میر حسن وہ پیار اب رہا نہ ترا اور نہ چاہ وہ ۔ میر حسنؔ

فرخ منظور

لائبریرین
وہ پیار اب رہا نہ ترا اور نہ چاہ وہ
باتیں ہی ایک رہ گئیں کہنے کو آہ وہ

پوچھا جو حال اُس نے تو میں اور چپ ہوا
تا ضد میں آ کے لگ ہی پڑے خواہ مخواہ وہ

بے چین ہم کو آپ ہی کرتا ہے ناز سے
رکھتا ہے اور سر پہ ہمارے گناہ وہ

کہیو صبا کہ جسکو تو بٹھلا گیا تھا سو
جوں نقشِ پا پڑا تری دیکھے ہے راہ وہ

مدت سے اُسکی ابرو سے واقف ہی ہم نہیں
شمشیر کی رہی نہیں ہم کو نگاہ وہ

احوال کہہ کے اپنا سبک ہوں میں کس لیے
کیا دیکھتا نہیں مرا حالِ تباہ وہ

پکا ہے ایک اُسکو سمجھتا ہوں خوب میں
اُستاد اپنے کام میں ہے رشکِ ماہ وہ

توڑی نہیں ہے صاف رکھی ہے ابھی لگی
آتا ہے اس طرف بھی نکل گاہ گاہ وہ

تو ہی نباہ اُس سے جو چاہے تو کر حسنؔ
اس پر نہ پھولیو کہ کرے گا نباہ وہ

(میر حسنؔ)
 
آخری تدوین:
Top