پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

سیفی

محفلین

ساتویں صدی ہجری میں مسلمان حکمرانوں کی حماقت کی وجہ سے تاتاریوں کا رخ اسلامی ریاستوں کی طرف ہوگیا۔ دنیا کی اس سفاک ترین قوم نے آندھی اور طوفان کی طرح عراق، ایران اور ترکستان کی اسلامی ریاستوں کو تباہ و برباد کر دیا۔ تاتاریوں کا یہ طوفان بلاشبہ مسلمانوں کی بداعمالیوں کا نتیجہ تھا۔ جب مسلمان اپنے جرائم کی خاصی سزا بھگت چکے تو اللہ تعالی نے اس طوفان کا رخ موڑنے کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کے ذریعے سے اللہ تعالی نے دنیا کو پھر یہ بتایا کہ مسلمان بلاشبہ کمزور ہو جاتے ہیں لیکن اسلام کے اندر بے پناہ قوت ہے اوراس قوت کے آگے اس کے دشمن بھی جھک جاتے ہیں۔


یہ شکار گاہ عام نہیں تھی، سلطنت کا شہزادہ ہی یہاں شکار کھیل سکتا تھا۔ اس وقت وہ اپنے پورے دستے کے ساتھ شکار کے لیے نکلا ہوا تھا۔ انتہائی تیز رفتار گھوڑے، شکاری کتے اور شکار کو پکڑنے کے خاص ماہر اس دستے کے ساتھ تھے۔ جانوروں کو جھاڑیوں اور کھائیوں سے نکالنے کے لیے سپاہی دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ وہ عجیب طرح کا بے ہنگم شور مچا رہے تھے، ڈھول بجا رہے تھے، "ہاؤ ہو" کر رہے تھے۔

اچانک ایک سپاہی کی نظر ایک اجنبی پر پڑی۔ سپاہی بڑا حیران ہوا کہ جنگل کے اس حصے میں یہ کون گستاخ ہے اور یہاں کیا کر رہا ہے۔ اس نے گھوڑے کا رخ اس کی طرف موڑا۔ کچھ ہی دیر کے بعد وہ اس کا راستہ روکے کھڑا تھا۔

پھر جوں ہی سپاہی کی نظر اس اجنبی پر پڑی، اس نے نفرت سے منہ موڑ لیا اور اسے برا بھلا کہتا ہوا بولا:

"منحوس شخص، یہاں کیا کر رہے ہو؟ تمہیں نہیں معلوم یہ شاہی شکار گاہ ہے!"

اجنبی کوئی عام شخص نہیں تھا۔ ان کا نام شیخ جمال الدین ایرانی تھا۔ ان کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ ایک پرہیزگار اور نیک انسان ہیں۔ مگر تاتاری سپاہی تو اسے ایک شکست کھائی ہوئی قوم کا فرد سمجھتا تھا اور اسے بھلا ایک مسلمان عالم دین سے کیا دل چسپی ہو سکتی تھی۔ وہ تو دوسرے تاتاریوں کی طرح یہی سمجھتا تھا کہ تمام ایرانی بہت منحوس ہوتے ہیں۔ اگر کسی مہم کے دوران میں ان کا سامنا ہو جائے تو بس سمجھو کہ کام خراب ہوگیا۔۔۔۔ اسی لیے یہ سپاہی بھی سخت بد مزہ ہوا۔ اسے شیخ جمال الدین پر سخت غصہ آیا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو آواز دے کر بلایا اور شیخ کو گرفتار کر لیا۔

تاتاری سپاہی اپنے قیدی کو شہزادے کے سامنے لے گئے۔ اس شہزادے کا نام تغلق تیمور تھا۔ وہ تاتاریوں کے ایک بڑے قبیلے چغتائی کا ولی عہد تھا۔ ایران پر اب اسی قبیلے کی حکومت تھی۔

شہزادہ تغلق بھی شیخ جمال الدین کو دیکھ کر بڑا برہم ہوااور اس کی زبان سے نکلا:

"تم ایرانیوں سے توایک کتا اچھا ہے!"

شیخ جمال الدین جانتے تھے کہ ان کا سامنا ایک بے رحم شہزادے سے ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ اس کے رنگ میں بھنگ ڈال دی گئی ہے۔ وہ ایک نڈر اور بہادر انسان تھے، چاہتے تو اس مغرور شہزادے کو منہ توڑ جواب دے سکتے تھے لیکن وہ انتہائی عقل مند تھے اور مو قعے کی نزاکت کو سمجھتے تھے۔ وہ شہزادے کی نفرت انگیز بات کے جواب میں بولے:

اگر ہمیں سچا دین نہ ملا ہوتا تو یقینا" ہم کتے سے بھی زیادہ برے ہوتے!"

تاتاری شہزادہ تھا تو وحشی اور بے رحم لیکن اس کا دل منافقت سے پاک تھا۔ شیخ کے اس حملے نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس نے شیخ کا سر قلم کرنے کا فیصلہ کرنے کے بجائے حکم دیا:

"اس ایرانی کو شکار کے بعد پیش کیا جائے!"

٭٭٭

شکار کے دوران میں تغلق شہزادہ، شیخ کی بات پر غور کرتا رہا۔۔۔۔ سوچتا رہا کہ اس شخص کے دین میں ایسی کون سی بات ہے جس کے بغیر یہ اپنے آپ کو حقیر ترین سمجھتا ہے اور جس کے ہوتے ہوئے یہ میرے جیسے خود سر اور بہادر شہزادے کے سامنے بھی نڈر ہوگیا ہے۔

شکار سے فارغ ہوتے ہی اس نے شیخ کو طلب کیا۔

شیخ کے آتے ہی اس نے وہاں موجود تمام لوگوں کو خیمے سے باہر جانے کا حکم دیا، پھر بولا:

"اے ایرانی! آخر بتاؤ تو سہی تمہارا دین کیا ہے، جس پر تمہیں اتنا ناز ہے۔"

شیخ اسی بہادری اور اعتماد سے بولے: "شہزادے! ہمارا دین مجھے، تمہیں، اس دنیا کے ہر انسان کو، یہ بتاتا ہے کہ یہ دنیا عارضی ہے، ہر انسان نے مر جانا ہے اور مر کر اپنے رب کے سامنے پیش ہونا ہے۔ پھر اس کا رب اس سے پوچھے گا کہ تم نے زندگی اچھے انسان کی طرح بسر کی یا برے انسان کی طرح؟ اگر وہ برا انسان ہوا تو اسے کبھی نہ ختم ہونے والے عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا اور اگر وہ اچھا ہوا تو اسے دل پسند زندگی نصیب ہوگی۔"

شہزادے کے لیے دین کی یہ تشریح بڑی سادہ، صاف اور دل کو لگنے والی تھی۔ اس نے کہا:

"اے شیخ، مجھے اپنے دین کے بارے میں تفصیل سے بتاؤ!"

شیخ نے اسے اسلام کے متعلق مزید بتایا، پھر اس کے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا۔ اس گفتگو نے تغلق شہزادے کے ظالم دل کو ہلا کر رکھ دیا۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر میں نے اسلام قبول کر لیا تو میں کبھی بادشاہ نہیں بن سکوں گا۔ مگر ضمیر نے کہا کہ اگر تم سچے دین کے بغیر مر گئے تو کیا ہوگا؟ وہ آخر کچھ سوچ کر بولا:

"اے شیخ، اگر میں اس وقت ایمان لے آیا تو کچھ حاصل نہ ہوگا۔ لیکن اگر میں نے بادشاہ بننے کے بعد اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا تو ساری رعایا مسلمان ہو جائے گی۔ میں دل سے اسلام قبول کرتا ہوں لیکن اس کا اعلان بادشاہ بننے کے بعد کروں گا۔"

شیخ جمال الدین نے شہزادے کے فیصلے کو درست قرار دیا۔

شہزادہ پھر بولا: "اے بزرگوار، اب آپ جایئے اور جب میں تخت پر بیٹھوں تو بے دھڑک میرے پاس چلے آیئے اور میرا وعدہ مجھے یاد دلایئے!"

شیخ جمال الدین، شہزادے کے کہنے کے مطابق خاموشی سے واپس چلے گئے۔ شہزادے کے تاتاری سپاہی اور دوست حیران تھے کہ اس ایرانی بوڑھے کی جان بخشی کیوں کی گئی ہے؟ دراصل تاتاریوں کے ہاں انسانی زندگی کی تو کوئی قدر و قیمت ہی نہ تھی۔ وہ جب چاہتے، جہاں چاہتے، انسانی زندگی کا خاتمہ کر دیتے۔ لیکن کسی میں یہ ہمت بھی نہ تھی کہ وہ شہزادے سے یہ پوچھے کہ اس نے شیخ کی جان بخشی کیوں کی؟

٭٭٭

شیخ اب خاموشی سے شہزادے کے بادشاہ بننے کا انتظار کرنے لگے۔ دن، ہفتوں میں بدلے اور ہفتے مہینوں میں۔ اسی طرح کئی برس گزر گئے لیکن شہزادے کے بادشاہ بننے کی خبر سننے میں نہ آئی۔ اسی دوران شیخ بیمار پڑ گئے اور ان کی بیماری دن بدن بڑھنے لگی۔ شیخ کو احساس ہوگیا کہ اب ان کا آخری وقت آگیا ہے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ جو راز ان کے سینے میں پوشیدہ ہے، وہ ان کے ساتھ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ انہوں نے یہ راز اپنے بیٹے کو بتانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنے بیٹے شیخ رشید الدین کو بلایا، تاتاری شہزادے کا سارا واقعہ تفصیل سے اسے بتایا اور آخر میں وصیت کرتے ہوئے کہنے لگے:

"دیکھو بیٹا، میں شہزادے سے ملنے کے بعداس مبارک گھڑی کا انتظار کرتا رہا۔ لیکن شاید میری زندگی میں ایسا ہونا ممکن نہیں، اس لیے اب یہ کام میں تمہارے ذمے لگا رہا ہوں۔ تمہیں جیسے ہی شہزادے تغلق کے تخت نشین ہونے کی خبر ملے، فوراً اس کے پاس چلے جانا اور اسے میرا حوالہ دے کر اس کا وعدہ یاد دلانا۔" ان کے بیٹے شیخ رشید الدین نے اپنے والد سے وعدہ کیا کہ وہ ایسا ہی کریں گے۔

اس وصیت کے کچھ ہی دنوں بعدشیخ جمال الدین کا انتقال ہوگیا۔

٭٭٭

آخر وہ گھڑی آ ہی گئی جس کا شیخ رشید الدین کو بے چینی سے انتظار تھا۔ سارے ملک ایران میں جشن کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ہر طرف سرکاری ڈھنڈورچی یہ اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ شہزادہ تغلق تیمور کی تاج پوشی پر جشن منایا جا رہا ہے۔

شیخ رشید الدین نے جشن کے اس مو قع پر بادشاہ سے ملنے کا فیصلہ کیا اور اپنے شہر سے جشن والی جگہ کی طرف روانہ ہوگئے۔

تاتاری چونکہ خانہ بدوش لوگ تھے، اس لیے وہ اپنے جشن محلوں کے بجائے کھلے میدانوں میں مناتے تھے۔ تغلق تیمور نے بھی اس جشن کا اہتمام ایک کھلی جگہ پر کیا تھا۔

میدان میں ہر طرف شان دار خیمے نصب تھے۔ لگتا تھا کہ خیموں کا ایک شہر اس بیاباں میں آباد ہوگیا ہے۔

شیخ رشید الدین پوچھتے پچھاتے بادشاہ کے خیمے تک پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ خیمے کے اردگرد سخت پہرہ ہے۔ دربانوں کے چاق و چوبند دستے نے خیمے کو گھیر رکھا تھا۔ شیخ رشید الدین ان دربانوں سے بالکل نہیں گھبرائے اور ان کے سردار کے پاس پہنچے اور کہنے لگے:

"مجھے تمہارے بادشاہ سے ملنا ہے۔"

دربان نے ایک ایرانی مسلمان کو سادہ سے کپڑوں میں دیکھا تو حیران ہوتے ہوئے بولا:

"تمہیں کیا کام ہے بادشاہ سے؟"

"مجھے ان سے ذاتی کام ہے۔" شیخ نے اعتماد سے کہا۔

دربان نے ایک طنزیہ نظر ان پر ڈالی اور مذاق اڑاتے ہوئے کہا: "لگتا ہے بادشاہ نے تمہیں کوئی راز کی بات بتانے کے لیے بلایا ہے!"

"بالکل۔۔۔۔ میں نے ان سے وہ بات کہنی ہے، جو کسی دوسرے کو نہیں بتا سکتا!"

شیخ نے جب یہ جملہ کہا تو دربان نے زور دار قہقہہ لگایا اور انہیں دھکے دے کر وہاں سے نکال دیا۔

شیخ نے ہمت نہ ہاری اور خیمے کے آس پاس ہی منڈلانے لگے۔ ان کا خیال تھا کہ بادشاہ خیمے سے باہر آئیں گے وہ ان تک پہنچ جائیں گے۔ لیکن دربانوں نے انہیں یہاں بھی کھڑے نہ ہونے دیا۔ انہوں نے حکم دیا کہ اگر خیر چاہتے ہو تو خیمہ بستی سے باہر چلے جاؤ۔ شیخ کے پاس ان کا حکم ماننے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ مگر واپس شہر جانے کے بجائے وہ خیموں کے پاس ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے، وہیں پر اپنا بستر لگا لیا اور ایک فقیر کی طرح وہیں رہنے لگے۔

٭٭٭

شیخ رشید الدین کو درخت کے نیچے ڈیرے ڈالے تیسرا یا چوتھا دن تھا۔ وہ فجر کی نماز کے لیے اٹھے۔ ابھی اندھیرا خاصا تھا۔ انہوں نے وضو کیا اور نماز سے پہلے باقاعدہ اذان کہنے کا فیصلہ کیا۔

وضو کرنے کے بعد انہوں نے بلند آواز سے اذان کہنی شروع کی: "اللہ اکبر۔۔۔۔ اللہ اکبر"

خاموشی کے اس عالم میں شیخ کی آواز خوب گونجی، یہاں تک کہ اذان کی یہ گونج بادشاہ کے خیمے تک بھی پہنچ گئی۔ بادشاہ ساری رات جشن منانے کے بعد تھوڑی ہی دیر پہلے سویا تھا۔ شیخ کی آواز نے اسے جگا دیا۔

اذان کی آواز اس کے لیے بالکل اجنبی تھی۔ اس کا کوئی لفظ اس کی سمجھ میں نہ آیا۔ اسے اس عجیب و غریب "نغمے" پر شدید غصہ آیا۔ اس نے چیخ کر اپنے دربانوں کو حکم دیا کہ اس گستاخ کو پکڑ کر اسی وقت میرے سامنے حاضر کیا جائے۔

دربان آواز کی سمت لپکے، شیخ کو پکڑا اور مارتے پیٹتے بادشاہ کے سامنے لا حاضر کیا۔ شیخ کو اپنی پٹائی کا ذرہ بھر غم نہیں تھا۔ بادشاہ سے ملاقات ان کا مقصد تھا اور یہ مقصد حاصل ہو چکا تھا۔ بادشاہ نے جب انہیں دیکھا تو یہی سمجھا کہ کوئی فقیر ہے۔ ویسے بھی کئی دن وہاں پڑے رہنے سے شیخ کے کپڑے خاصے میلے ہو چکے تھے اور حلیہ بھی خاصا خراب ہو چکا تھا۔ رہتی کسر دربانوں کی بد تمیزی نے پوری کر دی تھی۔

بادشاہ غصے سے بولا: "ابے احمق فقیر، یہ تم کیا کر رہے تھے۔"

شیخ رشید الدین نے بادشاہ کے سوال کو سنا ان سنا کردیا اور کہنے لگے:

"اس دین کے ایک حکم پر عمل کر رہاتھا جس کو نہ مانتا تو، اپنے باپ جمال الدین کے کہنے کے مطابق، کتے سے برا ہوتا!"

شیخ کی اس بات نے بادشاہ کے غصے کو حیرت اور تجسس میں بدل دیا۔ وہ شیخ کو پہچاننے کی کوشش کر نے لگا۔

شیخ بولے: "بادشاہ سلامت میں جمال الدین کا بیٹا ہوں۔۔۔۔ رشید الدین۔ یاد ہے آپ کو وہ واقعہ جب آپ شکار کر رہے تھے اور میرے والد سے آپ کا سامنا ہوا تھا۔۔۔۔" یہ کہہ کر انہوں نے سارا واقعہ بیان کر دیا۔

نیند بادشاہ کی آنکھوں سے کوسوں دور جا چکی تھی، وہ بولا: "اے نیک دل شخص، مجھے تمہارے والد سے کیاگیا وعدہ یاد ہے اور سچ پوچھو تو میں اسی کے انتظار میں تھا۔"

اس کے بعد اس نے اپنے خاص وزیر کواسی وقت حاضر ہونے کا حکم دیا۔ وزیر بھی آنکھیں ملتا حاضر ہوگیا۔ بادشاہ نے کہا:

"اے ہمارے خاص وزیر! میرے سینے میں برسوں سے ایک راز دفن تھا۔ اس ایرانی فقیر نے اسے یاد دلایا ہے ۔ دراصل میں اسلام قبول کرنے کا ارادہ کر چکا ہوں۔ تمہارا کیا خیال ہے؟"

وزیر نے بھی حیرت انگیزانکشاف کیا: "بادشاہ سلامت، سچی بات تو یہ ہے کہ میں بھی دل سے اسلام کی سچائی کو مان چکا ہوں۔"

پھر اسی وقت بادشاہ اور وزیر دونوں نے شیخ رشید الدین کی رہنمائی میں اسلام قبول کر لیا۔

جیسے ہی ایران میں بادشاہ اور اس کے وزیر کے اسلام لانے کی خبر مشہور ہوئی، تاتاری بھی اسلام قبول کرنے لگے ۔ پہلے دن ایک لاکھ ساٹھ ہزار آدمیوں نے اسلام قبول کیا۔

اس سے قبل کہ تاتاری اسلامی تہذیب و تمدن کا نام و نشان مٹا ڈالتے، اللہ کے دین نے ان کو اپنے رنگ میں رنگ دیا۔ اسلام کے دشمن، اسلام کے پاسبان بن گئے۔

تاریخ کا پہیہ گھوم کر پھر اسی جگہ آ چکا ہے جہاں مغربی طاقتیں مسلمانوں کی تہذیب اور تمدن کو ختم کرنے کے در پے ہیں۔ ان کے نزدیک مسلمانوں کی کوئی اہمیت نہیں اور ایسا صرف اور صرف مسلمانوں کی اپنی غلطیوں کی وجہ سے ہے۔ آج پھر کسی جمال الدین کی ضرورت ہے جو یہ مان لے کہ مسلمان واقعی اسلام کے بغیر کچھ نہیں۔ آج واقعی کسی رشید الدین کی ضرورت ہے جو وقت کے تاتاریوں کے دروازے پر دستک دے اور مسلمانوں سے متنفر قوموں کو اسلام سے متعارف کرائیں۔ کیا خبر اسلام کے دشمنوں ہی کو اللہ اس کا محافظ بنا دے!


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاسباں کعبے کو مل گئے صنم خانے سے

اس مضمون کا ماخذ
 

سیفی

محفلین
مجھے تو اس میں اعتراض کی بات نظر نہیں آتی۔ اسلام کی جو ترویج وہ کر رہے ہیں وہی کام یہاں بھی پھیل رہا ہے۔ میں نےکبھی ان تحریروں کو اپنے نام سے منسوب نہیں کیا۔

ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ ہر پوسٹ کے ساتھ ( بشکریہ۔۔۔) کے الفاظ لکھ دوں گا جیسے اخبارات میں مضامین ہوتے ہیں۔
 

سیفی

محفلین
نبیل بھیا

میں نےان تمام پرانے مضامین پر بھی جو دوسری سائٹ سے لئے گئے تھے ان کے آخر میں “مضمون کا ماخذ“ کا اضافہ کر دیا ہے۔ جس میں اس سائٹ کا لنک موجود ہے۔

توجہ دلانے کا شکریہ
 

نبیل

تکنیکی معاون
سیفی: مجھے مزا آیا ہے جس طرح آپ نے مجھے بھیا کہا ہے۔ دوسرے میرے خیال میں میں یا آپ کونٹینٹ اونر کی حساسیت کا غلط اندازہ لگا رہے ہیں۔ آپ کو شاید علم نہیں کہ ہمیشہ سے کاپی رائٹ سے مبرا کتاب قراٰن مجید شائع کرنے والے اس کے متن کے کاپی رائٹ کی حفاظت کرتے ہیں، یعنی کہ آپ بلا تکلف ان کا شائع کردہ متن اپنی تفسیر میں شامل نہیں کر سکتے۔ بہر حال احتیاط برتنا اچھی بات ہے۔
 
Top