ٹوٹی سڑک

شکیل شمسی کا وہ شعر جو اس افسانچے کی تخلیق کا سبب ہوا

افسانچہ

افسانچہسڑک

اشرف علی بستوی

یہ افسانچہ آج ممبئی سے دہلی سفر کے دوران فیس بک پر پوسٹ کی گئی شکیل شمسی کی طویل غزل کے اس مصرعے

گائوں میں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں ہیں۔

پھر بھی لمس ان کا مخملی کیوں ہے

دیکھ کر برجستہ ابھرے خیالات پر مبنی ہے اسے اب سے کچھ دیر قبل باندرہ ٹرمنس سے بوری ولی اسٹیشن کے درمیان مکمل کیا ہے، ابھی نوک پلک درست کرنا باقی ہے ۔۔۔

محفل کے دوستوں کی خدمت میں پیش ہے ، توجہ چاہوں گا ، بس ایک خیال کو ترتیب دیا ہے پتہ نہیں کیا بنا۔۔۔
مندرجہ بالا شعر پڑھ کرمجھےاپنے قصبے کی وہ ٹوٹی پھوٹی سڑک کا منظر تازہ ہو گیا ، ابھی کل کی ہی بات ہے گاوں سے آئے ایک دوست سےاس کا حال دریافت کرنے کے بعد میں نے دوسرا سوال یہی کیا " اور بتاو بھائی سمریاواں اور باغ نگر بازار کے مین روڈ کی صورت حال کیا ہے ؟ اس نے ہنس کر جواب دیا اس کی خستہ حالی ہمارے علاقے کی پہچانبن گئ ہے ۔ یہ سن کر تکلیف تو ہوئی لیکن اس تکلیف کا بھی عجیب لطف تھا کیونکہ مجھے اس سڑک کو دیکھے دو برس گزر چکے ہیں جس پر 28سال سفر کیا ہے سمریاواں سے بستی کے درمیاں پائے جانے والے ہر چھوٹے بڑےگڈھے سے خوب شناسائی تھی ، اگر رات میں موٹر سائیکل کی لائٹ جواب دے دے اور اندھیری رات ہو تب بھی اپنی منزل پر بحفاظت پہونچ جاتے تھے۔ نہ چور اچکوں کا ڈر اور نہ بے ہنگم ٹیفک کا خطرہ، بخدا بائیک چلانے کا فطری لطف تو بس اسی سڑک پر ملتا تھا جب ہم بستی شہراے پی این ڈگری کالج کے لیے نکلتے تھے وہ بھی کیا عجب دن تھے 1996 تا 2000 روزانہ کا یہی معمول تھا فجر سے قبل والد صاحب نماز کے لیے جگا دیتے ( والد صاحب کے رعب کا یہ عالم تھا کہ اگرغسل کی حاجت بھی ہوتی تب بھی اس وقت تو ہر حال میں بستر چھوڑ نا لازم تھا کیا مجال تھا کہ بستر پر پڑے رہتےان کی غضب ناک ڈانٹ سے بچے کے لیے تالاب کی طرف بے وجہ نکل پڑتے اور بعد میں واپس آتے) فجر کی نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد کالج جانے کی تیاری میں جلدی جلدی ناشتہ سے فارغ ہونے کے بعد بائیک لیکر سر پٹ دوڑاتے نکل پڑتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن مرضی خدا حالات کچھ اس طرح بدلے ہماری شامت آئی اورکیریرکی تلاش میں 2006میں دہلی آپہونچے ۔۔۔۔ یہاں ہر طرف دودھیا روشی سے جگ مگاتی کشادہ سڑ کیں ، سڑ کوں کنارے سر سبز و شاداب خوشنما درخت ، خوبصورت پھول پودے ،عوام کو تحفظ فرام کرنے والے پولیس دستوں کی گشت دیکھ کر راحت کی سانس لی اور خدا کا شکر ادا کیا کہ اب ہمیں شام کو جلد لوٹنے کی فکر نہیں ، گاوں کی سنسان سڑک کا سناٹااب ہمارا پیچھا نہیں کرے گا ، یہاں اب بائیک کے شاکر کی مرمت بھی جلدی جلدی نہیں کرانی پڑے گی ۔ لیکن یہ خوشنما احساس بہت جلد کافور ہو گیا ، غیر محفوظ ڈرائیونگ ،بادلوں کی طرح منڈلاتے خطرات، سر راہ ہونے والے آبرو ریزی اور رہزنی کے دل دوز واقعات کی وجہ سے بہت جلد عدم تحفظ کا احسا س اس قدر طاری ہوا کہ دل پکار اٹھا کہ یہاں توزندگی انتہائی پر خطر ہو گئی ہے ، نہ جانے کب کوئی بائیک سوار یا ڈی ٹی سی کی بس اچانک آگے یا پیچھے سے ٹکر مار کر رفو چکر ہو جائے۔ خدا کا شکر ہے کہ اب دلی کی بد نام زمانہ بس سروس"بلیو لائن"کے خوف ناک دور کا انت ہوچکا ہے ، لیکن یہ غیر تربیت یافتہ ڈی ٹی سی کے " ہریانوی ماڈل" ڈرائیور بھی کیا کم خطر ناک ہیں؟ اب تو کسی حدتک بس ایکسیڈینٹ کے خطرات تو کم ہوئے ہیں لیکن وقت پر منزل مقصود پر پہونچنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کیونکہ اخلاقی اور فنی تربیت سے عاری ڈی ٹی سی بس کا عملہ نہ جانے کب کسی مسافر سے بے جا بحث ومباحثہ پر اتر آئے اور نوبت مارپیٹ کی آپڑے اور آپکو اپنا سفر درمیان میں ہی ترک کرنا پڑے ۔۔ اسی لیے مجھے آج بھی اپنے قصبے کی وہ ٹوٹی سڑک یادوں کے جھروکوں سےروزا نہ ایک بار ضروردستک دیتی ہے، لیکن اب اس سے نکلنے کی بظاہرکوئی صورت دور دور تک نظر نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب تحریر کیا بے ساختہ ابھر روح کو مہکا دینے والے جذبوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں شراکت پر
 
Top