عدم وہ باتیں تری وہ فسانے ترے - عبدالحمید عدم

فرخ منظور

لائبریرین
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے

بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے

ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے

عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے
 

فرخ منظور

لائبریرین
بہت شکریہ جیہ! لیکن فریدہ خانم نے یہ غزل نہیں گائی- یہ غزل ملکہ پکھراج اور طاہرہ سیّد نے گائی ہے- اور طاہرہ کو یہ غزل وراثت میں ملی ہے -
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب، بہت اچھی غزل ہے اور میری پسندیدہ غزلوں میں سے ہے۔ اور بہت اچھی گائی ہے ملکہ پکھراج اور طاہرہ سید نے۔

اسی غزل کے دو اور خوبصورت اشعار آپ کی نذر


بس ایک زخمِ نظارہ، حصہ مرا
بہاریں تری، آشیانے ترے

بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے، سب زمانے ترے
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب، بہت اچھی غزل ہے اور میری پسندیدہ غزلوں میں سے ہے۔ اور بہت اچھی گائی ہے ملکہ پکھراج اور طاہرہ سید نے۔

اسی غزل کے دو اور خوبصورت اشعار آپ کی نذر


بس ایک زخمِ نظارہ، حصہ مرا
بہاریں تری، آشیانے ترے

بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے، سب زمانے ترے

بہت شکریہ وارث صاحب اگر کچھ اوراشعار بھی اس غزل سے غائب ہیں تو وہ بھی بتا دیں بلکہ اسے مکمل کر کے دوبارہ اسی دھاگے میں پوسٹ کر دیں تو مہربانی ہوگی - کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ اشعار کن اشعار کے بعد آتے ہیں -
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ وارث صاحب اگر کچھ اوراشعار بھی اس غزل سے غائب ہیں تو وہ بھی بتا دیں بلکہ اسے مکمل کر کے دوبارہ اسی دھاگے میں پوسٹ کر دیں تو مہربانی ہوگی - کیونکہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ اشعار کن اشعار کے بعد آتے ہیں -


فرخ صاحب میں آج شام اس غزل کو کتاب میں سے ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
فرخ صاحب حسبِ وعدہ۔

غزل کے کل اشعار تو سات ہی ہیں لیکن ایک شعر جو سرخ کر رہا ہوں وہ میرے پاس کتاب (غزلوں کی ایک انتخاب کی کتاب) میں اور طرح سے بہرحال دونوں لکھ رہا ہوں (ہو سکتا ہے یہ دونوں شعر ہی اسی غزل کے ہوں) اور ترتیب بھی لگا دیتا ہوں۔

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

بس ایک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے

بس ایک زخمِ نظارہ، حصہ مرا
بہاریں تری، آشیانے ترے

فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھر پور جب تک خزانے ترے

فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری، بادہ خانے ترے

ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے

بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے، سب زمانے ترے

عدم بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے


۔
 
غزل - وہ باتیں تری وہ فسانے ترے -عبدالحمید عدم

غزل

وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری آستانے ترے

بس اک زخم نظارہ حصہ مرا
بہاریں تری بادہ خانے ترے

فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری بادہ خانے ترے

ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے

بہارو خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے سب زمانے ترے

عدم بھی ترا ہے حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے

عبدالحمید عدم
 

محمد مسلم

محفلین
یہ غزل مجھے بہت پسند تھی، مگر شاعر کا نام آج معلوم ہوا ہے۔ اور کیا تمام اچھی غزلیں ملکہ پکھراج اور طاہرہ سید نے ہی گائی ہیں؟
 
بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری ، آستانے ترے

اہا اہا کیا کہنے
ماضی یاد دلا دیا،
اس وقت پی ٹی وی نیا نیا آیا تھا اور ملکہِ پکھراج کی آواز میں یہ غزل بار بار نشر ہوتی تھی
شاد و آباد رہیں
 

فرخ منظور

لائبریرین
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے

بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری آستانے ترے

مظالم ترے عافیت آفریں
مراسم سہانے سہانے ترے

فقیروں کی جھولی نہ ہوگی تہی
ہیں بھرپور جب تک خزانے ترے

دلوں کو جراحت کا لطف آ گیا
لگے ہیں کچھ ایسے نشانے ترے

اسیروں کی دولت اسیری کا غم
نئے دام تیرے پرانے ترے

بس اک زخمِ نظارہ حصہ مرا
بہاریں تری آشیانے ترے

فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری بادہ خانے ترے

ضمیر صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے

بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے سب زمانے ترے

عدمؔ بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے

(عبدالحمید عدمؔ)
 
آخری تدوین:
Top