احمد ندیم قاسمی وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے

فرحت کیانی

لائبریرین
وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے
شجر سے ٹوٹ کے جو فصلِ گُل پہ روئے تھے۔

تمام عمر وفا کے گنہگار ر ہے
یہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھے۔

یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پُرانے لوگ، نئے آدمی سے جلتے تھے۔

ندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی
کہ اک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے۔

۔۔۔احمد ندیم قاسمی

 

فرحت کیانی

لائبریرین
وہ کوئی اور نہ تھا چند خشک پتے تھے
شجر سے ٹوٹ کے جو فصلِ گُل پہ روئے تھے

ابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا
ابھی ابھی تو ہم اک دوسرے سے بچھڑے تھے

تمہارے بعد چمن پر جب اک نظر ڈالی
کلی کلی میں خزاں کے چراغ جلتے تھے

تمام عمر وفا کے گنہگار رہے
یہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھے

شبِ خاموش کو تنہائی نے زباں دے دی
پہاڑ گونجتے تھے، دشت سنسناتے تھے

وہ ایک بار مرے جن کو تھا حیات سے پیار
جو زندگی سے گریزاں تھے روز مرتے تھے

نئے خیال اب آتے ہیں ڈھل کے ذہن میں
ہمارے دل میں کبھی کھیت لہلہاتے تھے

یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے

ندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی
کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے


احمد ندیم قاسمی
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت خوبصورت غزل ہے فرحت، شکریہ شیئر کرنے کیلیئے

تمہارے بعد چمن پر جب اک نظر ڈالی
کلی کلی میں خزاں کے چراغ جلتے تھے


یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے

لا جواب، بہت خوب
 

محمداحمد

لائبریرین
ابھی ابھی تمہیں سوچا تو کچھ نہ یاد آیا
ابھی ابھی تو ہم اک دوسرے سے بچھڑے تھے

تمام عمر وفا کے گنہگار رہے
یہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھے

یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پرانے لوگ نئے آدمی سے ڈرتے تھے

ندیم جو بھی ملاقات تھی ادھوری تھی
کہ ایک چہرے کے پیچھے ہزار چہرے تھے

واہ فرحت صاحب

بہت اچھا انتخاب ہے !

خوش رہیے!
 

محمداحمد

لائبریرین
تمام عمر وفا کے گنہگار ر ہے
یہ اور بات کہ ہم آدمی تو اچھے تھے۔

یہ ارتقاء کا چلن ہے کہ ہر زمانے میں
پُرانے لوگ، نئے آدمی سے جلتے تھے۔



بہت خوب انتخاب ہے!
 
Top