کاشفی

محفلین
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)

وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا
ہم آج پیر ہوئے کیا کبھی شباب نہ تھا

شبِ فراق میں کیوں یارب انقلاب نہ تھا
یہ آسمان نہ تھا یا یہ آفتاب نہ تھا

لحاظ ہم سے نہ قاتل کا ہوسکا دمِ قتل
سنبھل سنبھل کے تڑپتے وہ اضطراب نہ تھا

اُسے جو شوقِ سزا ہے مجھے ضرور ہے جرم
کہ کوئی یہ نہ کہے قابلِ عذاب نہ تھا

شکایت اُن سے کوئی گالیوں کی کیا کرتا
کسی کا نام کسی کی طرف خطاب نہ تھا

نہ پوچھ عیش جوانی کا ہم سے پیری میں
ملی تھی خواب میں وہ سلطنت شباب نہ تھا

دماغ بحث تھا کس کو وگر نہ اے ناصح
دہن نہ تھا کہ دہن میں مرے جواب نہ تھا

وہ کہتے ہیں شبِ وعدہ میں کس کے پاس آنا
تجھے تو ہوش ہی اے خانماں خراب نہ تھا

ہزار بار گلا رکھ دیا تہِ شمشیر
میں کیا کروں تری قسمت ہی میں ثواب نہ تھا

فلک نے افسرِ خورشید سر پہ کیوں رکھا
سبوے بادہ نہ تھا ساغرِ شراب نہ تھا

غرض یہ ہے کہ ہو عیش تما م باعث مرگ
وگرنہ میں کبھی قابلِ خطاب نہ تھا

سوال وصل کیا یا سوال قتل کیا
وہاں نہیں کے سوا دوسرا جواب نہ تھا

ذرا سے صدمے کی تاب اب نہیں وہی ہم میں
کہ ٹکڑے ٹکڑے تھا دل اور اضطراب نہ تھا

کلیم شکر کرو حشر تک نہ ہوش آتا
ہوئی یہ خیر کہ وہ شوق بے نقاب نہ تھا

یہ بار بار جو کرتا تھا ذکر مے واعظ
پئے ہوئے تو کہیں خانماں خراب نہ تھا

امیر اب ہیں یہ باتیں جب اُٹھ گیا وہ شوخ
حضور یار کے منہ میں ترے جواب نہ تھا


AmeerMinaie-WoKonThaJoKharabatMainKharabNaTha.jpg

میراۃ الغیب ۔ امیر مینائی ، صفحہ 94
 

محمد وارث

لائبریرین
وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا
ہم آج پیر ہوئے کیا کبھی شباب نہ تھا

دماغ بحث تھا کس کو وگر نہ اے ناصح
دہن نہ تھا کہ دہن میں مرے جواب نہ تھا

ہزار بار گلا رکھ دیا تہِ شمشیر
میں کیا کروں تری قسمت ہی میں ثواب نہ تھا

لاجواب، واہ واہ واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شکریہ جناب!
 

کاشفی

محفلین
وہ کون تھا جو خرابات میں خراب نہ تھا
ہم آج پیر ہوئے کیا کبھی شباب نہ تھا

دماغ بحث تھا کس کو وگر نہ اے ناصح
دہن نہ تھا کہ دہن میں مرے جواب نہ تھا

ہزار بار گلا رکھ دیا تہِ شمشیر
میں کیا کروں تری قسمت ہی میں ثواب نہ تھا

لاجواب، واہ واہ واہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شکریہ جناب!

بیحد شکریہ جناب! خوش رہیں۔
 
Top