ٹشو پیپر سے پٹرول؟؟؟؟؟

اگر ایک کلو ٹشو سے 400 گرام پیٹرول بنتا ہے تو کمال کیتا ہے
ٹشو سیلولوز پر مشتمل ہوتا ہے سیلولوز کو الکوحل میں تبدیل کرنا مشکل ہے۔
 

arifkarim

معطل
جب پانی سے گاڑی چل سکتی ہے تو ٹشو پیپر سے پٹرول کیوں نہیں بن سکتا؟ پاکستان میں قوانین قدرت شاید لاگو نہیں ہوتے۔
 

حسیب

محفلین
جب پانی سے گاڑی چل سکتی ہے
پچھلے دنوں ایک صاحب کا بہت چرچا ہوا جن کے دے انٹرویو پر انٹرویو اور رپورٹوں پر رپورٹیں کہ جناب نے پانی سے گاڑی چلائی ہے۔ میں اور میرے دوست غلام عباس نے سوچا ہو سکتا ہے کہ اس نے پانی میں سے آکسیجن اور ہائیڈروجن علیحدہ علیحدہ کرنے کا کوئی نیا اور زبردست طریقہ ایجاد کر لیا ہو۔ خیر ہم اس بندے کو ملنے گئے۔ سارا دن کی کھجل خرابی کے بعد اس کے گاؤں پہنچے۔ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔ کوئی پانی سے گاڑی نہیں چل رہی تھی بلکہ وہی انیسویں صدی والی تکنیک استعمال کر کے بالکل معمولی سی ہائیڈروجن حاصل کی جا رہی تھی جو پٹرول کے ساتھ ملا کر جلائی جا رہی تھی تاکہ انجن کی تھوڑی طاقت زیادہ ہو جائے۔ اب پتہ نہیں طاقت زیادہ ہوئی بھی تھی یا نہیں لیکن پانی سے انجن/گاڑی چلانے والا سیدھا سیدھا جھوٹ تھا۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میڈیا نے اس کی اتنی جھوٹی تشہیر کیوں کی لیکن اس بندے سے مل کر ایک بات واضح ہوئی کہ وہ بندہ بذاتِ خود بہت اچھا تھا، درد دل رکھنے والا انسان ہے اور پاکستان کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اس نے خود میڈیا کے بارے میں کہا کہ انہوں نے ہمیں بہت تنگ کیا ہے۔ باقی اس نے خود مانا کہ پانی سے گاڑی نہیں چلائی جا رہی بلکہ مجھے انجن کی تھوڑی زیادہ طاقت چاہئے تھی تو میں نے اس کے لئے ہائیڈروجن والا طریقہ سوچا۔ مگر ہمارے میڈیا نے تو وہ گاڑی سو فیصد پانی سے چلوا دی تھی۔
رائٹر ایم بلال ایم
 

سید ذیشان

محفلین
بائو ماس کو ڈیزل میں تبدیل کرنے کے کافی طریقے موجود ہیں۔ ٹشو پیپر بھی درختوں سے بنایا جاتا ہے اور اس کوبھی ڈیزل میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

باقی ان لوگوں کے طریقے پر تو کوئی رائے نہیں دے سکتا کیونکہ یہ میری فیلڈ نہیں ہے :)
 
آخری تدوین:

سید ذیشان

محفلین
پچھلے دنوں ایک صاحب کا بہت چرچا ہوا جن کے دے انٹرویو پر انٹرویو اور رپورٹوں پر رپورٹیں کہ جناب نے پانی سے گاڑی چلائی ہے۔ میں اور میرے دوست غلام عباس نے سوچا ہو سکتا ہے کہ اس نے پانی میں سے آکسیجن اور ہائیڈروجن علیحدہ علیحدہ کرنے کا کوئی نیا اور زبردست طریقہ ایجاد کر لیا ہو۔ خیر ہم اس بندے کو ملنے گئے۔ سارا دن کی کھجل خرابی کے بعد اس کے گاؤں پہنچے۔ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا۔ کوئی پانی سے گاڑی نہیں چل رہی تھی بلکہ وہی انیسویں صدی والی تکنیک استعمال کر کے بالکل معمولی سی ہائیڈروجن حاصل کی جا رہی تھی جو پٹرول کے ساتھ ملا کر جلائی جا رہی تھی تاکہ انجن کی تھوڑی طاقت زیادہ ہو جائے۔ اب پتہ نہیں طاقت زیادہ ہوئی بھی تھی یا نہیں لیکن پانی سے انجن/گاڑی چلانے والا سیدھا سیدھا جھوٹ تھا۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میڈیا نے اس کی اتنی جھوٹی تشہیر کیوں کی لیکن اس بندے سے مل کر ایک بات واضح ہوئی کہ وہ بندہ بذاتِ خود بہت اچھا تھا، درد دل رکھنے والا انسان ہے اور پاکستان کے لئے کچھ کرنا چاہتا ہے۔ اس نے خود میڈیا کے بارے میں کہا کہ انہوں نے ہمیں بہت تنگ کیا ہے۔ باقی اس نے خود مانا کہ پانی سے گاڑی نہیں چلائی جا رہی بلکہ مجھے انجن کی تھوڑی زیادہ طاقت چاہئے تھی تو میں نے اس کے لئے ہائیڈروجن والا طریقہ سوچا۔ مگر ہمارے میڈیا نے تو وہ گاڑی سو فیصد پانی سے چلوا دی تھی۔
رائٹر ایم بلال ایم
میرے خیال میں آغا وقار اب اپنی شرمندگی چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ٹی وی پر ان کے انٹرویو انٹرنیٹ پر موجود ہیں اور محفل میں اسی دوران ایک دھاگا بھی تھا جس میں کافی بات چیت ہوئی تھی، آغا وقار نے "صرف"پانی سے گاڑی چلانے کا دعویٰ خود کیا تھا میڈیا نے اس پر نہیں تھوپا تھا۔ جب اس دعوے کے جھوٹے ہونے کی ڈاکٹر عطا الرحمٰن نے نشاندہی کی تو آغا وقار نے اس سے ملتے جلتے الفاظ کہے تھے: آپ نے اب تک کیا ایجاد کیا ہے جو ہم پر انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔

اور ایم بلال کو بھی سلام ہے کہ بغیر تحقیق کئے ہی اس کے گاؤں بھی پہنچ گئے اور آغا وقار کی تمام باتوں کا یقین بھی کر لیا۔
 
Top