :)
 

محمداحمد

لائبریرین
بہر کیف ہے بہت سبق آموز تحریر اور ہم سب کو چاہیے کہ اس میں موجود ٹکٹ چیکر کے کردار کو دیکھ کر اپنی اصلاح کریں۔
 

زبیر مرزا

محفلین
اچھی اور سبق آموز تحریر ہے لیکن یہ لعنت اورپھٹکار جیسے الفاظ کسی کی مذمت کے لیے استعمال کرنا مناسب نہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
اچھی اور سبق آموز تحریر ہے لیکن یہ لعنت اورپھٹکار جیسے الفاظ کسی کی مذمت کے لیے استعمال کرنا مناسب نہیں

جی زحال بھائی!

ٹھیک کہا آپ نے ۔ اور اس قسم کے الفاظ اس خوبصورت تحریر کے تاثر کو بھی خراب کر رہے ہیں۔
 
اچھی اور سبق آموز تحریر ہے لیکن یہ لعنت اورپھٹکار جیسے الفاظ کسی کی مذمت کے لیے استعمال کرنا مناسب نہیں

زحال بھائی۔۔ جن پر گزرتی ھے ان کے سامنے ایسے الفاظ منہ سے نکالنا بہت مناسب ھے۔ ہوائی جہاز پر سفر کرنے والے اور وائیٹ کالر جاب کرنے والے ہمیشہ الفاظ پر ھی تنقید کرسکتے ہیں۔ ( معذرت کے ساتھ :notworthy: )
 

محمداحمد

لائبریرین
زحال بھائی۔۔ جن پر گزرتی ھے ان کے سامنے ایسے الفاظ منہ سے نکالنا بہت مناسب ھے۔ ہوائی جہاز پر سفر کرنے والے اور وائیٹ کالر جاب کرنے والے ہمیشہ الفاظ پر ھی تنقید کرسکتے ہیں۔ ( معذرت کے ساتھ :notworthy: )

ویسے یہ خالصتاً فیس بک کا مزاج ہے، وہاں پر اس قسم کی شئرنگ بہت عروج پاتی ہیں۔
 
ویسے یہ خالصتاً فیس بک کا مزاج ہے، وہاں پر اس قسم کی شئرنگ بہت عروج پاتی ہیں۔

بالکل بجاہ فرمایا۔ ایسے تحاریر فیس بک پر ہی حاصل ہوتی ہیں۔ کیونکہ اردو فورمز ذیاد تر کھیل کود شاعری تک ہی محدود ہوچکے ہیں۔ اور کچھ تو ایسے فورم ایسے بھی ہیں جہاں اگر حکومت کو ننگا کرو تو ان کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں کہ کہیں ان کا فورم بلاک ہی نا ہو جاووے۔
سچ برحال کڑوا ہی ہوتا ھے۔
 

زبیر مرزا

محفلین
حضرت سمرة بن جندب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک دوسرے پر لعنت نہ ڈالو، اور آپس میں یوں نہ کہو کہ تجھ پر اللہ کا غضب ہواور نہ آپس میں ایک دوسرے کے لئے یوں کہو کہ تو جہنم میں جائے آپس میں ایک دوسرے کے لئے یوں کہو کہ آگ میں جلے۔
(مشکوة 413 بحوالہ ترمذی اور ابوداؤد)
کاشف لعنت جیسے الفاظ کی بارہا ممانعت کی گئی ہے - اس لفظ کواستعمال نہیں کرنا چاہیے - جوتکلیف دہ صورتحال سے گزرے
خواہ وہ وائٹ کالرجاب والا ہو یا ایک مزدور ممنوع الفاظ سے گریز کرے-
رنج کا غصے کا اظہار گالم گلوچ یا لعن طعن کرکے ہی کیا جا سکتا ہے؟
 

محمداحمد

لائبریرین
بالکل بجاہ فرمایا۔ ایسے تحاریر فیس بک پر ہی حاصل ہوتی ہیں۔ کیونکہ اردو فورمز ذیاد تر کھیل کود شاعری تک ہی محدود ہوچکے ہیں۔ اور کچھ تو ایسے فورم ایسے بھی ہیں جہاں اگر حکومت کو ننگا کرو تو ان کو جان کے لالے پڑ جاتے ہیں کہ کہیں ان کا فورم بلاک ہی نا ہو جاووے۔
سچ برحال کڑوا ہی ہوتا ھے۔

لگتا ہے آپ نے اردو محفل کا سیاسی زمرہ وزٹ نہیں کیا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کاشف اکرم وارثی بھائی ۔۔۔!

ہم بھی "ان" لوگوں سے اتنے ہی بے زار ہیں جتنے فیس بک کے وہ لوگ جو صبح شام "ان" لوگوں کو گالیاں دیتے ہیں۔ بہت اچھے ہم بھی نہیں ہیں کبھی کبھی برداشت سے باہر ہو جاتی ہیں بہت سی باتیں ۔ تاہم پھر بھی کوشش کرتے ہیں کہ بہتر سے بہتر انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کریں۔ اگر کوشش کی جائے تو اچھے سے اچھے الفاظ میں بھی بھرپور جارحیت اور غصے کا اظہار ہو سکتا ہے۔
 

احمد علی

محفلین
بہت خُوب ۔۔۔
لعنت کے لفظ پہ کُچھ لوگ ناراض ہیں سو ارشادِ باری تعالٰی ہے

لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَيْهِ إِن كَانَ مِنَ الْكَاذِبِينَ
ترجمہ:
اس پر اللہ تعالٰی کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو
24-7

لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ
ترجمہ:
اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر
11-18

اور کیا کہوں؟
 
Top