وہ اپنے صحن میں تھی کھڑی،میں بھی

جی گرو جی

محفلین
وہ اپنے صحن میں تھی کھڑی،میں بھی

میں تو شعر ہُوں کسی اور کا،مِری شاعرہ کوئی اور ہے
نہ ردیف تھوڑا سا مختلف،نہ ہی قافیہ کوئی اور ہے
میں تو سمجھی میرا جمال ہے،جسے شاعری میں کمال ہے
مُجھے پاس جا کے خبر ہُوئی کہ یہ کلمُووا کوئ اور ہے
مجھے ایک چڑیل نے آ لیا،تبھی جا کے مجھ کو خبر ہُوئی
مجھے جس میں چِلاّ تھا کاٹنا وہ تو دائرہ کوئی اور ہے
مُجھے مِل گیا وہ نصیب سے،ہُوئی گرم بحث رقیب سے
تیری نازیہ کوئی اور ہے،میری شازیہ کوئی اور ہے
وہ اپنے صحن میں تھی کھڑی،مَیں بھی اپنی چھت پہ کھڑا رہا
ذرا دِن چڑھا تو پتہ چلا کہ وہ دِل رُبا کوئی اور ہے
یہ تو بِل ہے بجلی کا،گیس کا،جو تھما گیا مِرے ہاتھ میں
مُجھے لا کے جس نے دیا تھا خط،وہ تو ڈاکیا کوئی اور ہے
میں چلا تھا جانبِ شُوگراں،تو پتہ چلا کہ ہُوں لودھراں
مجھے راستے میں خبر ہُوئی، میرا راستہ کوئی اور ہے
مُجھے اپنے جال میں پھانس کر،جو بنا رہا بڑا معتبَر
مُجھے مُفت میں جو پھنسا گیا،وہ فراڈیا کوئی اور ہے
(شاعر۔۔۔۔ جمال عبدالناصر)
 
Top