سودا ٹوٹے تری نگہ سے اگر دل حباب کا

ٹوٹے تری نگہ سے اگر دل حباب کا
پانی بھی بھر پئیں تو مزہ ہے شراب کا

کہتا ہے آئینہ کہ سمجھ تربیت کی قدر
جن نے کیا ہے سنگ کو ہم رنگ آب کا

دوزخ مجھے قبول ہے اے منکر و نکیر
لیکن نہیں دماغ سوال و جواب کا

تھا کس کے دل کو کشمکشِ عشق کا دماغ
یارب! برا ہو دیدہء خانہ خراب کا

زاہد سبھی ہے نعمتِ حق جو ہے اکل و شرب
لیکن عجب مزہ ہے شراب و کباب کا

غافل غضب سے ہو کے، کرم پر نہ رکھ نظر
پُر ہے شرارِ برق سے دامن سحاب کا

قطرہ گرا تھا جو کہ مرے اشکِ گرم سے
دریا میں ہے ہنوز پھپولا حباب کا

اے برق کس طرح سے میں حیراں ہوں تجھ کنے
نقشہ ہے ٹھیک دل کے مرے اضطراب کا

سودا نگاہِ دیدہء تحقیق کے حضور
جلوہ ہر ایک ذرّے میں ہے آفتاب کا
 

باباجی

محفلین
واہ بہت خوب سید صاحب
ٹوٹے تری نگہ سے اگر دل حباب کا
پانی بھی بھر پئیں تو مزہ ہے شراب کا
 
Top