وہ پہلی چنگاری - ڈان اخبار


یہ ویمن ریسورس سینٹر میں ہونے والے شرکت گاہ کا روز کا معمول تھا۔ ان دنوں ہمارے پاس کوئی آفس نہیں تھا، ہم ایک دوسرے کے گھر پر ملتے تھے۔ لیکن باتیں معمول کے مطابق نہیں تھی، اور ماحول میں پریشانی تھی – ہم سب اس خبر سے پریشان تھے: زنا کے الزام میں ایک جوڑے کو کل غیر انسانی سزا ملنے والی تھی: عورت جوکہ حمل سے تھی اسے سو کوڑوں کی سزا جبکہ اس کے شوہر کو مرنے تک پتھروں سے مارنے کی سزا سنائی گئی تھی۔
فہمیدہ کے والد نے عدالت میں اللہ بخش کے خلاف اغواء کا کیس درج کرایا تھا۔ اس جوڑے پر زنا کا کیس تھا کیوں کہ حال ہی میں بننے والے حدود قانون کے تحت ان کی شادی جعلی تھی۔
یہ خبر ایک توپ کے گولے کی طرح گری۔ فوجی آمر ضیاء الحق منظر میں آئے جب 1977 ء اور 1979ء میں انہوں نے اسلامائزیشن کا عمل شروع کیا۔ حالانکہ عوام کو اس بارے میں اب آگاہی ہے لیکن مڈل کلاس شہری زندگی میں زیادہ فرق نہیں آیا۔ اس کے علاوہ پڑھی لکھی کام کرنے والی خواتین بھی 1979 میں منظور ہونے والے تمام قوانین کا اثر نہیں سمجھ پائیں، جس کے تحت اس چھوٹی عمر کے جوڑے کو سزا ہوئی۔
شرکت گاہ کی خواتین اپنے آپ کو کمزور اور غیر یقینی محسوس کررہیں تھیں لیکن غصے کی جیت ہوئی۔ کراچی میں تمام عورتوں کے گروپوں کو ایک ہنگامی اجلاس کے لیے طلب کیا گیا، اب اس وقت یہ بڑا کمرا کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ ہم نے اس بات کا عہد کیا کہ ہم پیشہ ورانہ کسی بھی ادارے کے ساتھ کام کرتے ہوں لیکن ہم مل کر ایک پریشر گروپ بنائیں گے – اور پھر ویمن ایکشن فورم (ڈبلیو اے ایف) بنا۔ اس کا مینڈیٹ تھا: خواتین کے لئے انصاف اور مساوات کو یقینی بنانا۔
فہمیدہ اللہ بخش کا کیس مکمل ڈبلیو اے ایف نے کیا، اور جوڑے کو باعزت بری کردیا گیا۔
یہ بہت سارے کیسوں میں ایک کیس ہے۔ جیسے جیسے ہمیں عورتوں کو اثر کرنے والے مسائل کو اجاگر کرنے کی طاقت ملی، ہمارا یقین پختہ ہوتا رہا کہ ہاں، ہم بھی کچھ کرسکتیں ہیں۔۔۔
اس وقت تک ہماری ساتھیوں نے لاہور اور اسلام آباد میں چیپٹر کھول لیے تھے۔ سب ہی عورتوں کو انصاف دلانے اور برابری کا حق دلانے کے لیے کوشاں ہیں۔ میڈیا ہماری مضبوط سپورٹ تھا۔ ہم نے پریس کلب میں اجلاس کیے، باہر مظاہرے کیے، مارچ کیے، اور بہت سے موقعوں پر ہماری قسمت اچھی رہی اور ہمیں پریس کانفرنس میں اچھی کوریج ملی۔
ہم میں سے بہت سے لوگوں نے ان سالوں میں لکھنا شروع کیا۔ مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ دی اسٹار ڈیلی کی ٹیم – آصف نورانی، کلیم عمر، فیسا اور وائی ایل (ہم نے انہیں ہمارے آرٹیکل میں کارٹون بنانے کے لیے پریشان کیا) زوہرا یوسف (ایچ آر سی پی کی سربراہ) اور ثانیہ حسین نے ہمیں بے انتہا سپورٹ اور حوصلہ افزائی سے نوازا اور ہمارے نظریے آہستہ آہستہ پریس میں چھپنے شروع ہوئے۔
وہ لوگ جو سماجی ترقی کے شعبے سے تعلق رکھتے تھے انہوں نے اپنی بڑھتی معلومات کو عورتوں کے مسائل کے لیے استعمال کیا اور اسے انسانی حقوق سے جوڑا۔ وہ سال بہترین سال تھے جس میں جدوجہد بھی تھی اور کچھ کیسوں میں خاندان کی اپوزشن بھی تھی۔
ہم میں بہت کی نئی نئی شادی ہوئی، بچے ہوئے – لیکن کسی چیز نے ہمیں روکنے نہیں دیا۔ ہم اپنے بچوں کو اجلاس میں مظاہروں میں لے کر جاتے۔
بیچ میں بہت سے اتار چڑھاؤ آئے۔ بارہ فروری سن 1983 میں لاہور میں مظاہرہ کرنے والے ہمارے دوستوں کو مارا گیا – وہ دن جسے ہم پاکستان ویمن ڈے کے نام سے مناتے ہیں۔
عورتوں کی جدوجہد کے لیے انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں، پسماندہ گروپ، ‘اقلیتیوں’ – یا بلکہ غیر مسلم پاکستانی شہریوں – کارکنوں اور کسانوں نے جوائن کیا۔
جیسے کہ ہماری سماجی اور اقتصادی اعتبار سے انصاف پسند سوسائٹی – جہاں ہر انسان انسانی حقوق سے واقف ہو – کے لیے جدوجہد جاری ہے، ان سب نے ہمیں مضبوط کیا۔

تحریر کا ربط
 
Top