ٹیسٹ ٹیوب

عرفان سعید

محفلین
ٹیسٹ ٹیوب
(جناب مجید امجد کی نظم "بُندا" سے متاثر ہو کر ایک کیمیا گر کی شکستہ کاوش)

کاش میں تیری لیب میں اک ٹیسٹ ٹیوب ہوتا
تو پریکٹیکل سے کچھ پہلے، بڑے مان کے ساتھ
اپنے پھول سے نازک ہاتھوں سے پکڑتی مجھ کو
اور بے تابی سے ٹیچر کے لیب آنے سے پہلے
تو کسی سوچ میں ڈوبی دھیرے دھیرےدھلاتی مجھ کو

میں تیرے ہاتھ کے لمس سے بہک سا جاتا
جب کبھی تجربے کے دوران مجھے دیکھا کرتی
تیری آنکھوں کی قندیلوں سے دہک سا جاتا

کام کی لگن میں جب تو ڈیسک پر چھوڑ جاتی
تو میرا سراپا، میری روح، میرا دل توڑ جاتی

تیرے انتظار میں دیر تک خود کلامی کرتا
تیری چاہت کے بازار میں اپنی نیلامی کرتا

کن انکھیوں سے تیرے لوٹنے کا اشارہ پاتا
تو ملکۂ حسن جیسی تیری چال کا نظارہ کرتا

کیمیکل کی تیزی و تندی میں بھی یہ اقرار رہتا
تیرے وجود کی خوشبو سے ہر دم سرشار رہتا
تیری اک جھلک کو، اک آہٹ کو بے قرار رہتا

کچھ نہیں تو بس اتنا تومیں تجھ سے منسوب ہوتا
کاش میں تیری لیب میں اک ٹیسٹ ٹیوب ہوتا
-عرفان-​
 
Top