بہزاد لکھنوی پاس اب غم کی کائنات نہیں - بہزاد لکھنوی

کاشفی

محفلین
کائناتِ غم
(بہزاد لکھنوی)
پاس اب غم کی کائنات نہیں
زندگی ہے مگر وہ بات نہیں

زندگی ہے مگر حیات نہیں
اپنی قسمت میں ہی وہ رات نہیں

غم میں آنسو نہیں نکلتے ہیں
اب وہ دورِ تکلفات نہیں

اے دل مدعا طلب ہشیار
اب تو نفرت ہے، التفات نہیں

چھوڑ کر مضطرب مرے دل کو
آپ جاتے ہیں کوئی بات نہیں

اک نظر تھی جو لے اُڑی دل کو
ہر نظر دل کی کائنات نہیں

ان سے میں بات کیا کروں بہزاد
بات یہ ہے کہ کوئی بات نہیں
 
Top