حجاب

محفلین
کہا تھا یہ دسمبر میں
ہمیں تم ملنے آؤ گے
دسمبر کتنے گزرے ہیں
تمہاری راہوں کو تکتے
نجانے کس دسمبر میں
تمہیں ملنے کو آنا ہے
ہماری تو دسمبر نے
بہت اُمیدیں توڑیں ہیں
بڑے سپنے بکھیرے ہیں
ہماری راہ تکتی منتظر پُر نم نگاہوں میں
ساون کے جو ڈیرے ہیں
دسمبر کے ہی تحفے ہیں
دسمبر پھر سے آیا ہے
جو تم اب بھی نہ آئے تو
پھر تم دیکھنا خود ہی
تمہاری یاد میں اب کے
اکیلے ہم نہ روئیں گے
ہمارا ساتھ دینے کو
ساون کے بھرے بادل
گلے مل مل کے روئیں گے
پھر اتنا پانی برسے گا
سمندر سہہ نہ پائے گا
کرو نہ ضد چلے آؤ
رکھا ہے کیا دسمبر میں
دلوں میں پیار ہو تو پھر
مہینے سارے اچھے ہیں
کسی بھی پیارے موسم میں
چپکے سے چلے آؤ
سجن اب مان بھی جاؤ
دسمبر تو دسمبر ہے
دسمبر کا کیا بھروسہ
دسمبر بیت ہی جائے گا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

حجاب

محفلین
دسمبر کی کچھ شاعری شیئر بھی کریں آپ سب یہاں تاکہ میری ڈائری میں کچھ اضافہ تو ہو دسمبر کی شاعری میں۔
 

نوید ملک

محفلین
دسمبر آن پہنچا ہے

ابھی ہجر کا قیام ہے اور دسمبر آن پہنچا ہے
یہ خبر شہر میں عام ہے دسمبر آن پہنچا ہے

آنگن میں اُتر آئی ہے مانوس سی خوشبو
یادوں کا اژدہام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے

خاموشیوں کا راج ہے ،خزاں تاک میں ہے
اداسی بھی بہت عام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

تیرے آنے کی امید بھی ہو چکی معدوم
نئے برس کا اہتمام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

خُنک رت میں تنہائی بھی چوکھٹ پہ کھڑی ہے
جاڑے کی اداس شام ہے ،دسمبر آن پہنچا ہے

تم آؤ تو مرے موسموں کی بھی تکمیل ہو جائے
نئے رُت تو سرِ بام ہے ، دسمبر آن پہنچا ہے
 

حجاب

محفلین
دسمبر کی شاموں میں اتنی دل آویز افسردگی ہے
کہ جی چاہتا ہے
کہیں بیٹھ کے خوب جی بھر کے روئیں
ہواؤں میں یوں چھوٹی چھوٹی
بدلیاں تیرتی پھر رہی ہیں
کہ جیسے کسی کی یاد سے
دل میں ٹھنڈک کی اک لہر سی دوڑ جائے
فِضا اس قدر خوبصورت ہے
جیسے کوئی دوست بیٹھا ہوا
دوست کو اپنے غم کی کہانی سنائے
مگر تم کہاں ہو
تم آؤ
میں بھی تمہیں اپنے غم کی کہانی سناؤں
تم آؤ ہم بھی کہیں بیٹھ کر
خوب جی بھر کے روئیں۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

حجاب

محفلین
شکریہ پاکستانی ، آپ کا شاعری کلیکشن بھی کافی اچھا ہے ، کچھ دسمبر پر بھی شیئر کریں۔
 

پاکستانی

محفلین
لیں جی حاضر ہے




اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں
ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا، ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی
دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا، شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو برف کیسے پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے


عرش صدیقی
 

عمر سیف

محفلین
نئی حکایت محبتوں کی
شکایتوں کی
بجھے بجھے سے حروف لے کر
کہر میں ڈوبی سیاہیوں کو
ورق ورق پر اتارنا ہے
اداس شاموں کے پھول چُن کر

سنو دسمبر
اسے پکارو
اسے بلاؤ
سنو دسمبر اسے ملا دو
اب اس سے پہلے کے سانس نکلے
اب اس سے پہلے کے سال گزرے
وہی لکیریں
وہی ستارہ
میری لکیروں میں قید کر دو
یاں آخری شب کے آخری پل
کوئی بڑا اختتام کر دو
یہ زندگی بھی تمام کر دو

سنو دسمبر اس ملا دو ۔۔۔
 

حجاب

محفلین
وہ آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گِراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے سے
کیسے کیسے گُماں گزرتے ہیں
رفتگاں کے بکھرے سایوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنُما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں
نام جو کٹ گئے ہیں اُن کے حرف
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک سے لائینیں لگاتے ہیں
پھر دسمبر کے آخری دن ہیں
ہر برس کی طرح سے اب کے بھی
ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گردِ ماضی سے اٹ گئے ہونگے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سِمٹ گئے ہونگے
ہر دسمبر میں سوچتا ہوں میں
اک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری دوست دیکھتے ہونگے
اُن کی آنکھوں کے خواب دنوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
اور کچھ بے نِشاں صفحوں سے
نام میرا بھی کٹ گیا ہوگا۔
××××××( امجد اسلام امجد )×××××
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

عمر سیف

محفلین
تیری یاد اور برف باری کا موسم
سلگتا رہا دل کے اندر اکیلے
ارادہ تھا جی لوں گا تجھ سے بچھڑ کر
گزرتا نہیں اک دسمبر اکیلے
 

عمر سیف

محفلین
وہ لمحے ۔۔۔۔
سوچ کی دہلیز پہ ٹھہرے ہوئے ہیں!
دسمبر کے مہینے میں
ہزاروں سال پہلے جب
تیرے وعدے کے ہونٹوں نے
میری آنکھوں سے بہتی زندگی کے ہاتھہ چومے تھے!
میری بے رنگ باتوں کے کنارے
تم نے خوابوں کے
سہارے اور اشکوں کے ستارے رکھہ دیئے تھے!
اور۔۔
ہوا کو اپنی چاہت کی
حفاظت کا اشارہ کر دیا تھا
ہوا کی خنکیوں میں اب بھی تیری نرم باتیں
آہٹوں کا جال بنتی ہیں!
سماعت۔۔ اب بھی تیرے
قہقہوں کا شور سنتی ہیں!
خیال اب تک تمہاری انگلیوں سے
میرے دل کے سرخ آنسو پونچھتا ہے!
نگاہیں برف کے پھیلے
چمکتے کینوس پر جا بجا
تیری رفاقت کی ضرورت پینٹ کرتی ہے
ٹھٹھرتے پانیوں کے تن پہ بکھری دھوپ
تیرے بغیر روتی ہے
کہاں ہوتا ہے تو۔۔
محبّت کی سلگتی رہگزر کے کنارے پہ
دسمبر۔۔۔
اب بھی تیرا منتظر ہے
 
Top