ٹائپنگ مکمل ٹائپنگ عظیم بیگ چغتائی کے افسانے -

زین

لائبریرین
ص۸۰

انہوں نے کچھ فخریہ لہجے میں شاید اسی نیت سے کہا کہ میں ان سے تعجب سے پوچھوں کہ صاحب بندروں نے کیا خطا کی جو ان کے سر کے ساتھ یہ چنگیزی کارروائی کی گئی۔۔۔۔اور جب وہ کچھ مناسب وجوہ پیش کریں تو ان کی معلومات پر دنگ رہ جاﺅں ۔ شاید انہوں نے اسی خیال سے کہا۔
”جی ہاںبندر !۔۔۔۔بندروں کے سر ۔ “مگر میری خاموشی سے ان کی امید منقطع ہوگئی۔ تو وہ خود ہی بولے ۔ ” آپ کو نہیں معلوم ۔۔۔ میں دراصل فن باغبانی پر ایک کتاب لکھ رہا ہوں۔ بات یہ ہے کہ بندر کے سر کی کھاد انگور کے لیے لاجواب ہے ۔“
میں بھلا کیا کہتا۔ دل میں سوچ رہا تھا کہ آئندہ انگور اگر ملیں تو کھاﺅں یا نہ کھاﺅں۔ باغبانی کا تذکرہ چھوڑ کر انہوں نے کہا ۔
”وہ دیکھو وہ پرسی کی قبر ہے ۔“ انگلی اٹھا کر انہوں نے ایک چوکھونٹے چبوترے کی طرف مجھے دکھادیا۔
انگریزوں کی قبریں میں پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ کوئی نئی بات نہ تھی۔ پر سی ہاں اس نام سے بھی واقف تھا ۔ جو بھی اخبار پڑھتے رہے ہیں وہ سر پرسی کا کس‘ ہائی کمشنر عراق کے نام اور ان کے تدبر اور پالیسی سے واف ہیں۔ مگر یہاں ان کی قبر کیسی ؟ ان کے کوئی عزیز ہوں گے۔ میں نے بجائے سوال کرنے کے حسب عادت دل میں یہ کہہ کر اطمینان کرلیا ۔ ہم برآمد ے کے پاس پہنچ رہے تھے ۔ گاڑی بالکل آہستہ آہستہ چل رہی تھی ‘ وہ اسی طرح بولے ۔
” مجھے پرسی کے مرنے کا بہت افسوس ہوا اور ایک روز میں نے کھانا نہیں کھایا۔“
مجھے قطعی یقین ہوگیا کہ ان کی مسٹر پرسی س دوستی ہوگی۔ اتنے میں‘ میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹا سا کتا دوڑتا ہوا گاڑی کے پاس پہنچا۔ بنگلہ ابھی بہت دور تھا مگر یہ مالک کے استقبال کو آیا تھا ۔ میں غور سے دیکھ رہا تھا کہ یہ کٹ کھنا کہاں تک ہوسکتا ہے کہ وہ بولے :
یہ دیکھئے یہ غریب رہ گیا اور پرسی مر گئی۔ بڑی لا جواب کتیا تھی۔
ادھر میں متعجب تھا اور ادھر وہ تعریف کے لہجہ میں کہنے لگے ۔ ”آ پ یہ خیال کیجئے کہ اتنی سی کتیا تھی مگر اکیلی بلی کار مار ڈالتی تھی اور پھر تعریف ایک اور بھی تھی ‘ وہ یہ کہ اگر کہیں کوئی اجنبی بنگلے کے احاطہ مین نظر پڑ جائے تو بس اس کی خبر ہی تو لے ڈالتی تھی ۔“
میں چوکنا ہوا ۔ دل میں ‘ میں نے کہا کہ اچھا ہو اکہ پرسی مر گئی اور آج نہ ہوئی۔ پھر غور کیا کہ یہ کتا بھی تو اسی کے ساتھ ہے ! میں جناب کتوں سے بہت ڈرتا ہوں اور بالخصوص ان نالائق کتوں سے جو حالانکہ کٹ کھنے نہ ہوں مگر دوڑ پڑتے ہیں اور تمام ہوش و حواس زائل کرکے اکثر گرادیتے ہیں۔ میں نے پرسی کی قبر کی طرف اطمینان س نظر ڈالی اور پھر اس کتے کو یعنی

ص۸۱

پرسی مرحومہ کے شوہر کو دیکھا۔ اتنے میں گاڑی برآمدے سے آکر لگی اور میں نے دیکھا کہ ایک خوف ناک بل ڈاگ انگڑائی لے کر اٹھا ۔ اتنے میں ہم دونوں اتر پڑے ۔چھوٹا کتا تو دم ہلاکر مالک کے قدموں میں لوٹ رہا تھا‘ مگر یہ سنجیدہ بزرگ یعنی بل ڈاگ صاحب میری روح قبض کرنے میں مشغول ہوگئے ۔ یعنی برآمدہ سے اتر کر انہوں نے مجھے سونگھا ۔ میری سانس رک گئی اور چہرے پر ایسی ہوائیاں اڑنے لگیں کہ انہوں نے محسوس کیا اور مسکرا کر کہا ۔ ”اجی یہ تو وہی پرانا نامی ہے ۔ بس صورت ہی ڈراﺅنی ہے ۔ کاٹتا تو کم بخت جانتا ہی نہیں۔ بہت کیا اس نے اور بڑی بہادر دکھائی تو بس لپٹ جاتا ہے ۔۔۔“انہوں نے میری سراسیمگی پر ایک قہقہ لگایا۔ کیونکہ میں پھاند کر گاڑی میں پہنچ چکا تھا۔ ”لاحول ولاقوة ۔ تمہارا کتوں سے ڈرنا نہ گیا۔ یہ تو وہی پرانا نامی ہے ۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے مجھے ہاتھ پکڑ کر گاڑی سے اتارا اور مجھے تیزی سے بے تکلف کمرے میں داخل ہونا پڑا۔ خوش قسمتی سے کتوں نے ایک گلہری کو پایا جس کے پیچھے وہ ایسے دوڑ کہ نظروں س اوجھل ہوگئے۔ میں اطمینان کا سانس لیا۔
(3)
پہنچتے ہی انہوں نے آواز دی۔ ”کھانا لاﺅ۔“ خدا خیر کرے۔میں نے دل میں کہا کہ یہ کھانے کا کون سا وقت ہے ۔ بہت جلد ہاتھ دھوئے گئے ‘ انکار وہ کا ہے کو مانتے‘ میں نے بھی کہا
این ہم اندر عاشقی بالائے غم ہائے دگر
کھانے کی میز پر گرم کیا ہوا پلاﺅ‘ شامی کباب ‘ انڈوں کا قورمہ اور دوسرے کھانے تھے ۔ میں رکابی کے ایک طرف کے چاول اٹھا کر دوسری طرف رکھ کر ٹیلا سا بنانے میں مشغول ہوا اور انہوں نے تیزی سے چاول کھانا۔۔۔نہیں میں نے غلط کہا بلکہ پینا شروع کئے۔ شاید وہ چبانا نہ جانتے تھے یا چاولوں کو چبانے کی چیز نہ خیال کرتے تھے۔ ”عارف میاں کہاں ہیں؟“ چلا کر ملازم س انہوں نے کہا کہ”ان کو جلدی بلاﺅ۔“ اور میری طرف مسکر کر کہا۔ ”تمہارا بھتیجا تو آیا نہیں۔ نہا رہا ہوگا۔ ورنہ وہ ضرور میرے ساتھ کھانا کھاتا ہے ۔“
آپ یقین مانیں کہ میں نے ادھر ادھر بھاگنے کی نیت سے دیکھا ۔ بھتیجا! یہ لفظ بھتیجا میرے لیے لفظ شیر سے کم نہ تھا۔ جس کے ایک نہ دو بلکہ سگے سوتیلے ملاکر ساڑھے چودہ بھتیجے ہوں ‘ اس سے پوچھئے کہ ایسی دنیا اچھی یا دوزخ؟ وللہ اعلم گنہگاروں کی ایذارسانی کے لیے وہاں بھتیجے بھی ہوں گے یا نہیں۔ اگر میرے بھتیجے جنت میں گئے تو دوزخ کی زندگی کو بدر جہا پر سکون اور جائے پناہ تصور کروں گا۔ میں یہ کہنے میں مبالغے سے کام نہیں لیتا کیونکہ چودہ پندرہ بھتیجے اور سب ایک جگہ رہتے ہوں تو غریب چچا کا جو حا ل ہوگا اس کا اندازہ خود لگالیجئے۔ ویسے ہی کیا کم میری جان گھر کے پندرہ بھتیجوں نے مصیبت میں ڈال رکھی تھی جو یہ ایک اور نکلا!!! کوئی خودکشی کرتا تو میں

ص۸۲

معلوم کرنے کی کوشش کی کوشش کرتا کہ اس کے کتنے بھتیجے ہیں ۔ ایک ہو تو ہو ورنہ دو ہونے کی صورت میں مجھ کو خودکشی کرنے کی وجہ معلوم کرنے میں دیر نہیں لگتی تھی۔ لفظ بھتیجا کے کچھ بھی معنی ہوں مگر میری دانست میں ملک الموت یا جہنم کے سیکرٹری کا نام بھی بھتیجا ہونا چاہیے۔ میں اس فلسفے پر غور کررہا تھا کہ وہ بولے ۔ ”تمہارے کتنے بچے ہیں۔“
میں اس کا کیا جواب دیتا کیونکہ میری شادی ہی نہیں ہوئی ہے لیکن شاید ان کو جواب کی ضرورت ہی نہ تھی ‘ کیونکہ فوراً ہی انہوں نے بغیر میرے جواب کا انتظار کئے ہوئے کہا :
”تمہاری بیوی کہاں ہیں؟ تمہارے کتنے بچے ہیں؟ “ انہوں نے بہت زور دے کر پوچھا۔
”تمہارے بچے ہیں؟“
مجبوراً مجھے واقعہ بیان کرنا پڑا ” ایک بھی نہیں۔“
چاول کا بڑا سا لقمہ جو انہوں نے منہ میں رکھا ہی تھا۔”ارے“ کے ساتھ نگل کر بولے ۔ ”ارے ۔۔۔دونوں۔۔۔۔دونوں بچارے ۔۔۔ یہ آکر کب ؟ ۔۔۔۔ بھئی بات تو یہ ہے کہ خدا اگر بچے دے تو زندہ رہیں ‘ ورنہ ان کا ہونا اور پھر مر جانا تو ۔۔۔۔خدا کی پناہ ۔۔۔“
وہ شاید مجھ سے ہمدردی کررہے تھے اور انہوں نے کہا ۔۔”تمہاری بیوی کا نہ معلوم کیا حال ہوگا۔“
آپ خود خیال کیجئے کہ مجھے بھلا کیا معلوم کہ وہ لڑکی کس حال میں ہوگی جو آئندہ چل کر میری بیوی ہوگی اور میں خود مجبور تھا تو بھلا ان کو کیا بتاتا کہ اس کا کیا حال ہوگا کہ اسی دوران وہ آگیا! کون! اجی وہی ملک الموت یا جہنم کا سیکرٹری یعنی میرا منہ بولا بھتیجا عارف۔ میں گھبرایا کیونکہ تیر کی طرح ”پاپا! پاپا!!“ کا نعرہ مارتا چلا آرہا تھا۔ میں سنبھل کر بیٹھا اور مدافعت کی صورتوں اور امکانات پر غور کرنے لگا کہ اس کا رخ بدل گیا ۔ وہ انے پاپا پر گرا اور تیزی س وہ بھی پلاﺅ پینے میں مشغول ہوگیا۔۔۔“
والد بزرگوار نے فرزند ارجمند سے کہا : ”تم نے چچا کو نہ تو سلام کیا اور نہ ٹاٹا کیا“ ٹاٹا۔۔۔ٹاٹا“ کئی مرتبہ پھر تقاضا کیا۔۔” سلام کرو‘ ٹاٹا کرو۔۔۔سلام کرو“ با الفاظ دیگر مجھ سے تقاضا ہورہا تھا کہ مگر حضرت مجھ سے یہ ریا کاری ہونا نا ممکن تھی ۔ایک تو ویسے ہی خاموش آدمی تھی ( اب نہیں)۔۔۔ اور حتیٰ الامکان بغیر بات چیت کئے کام نکالنا چاہتا تھا اور پھر ویسے بھی بھتیجوں کو دعا دینے کے خلاف‘ یہ نہ خیال کیجئے گا کہ میں خدا نخواستہ چاہتا تھا کہ وہ مر جائیں‘ اجی ہزار برس زندہ رہیں مگر میری دعا سے بے نیاز رہیں تو بہتر۔ بارہا کے تقاضے سے تنگ آکر آخر بھتیجے صاحب نے میری چھاتی پر مونگ دال ہی ڈالی۔ یعنی اپنا سیدھا ہاتھ جو پلاﺅ کے گھی میں تربتر تھا میرے گھٹنے پر رکھ کر اپنا بایا ہاتھ ٹاٹا کے لیے بڑھادیا۔ میں دم بخود رہ گیا۔ اپنے صاف پتلون پر چکنائی کا

ص۸۳

دھبہ دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ کیونکہ میرے پاس یہی ایک اچھا پتلون تھا جو بھتیجوں کی دستبرد سے اب تک نہ معلوم کس طرح محفوظ تھا۔ ادھر تو میں نے چاولل گھٹنے پر سے صاف کئے اور ادھر انہوں نے کہا ۔ ” ہائیں الٹے ہاتھ سے ۔“ کاش کہ وہ حضرت بھتیجے صاحب پیشتر ہی ٹاٹا(مصافحہ )کے لیے داہنا ہاتھ بڑھاتے اور بایاں شوق سے میرے گھٹنے کیا گلے پر رکھ لیتے۔ میں نے جبراً و قہراً ہاتھ ملایا اور دل میں کہا ۔”ظالم‘ تو نے مجھے بے موت مارا۔ میرے پاس ایک ہی پتلون تھا جس کو تونے یو خراب کیا۔“

(4)

میں اطمینان کا سانس لیا ۔ جب یہ عزیز از جان بھتیجا یہ کہہ کر کھانا چھوڑ کر ایک دم سے بھاگا۔”بلا بلا۔ “ یا تو وہ تیز دوڑتا ہی ہوگا‘ یا پھر یہ روایت بالکل صحیح ہے کہ لاحول پڑھنے شیطان بری طرح بھاگتا ہے ۔ میں لاحول پڑھ رہا تھا اور اس کے اثر کا دل ہی دل میں قائل ہورہا تھا۔
”آپ نے ہڈی کی تجارت آخر کیوں چھوڑ دی؟“ انہوں نے ایک ہڈی کا گودا نکالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ۔
قارئین ذرا غور کریں کہ ہڈی کی تجارت کو میں چھوڑتا تو تب جب کہ اگر میں نے کبھی یہ تجارت شروع کی ہوتی۔ کہنے کو ہوا کے کہوں کہ ” حضرت مجھ کو بھلا ہڈی کی تعلق سے کیا تعلق؟ “ مگر توبہ کیجئے وہ اپنے تمام سوالات کا جواب شروع ہی سے خود دے رہے تھے ‘ یا پھر جواب کا بغیر انتطار کئے ہوئے دوسرا سوال کردیتے تھے۔ مجھے بھلا کوئی زریں موقع کیوں دیتے جو میں خلاصی پاتا ۔ قبل اس کے کہ میں نوالہ ختم کرکے کہوں۔ انہوں نے کہا :
” تجارت والا تو تجارت ہی کرتا ہے ۔ ہڈی کی نہ سہی پسلی کی سہی ۔“
یہ کہہ کر انہوں نے زور سے قہقہ لگایا میں ان کے حق کی گہرائی پر غور کررہا تھا کہ وہ ملک الموت آپہنچا۔۔۔ وہ موزی بلا ہاتھ میں لیے ہوئے چنگھاڑتا ہوا اور کھانا شروع کرنے کے بجائے بلے کی تلوار بناکر پینترے بدل بدل کر رقص کرنے لگا۔ وہ گویا بنوٹ کے ہاتھ نکال رہا تھا! میرے میزبان یا یو کہئے کہ سیاد وہ چاول پینے کی بجائے اگر کہیں کھانے کے عادی ہوتے تو ہنسی کی وجہ سے ضرور ان کے گلے میں پھندا پڑ جاتا‘ کیونکہ ان کی دانست میں کھانا کھانے میں ہنسی مخل نہیں ہوسکتی تھی۔ وہ خوب ہنس رہے تھے۔ کہنے لگے کہ ”بخدا اس شریر کو دیکھئے۔“ میں اس کا کیا جواب دیتا کیونکہ دیک ہی رہا تھا اور جانتا تھاکہ جو دم گزر رہا ہے وہ غنیمت ہے ۔ بنوٹ کا قاعدہ ہے کہ سارا کھیل بس نظر کا ہوتا ہے ۔ غنیم سے جب تک آنکھ ملی رہے یا غنیم کے حرکات پر جب تک نظر جمی رہے اس وقت تک خیر ہے ورنہ ادھر آنکھ جھپکی اور ادھر پٹائی۔ یہ
 

زین

لائبریرین
ص۔۸۴

سنتا ہی تھا مگر آج ثابت ہوگیا ۔ دو مرتبہ اس کا بلا میرے سر پر سے ہوکر نکل گیا اور اگر میں سر نہ بچاﺅ ں تو سر قلم تھا۔ انہوں نے صرف ”ہائیں“ کہا۔ میں ٹکٹکی باندھے اس گردنی زدنی بھتیجے کی طرف دیکھ ہی رہا تھا کہ میرے مجی میزبان نے میری کم خوری کا گلہ کرکے کہا ۔”یہ لیجئے کباب نہیں کھائے۔ “ ادھر میری نظر چوکی اور اد ھر اس زور سے میرے منہ پر بلا پرا کہ میری ناک پچی ہوگئی‘ بلکہ مجھ کو ایسا معلوم ہوا کہ شاید میری ناک عینک کے ساتھ اڑی چلی گئی۔ فوراً پہلے تو میں نے اپنی ناک کو دیکھااور اس کو موجود پاکر لپک کر میں نے عینک اٹھائی۔ بھتیجے صاحب بھی گر پڑے تھے ۔ عینک کا ایک تال ٹوٹ گیا تھا۔ یا علی کہہ کر انہوں نے پٹ باز کو سنبھالا اور میں نے اپنی عینک کو۔ ”تم بڑے نالائق ہو۔ “ ڈانٹ کر انہوں نے لڑکے سے کہا ۔ مجھ سے معذرت کی اور پھر اس سے کہا کہ معافی مانگو۔ حالانکہ میں خود ان سے معافی اور پناہ مانگ رہا تھا۔ وہ چپ ہوا تو کہا۔ ”اچھا اب جاﺅ“ اور ایک طرف غور سے دیکھ کر بولے اور پھر کہا ۔۔۔۔”ارے آتی کیو نہیں ۔ بڑی احمق ہو ۔ “ یہ کہتے ہوئے اٹھے۔
اب میرے لیے بھاگنے کا بہترین موقع تھا کیونکہ وہ دوسرے کمرے میں گئے۔ میں چاہتا ہی تھا کہ اس زریں موقع سے فائدہ اٹھاﺅں کیا دیکھتا ہوں کہ وہی خوفناک کتا ٹامی مع چھوٹے کتے کے ڈاگ گاڑی کی رفتارسے ‘ اسی طرف چلا آرہا تھا۔ یا اللہ اب میں کیا کروں ! ایک طرف سے کتے آگئے تھے اور دوسری طرف سے بیگم صاحبہ سےے ملکر غلط فہمی رفع ہونے والی تھی۔ اگر کتوں نے مجھ کو گھیر نہ لیا ہوتا تو میں بھاگ گیا ہوتا۔میرا دل دھڑک رہا تھا اور انہوں نے آدھی آنکھ س جھانک کر مجھے دیکھا۔ میں دم بخود تھا۔ گویا میری روح پرواز کر گئی‘ کیونکہ میں دوڑنے کے امکان پر غور کررہا تھا اور ان کے حملے سے بچنا۔ ایسے کہ کتوں سے بھی بچت ہو۔ صرف ایک بڑا گملا پھاند کر ممکن تھا۔ میں نے گملے کی اونچائی پر نظر ڈالی۔ میاں بیوی میں تیزی سے کچھ باتیں ہوئیں اور وہ کچھ سنجیدہ صورت بنائے ہوئے نکلے ۔میں بھاگنے کے لیے آمادہ ہوکر کھڑا ہوا مگر میرے پیر گویا زمین نے پکڑ لیے ۔ وہ میرے قرین پہنچے۔۔۔ میں نے کتوں کی طرف دیکھا اور پھر گملے کی طرف ۔۔۔ دل میں سوچا کہ پھاند جاﺅں گا اور بائیں طرف سے گھوم کر احاطہ کی دیوار سے نکل جانا ممکن ہے ۔ ۔۔۔وہ آگئے۔۔۔ میں جانتا تھا کہ اگر انہوں نے گھونسا مارا تو میں کلائی سے روکوں گا۔ کلائی ہی ٹوٹ ہی جائے گی مگر منہ بچ جائے گا۔ انہوں نے اپنے جوتے کی چمک کو دیکھا ۔ میں نے کمرے کی طرف دیکھا کہ بیگم صاحبہ جھانک رہی ہیں۔ ”معاف کیجئے گا۔“ میرے میزبان نے نہایت ہی نرمی سے کہا۔ ”شاہد غلط فہمی۔۔۔ مجھ کو غلط فہمی ہوئی۔‘ میں نے سر جھکاکر کہا۔۔۔”مجھ کو خودافسوس ہے ۔“ وہ بولے۔” جناب کا اسم گرمی۔“ میں نے اپنا نام اور پتہ وغیرہ بتایا۔ وہ ایک دم سے بولے ۔ ” آپ کے والد صاحب۔۔۔۔ افوہ!۔۔۔آپ۔۔۔ آپ کے والد صاحب سے

ص۔۸۵

تو دیرینہ مراسم ہیں۔ آپ س ملکر بہت خوشی ہوئی۔ “ انہوں نے ہاتھ ملاکر کہا۔ ” کس قدر آپ میرے دوست حامد کے ہم شبیہ ہیں! بالکل وہی ۔۔۔ ہو بہو وہی ! آنکھیں ذرا آپ کی چھوٹی ہیں اور ذرا پیشانی کم کشادہ ہے۔ ورنہ آپ بالکل وہی ہیں اور ہاں وہ عینک نہیں لگاتے اور ذرا ہونٹ ان کے پتلے ہیں ورنہ بالکل آپ کی صورت شکل ہیں۔ بس صرف کچھ آپ کی ناک ان سے زیادہ بڑی ہے اور چوڑی چکی ہے اور۔۔۔تو وہ عینک کی وجہ سے ۔۔۔آپ کی عینک کیا ہوئی ؟“ میں نے بتایا کہ چونکہ اس کا ایک تال ٹوٹ گیا ہے میں نے جیب میں رکھ لی ہے ۔ انہوں نے عینک کے ٹوٹنے پر اظہار تاسف کیا ‘ پھر انہوں نے بڑ ے اخلاق سے کہا۔” کوئی حرج نہیں‘ نہ سہی پہلے ملاقات مگر اب تو ہم آپ کے بہترین دوست ہیں۔“ یہ کہہ کر انہوں نے پھر گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔
میں نے اجازت چاہی تو انہوں نے اصرار کیا ‘ مگرمیں نہ مانا تو کہنے لگے کہ گاڑی تیار کرائے دیتا ہوں‘ مگر میری کم بختی میں نہ مانا۔ انہوں نے بہت کچھ کہا مگر میں نہ مانا۔ تھوڑی دور تک باغ کے پہلے موڑ تک وہ مجھ کو رخصت کرنے آئے‘ اور دوبارہ آنے کا پختہ وعدہ کیا۔ وہ تو واپس ہوئے اور میں تیزی سے پھاٹک کی طرف چلا‘ مگر حضرت وہ کتے اپنے ساتھ نہ لے گئے اور وہ دم ہلاتے اور کان پھڑ پھڑاتے میرے پیچھے پیچھے چلے آرہے تھے۔ میرا دل الٹنے لگا اور میں نے اپنی رفتار کچھ تیز کی۔ کتے بھی کم بخت تیز ہوتے‘ میں اور تیز ہوا اور وہ بھی اور تیز ہوئے۔ مجبور ہوکر میں بھاگا تو وہ بھی بھاگے۔ اب میں ایسا بے تحاشا بھاگ رہا تھا کہ مجھ کو سر پیر کی خبر نہ تھی۔ نظر کمزور ہونے کی وجہ سے عینک لگاتا تھا۔ بغیر عینک کے راہ دھندلی نظر آرہی تھی اور پھر اندھیرا ہورہا تھا‘ مگر جناب جس کے پیچھے کتے لگے ہوں اس کو کچھ ویسے بھی دکھلائی نہیں دیکھتا۔ کتوں سے بچنے کے لیے میں نے جان توڑ کوشش کی اور پھاٹک کی راہ چھوڑ کر ایک طرف احاطہ کی دیوار نیچی دیکھ کر اس طرف بھاگا۔ کتے کم بخت اب بھاگ نہیں رہے تھے بلکہ بھونک بھی رہے تھے۔ نرم نرم کوڑے کے انبار پر میں تیزی س چڑھا اور اپنی جان سے ہاتھ دھو کر ایسا بے تحاشا بھاگا کہ دیوار کو بغیر دیکھے پھاند گیا۔ گھورے اور کوڑے پر سے لڑھکتا ہوا کوئی پندرہ فٹ کی گہرائی میں گرا‘ بوکھلا کر اٹھا اور گرا۔ ایک نظر تو دیکھا کہ کتے اوپر ہی رک گئے ہیں اور پھر وہاں سے جس طرح بن پڑا جان بچا کر ایسا بھاگا کہ سڑک پر آرام دم لیا۔ سارا بدن اور کپڑے کوڑے میں اٹ گئے تھے۔ پتلون کا ستیا ناس ہوچکا تھا۔ جھاڑتا پونچھتا ہوا گھر پہنچا۔
وہ دن اور آج کا دن میں نے قسم کھالی ہے کہ خواہ کوئی کچھ کہے۔ میں باتیں اور وہ بھی فضول باتیں کرنے سے باز نہ رہوں گا‘ اور اگر ذرا بھی میں کسی کو خاموش پاتا ہوں تو اس کو بولنے پر مجبور کرتا ہوں‘ اور اپنے سوالوں کا جواب تو ضرور ہی لیتا ہوں ۔


ص۔۸۶


وکالت

منظور ہے گزارش احوال واقعی
اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے

وکالت بھی کیا ہی عمدہ۔۔۔آزاد پیشہ ہے ۔ کیوں؟ سنیے میں بتاتا ہوں ۔

(۱)

چار سال کا ذکر ہے کہ وہ کڑا کے کا جاڑا پڑ رہا تھا کہ صبح کے آٹھ بج گئے تھے مگر بچھو نے سے نکلنے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔ لحاف میں بیٹھے بیٹھے چائے پی۔ دو مرتبہ خانم نے لحاف گھسیٹا مگر نہ اٹھنا تھا نہ اٹھا۔ غرض چائے پینے کے بعد اسی طرح اوڑھے لپیٹے بیٹھ کر سگریٹ سلگایا ہی تھا کہ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بلی الماری کے پیچھے سے جھانک رہی ہے !
فوراً اٹھا اور دبے پاﺅں دروازہ پر پہنچ کر اس کو بند کردیا۔ دوسرے دروازہ کو بھی لپک کر بند کیا جب بلی گھر گئی تو حلق پھاڑ کر چلایا۔
”خانم دوڑنا۔۔۔جلدی آنا۔۔۔۔بلی۔۔۔۔بلی ‘ گھیری ہے ۔“
“کیا ہے ؟“ خانم نے صح کے اس پار سے آواز دی ۔ “ ابھی آئی۔“
زور سے میں پھر گلا پھاڑ کر چلایا ۔ ” بلی گھیری ہے ۔ ۔۔بلی ۔۔۔ارے بلی۔۔۔بلی۔۔۔ کیا بہری ہوگئی ؟ “
خانم کو کبوتروں کا بے حد شوق تھا اور یہ کمینی بلی تین کبوتر کھا گئی تھی۔ علاوہ اس کے دو مرغیاں‘چار چوزے اور مکھن دودھ وغیرہ علیحدہ۔ خانم تو بوکھلائی ہوئی پہنچی اور کانپتے ہوئے اس نے مجھ سے پوچھا: ” کیا بلی ؟“
”پکڑ لی ! پکڑلی!“
میں نے کہا : ”ہاں ۔۔۔۔ گھیر لی ۔۔۔ بلی بلی! ۔۔۔۔جلدی۔۔۔“ یہ کہہ کر میں نے خانم کو اندر لے کر دروازہ بند کرلیا۔
خانم کی اماں جان نے منع کردیا ہے کہ بلی کو جان سے مت مارنا ادھر بلی کا یہ حال کہ روئی

ص۔۸۷

کے گالے کی مار سے قابو میں نہیں آتی۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے اور میں نے بھی ایک نئی ترکیب نکالی ہے کہ بلی کی بھی عقل ٹھکانے آجائے اور خانم کی امان جان بھی ناراض نہ ہوں۔ وہ یہ کہ کمرے کو چاروں طرف سے بند کرکے صرف ایک دروازے کے کواڑ ذرا س کھول دیجئے ‘ صرف اتنا کہ بلی اس میں سے نکل جائے اور خود دروازے کے پاس ایک کرسی پر کھڑے ہوکر کواڑ پر ہاتھ رکھے اپنی بیوی سے کہئے کہ لکری لے کر بلی پر دوڑے اور جب ڈر لگے تو لکڑی کو تاک کر بلی کے ایسے مارے کہ سیدھی لیپ میں جا لگے اور دور ہی سے تکیے ‘ جوتے‘ گلاس ‘ ضروری مقدموں کی مسلیں‘ تعزیرات ہند‘ قانون شہادت‘ باضابطہ دیوانی اور یا اسی قسم کی دوسری چیزیں بلی کی طرف پھینکے اور پھر بھی جب کہ کچھ نہ لگے اور کوئی چیز بھی باقی نہ رہے تو سگریٹ کا ڈبہ معہ سگریٹوں کے تاک کے بلے کے مارے ۔لازمی ہے کہ ایک سگریٹ تو بلی کے ضرور ہی لگے گا۔ بلی تنگ آکر خواہ مخواہ اسی دروازے سے بھاگے گی جہاں آپ اس کے منتظر کو اڑ کر پکڑے ہیں۔ جب آدھی بلی دروازہ کے باہر ہو اور آدھی اندر تو زور سے دروازہ کو بند کردیجئے اور بلی کو دروازے ہی میں واب لیجئے۔ بیوی سے کہئے کہ دروازہ زور سے دبائے رہے اور خود ایک تیز دھار استرے سے بلی کی دم خیار ترکی طرح کاٹ لیجئے ۔ پھر جو دم کٹی آپ کے منہ کی طرف رخ بھی کر جائے تو میرا ذمہ ۔
چنانچہ میں نے بھی یہی کیا ادھر بلی دروازے کے بیچ میں آئی اور پھر زور سے چلایا ” خانم لیجیو! خانم لیجئیو!“خانم دوڑ کر آئی۔ میں نے کہا کہ ” تم دروازہ دابو مگر زور سے ‘ورنہ بلی لوٹ کر کھاٹ کھائے گی “ غرض خانم نے زور سے دروازہ دبایا‘ بلی تڑپ رہی تھی اور عجیب عجیب قسم کی آوازیں نکال رہی تھی ادھر میں استرا لے کر دوڑا بس ایک ہاتھ میں دم کھٹ سے صاف اڑا دی۔
دم تو بالکل صاف اڑ گئی مگر بد قسمتی ملاحظہ ہو دفتر کا وقت تھا اور منشی جی ایک مقدمے والے کو پھانسی لارہے تھے۔ بلی کو اسی طرح دباہوا دیکھ کر سیڑھیوں پر بے طرح لپکے کہ یہ ماجرا کیا ہے ۔ عین اس وقت جب کہ میں نے دم کاٹی انتہائی زور لگا کر بلی تڑپ اٹھی اور ”غوں فش“ کر کے منشی جی پر لگی اور وہ موکلوں پر ! غلغپ!!
خانم کے منہ سے منشی جی کی جھلک دیکھ کر ایک دم سے نکلا۔ ” منشی جی ۔“ میرے منہ سے نکلا۔”موکل ! مقدمہ۔۔۔“
خانم نے پھر کہا ۔ ” مقدمہ ۔۔۔“
اتنے میں منشی جی نے دروازے میں سر ڈال کر اندر دیکھا ۔ میرے ایک ہاتھ میں استرہ تھا اور دوسر ے ہاتھ میں بلی کی دم ! خانم برابر کھڑی تھی۔ منشی جی آگ بگولا ہوگئے‘ اندر آئے غصہ
 

زین

لائبریرین
صفحہ 88

کے مارے ان کی شکل چڑی کے باشاہ کی سی تھی۔
"لاحول ولا قوۃ" مٹھی بینچ کر منشی جی بولے "موکل"۔ اور پھر دانت پیس کر بہت زور لگایا مگر نہایت آہستہ سے کہ موکل جو باہر کھڑا تھا وہ سن نہ لے۔ "موکل"۔۔۔ لاحول ولا قوۃ۔۔۔ کوئی مقدمہ نہ آئے گا۔۔۔ ۔ یہ وکالت ہورہی ہے؟ منشی جی نے ہاتھ سے کمرہ کی لوٹ پوٹ حالت کو دیکھ کر کہا۔
خام غائب ہوچکی تھی۔
میں بھلا اس کا کیا جواب دیتا۔
"یہ وکالت ہورہی ہے۔" منشی جی نے پھر اسی لجہ میں کہا، 500 کا مقدمہ ہے۔ جلدی ہاتھ سے جھنک کر کہا۔
پانچ سو روپے کا نام سن کر میں بھی چونکا۔ روپوں کا خیال آنا تھا کہ استرہ اور بلی کی دم الگ پھینکی اور دوڑ کر دوسری طرف سے دفتر کا دروازہ کھولا۔
منشی جی نے جلدی سے موکلوں کو بٹھایا اور دوڑ کر مجھ سے تاکید کی کہ فوراً آؤ پانچ سو روپے ملنے والے ہورہے تھے اور جوں توں کرکے جلدی جلدی میں نے کوٹ پتلون پہنا کیونکہ منشی جی پھر آءے اور "چلتے نہیں" کہہ کر میرے آئے ہوش اڑادیے۔ میں بغیر موزے پہنے سلیپر میں چلا آیا بلکہ یوں کئے کہ منشی جی نے مجھے کھینچ لائے۔ نہایت ہی سنجیدگی سے میں نے موکلوں کے سلام کا جواب دیا۔ ایک بڑی توند والے مارواڑی لالہ تھے اور ان کے ساتھ دو آدمی تھے جو ملازم معلوم ہوتے تھے۔ لالہ جی بیٹھ گئے اور انہوں نے اپنے مقدمہ کی تفصیل سنائی۔
واقعہ دراصل یوں تھا کہ کسی سمجھ دار آدمی نے لالہ جی کو الو کی گالی دی تھی۔ گالی دہرانا خلاف تہذیب ہے ناظرین کی آگاہی کے لیے بس اتنا کافی ہے کہ اس گالی کی رو سے لالہ صاحب کی ولدیت الو ہوئی جاتی تھی۔
میں نے لالہ جی سے بہت سے سوالات کیے اور خوب اچھی طرح غور و فکر کے بعد ان سے کہا: "مقدمہ نہیں چل سکتا۔"
کیوں؟ لالہ جی نے اعتراض کیا۔
"اس وجہ سے" میں نے کہا۔ اس وجہ سے نہیں چل سکتا کہ اول تو آپ کے پاس کوئی گواء نہیں اور پھر دوسرے یہ کے تمام ہائی کورٹ اس بارے میں متفق ہیں کہ اس قسم کے الفاظ روزانہ اعلیٰ طبقہ کے لوگ بات چیت کے دوران میں آزادی سے استعمال کرتے ہیں اور اس سے توہین نہیں ہوتی۔

صفحہ 89

لالہ جی کچھ برداشتہ خاطر ہوکر منشی جی سے بولے۔ "واہ جی تم بھی ہمیں کہاں لے آئے ہمیں تو ایسے وکیل کے پاس لے چلو جو مقدمہ چلادے۔"
میری نظر منشی جی پر پڑی اور ان کی میرے اوپر۔ وہ آگ بگولہ ہورہے تھے مگر ضبط کررہے تھے۔ نظر بچا کر انہوں نے جھنجھلا کر میرے اوپر دانت پیسے پھر ایک دم سے سامنے کی الماری پر سے بلا کسی امتیاز دو تین کتابیں جو ساب سے زیادہ موٹٰ تھیں میرے سامنے ٹیک دیں اور بولے۔
وکیل صاحب، لالہ صاحب اپنے ہی آدمی ہیں ذرا کتابوں کو غور سے دیکھ کر کام شروع کیجئے۔ یہ کہتے ہوئے میرے سامنے ڈکشنری کھول کر رکھ دی کیونکہ اس کتاب کی جلد بھی سب سے موٹی تھی۔
پھر لالہ صاحب کی طرف مسکرا کر منشی جی نے عینک کے اوپر سے دیکھتے ہوے کہا "لالہ صاحب معاف کیجئے گا یہ بھی دکانداری ہے اور۔۔ پھر ۔۔ آپ کا مقدمہ۔۔۔ جی سو میں چلے ہزار میں چلے (یہ مقدمہ بالکل نہ چلا اور میں ہار گیا) پھر میری طرف مخاطب ہوکر منشی جی اسی طرح مسکراتے ہوئے بولے۔
سکیل صاحب، یہ لالہ صاحب گھر ہی کے آدمی ہیں۔ میری ان کی 18 برس سے دوستی ہے کوئی آج کی ملاقات تھوڑی ہے۔
اور واقعی لالہ جی کے منشی جی سے نہایت ہی گہرے اور دیرینہ تعلقات تھے اور وہ یہ کہ منشی جی اس سٹرک پر اٹھاہ برس سے چلتے تھے جس پر لالہ صاحب کی دکان تھی۔ چناچہ لالہ صاحب نے ان دیرینہ تعلقات کی تصدیق کی۔ میں نے اس دوران ڈکشنری کو لاپرواہی سے دیکھ رہا تھا۔ میرے سامنے حروف (بی) کی فہرت تھی۔ معاً لفظ (برڈ) یعنی چڑیا پر میری نظر پڑی اور پھر لالہ جی پر۔ قطی یہ لالہ جی چڑیا تھا کم از کم میرے لیے اور وہ بھی سونے کی۔
ان سے مجھے پانچ سو روپے وصول ہونے والے تھے! میں نے واقعی بڑی حماقت کی تھی جو ان سے کہہ دیا تھا کہ مقدمہ نہیں چل سکتا۔ یہ میں نے محسوس کیا۔
مجھے خاموش دیکھ کر لالہ صاحب پژمردہ ہوکر بولے: وکیل صاحب تو کچھ بولتے نہیں۔
"ان کے والد خان بہادر ہیں۔" میں نے منشی جی سے سوال کیا۔
لالہ جی نے کہا یہ ہمارے محلے میں خود ایک رائے بہادر رہتے ہیں۔ لالہ جیے یہ اس طرح فخریہ کہا گویا وہ خود رائے بہادر لڑکے ہیں۔
میں نے موقع پر کہا: لالہ صاحب آپ کے گواہ کوئی نہیں ہین اس کا تو۔۔۔
منشی جی نے میری بات کاٹ کر کہا: "اس بارے میں سب طے ہوچکا ہے! چار گواہ بنا
 
Top