حزیں صدیقی وہ منتظر ہیں چمن میں بکھیر کر سائے

مہ جبین

محفلین
وہ منتظر ہیں چمن میں بکھیر کر سائے​
فضا سے صبحِ شفق رنگ نور برسائے​
سمندروں سے ہَوا کو ملا نہیں پانی​
تو اس کا یہ نہیں مطلب کہ آگ برسائے​
مرے جہاں کا مقدر سنوارنے کے لئے​
اجالے مانگتے پھرتے ہیں دربدر سائے​
یہ کاروبارِ مشیت ہے کس طرح مانوں​
کسی کے گھر میں چراغاں کسی کے گھر سائے​
مسافروں کو گِلہ دھوپ ہے قیامت کی​
رہِ طلب کی یہ صورت شجر شجر سائے​
جو مانگتا ہوں ستاروں سے نور، کہتے ہیں​
زمین پر ہیں اجالوں سے معتبر سائے​
نگار خانہء فنکارِ نو کا سرمایہ​
لہو ، شکستہ لکیریں ، خلا ، سفر ، سائے​
حزیں صدیقی​
 

کاشفی

محفلین
بہت ہی عمدہ بہت ہی خوب!
سمندروں سے ہَوا کو ملا نہیں پانی
تو اس کا یہ نہیں مطلب کہ آگ برسائے
خوش رہیئے سدا۔
 
Top