بشیر بدر وہ چہرہ ساتھ ساتھ رہا ، جو ملا نہیں

وہ چہرہ ساتھ ساتھ رہا ، جو ملا نہیں
کس کو تلاش کرتے رہے کچھ پتا نہیں

شدت کی دھوپ ، تیز ہواؤں کے باوجود
میں شاخ سے گرا ہوں ، نظر سے گرا نہیں

‌آخر غزل کا تاج محل بھی ہے مقبرہ
ہم زندگی ہیں ، ہم کو کسی نے جیا نہیں

جس کی مخالفت ہوئی ، مشہور ہوگیا
ان پتھروں سے کوئی پرندہ گرا نہیں

تاریکیوں میں اور چمکتی ہے دل کی دھوپ
سورج تمام رات یہاں ڈوبتا نہیں

کس نے جلائیں بستیاں ، بازار کیوں لُٹے
میں چاند پر گیا تھا مجھے کچھ پتا نہیں
 
Top