وکیل صاحب چھیتی چھیتی کرو(فوجی عدالتوں کا قیام)

وسعت اللہ خان

سوال یہ ہے کہ جس ناقص انٹیلیجنس نظام اور پولیس تفتیش کی ناکامی سے تنگ آ کر فوجی عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں ان کی آنکھیں، ناک اور کان بھی تو یہی ناقص انٹیلیجنس نظام اور پولیس ہوگی

یہ بات صحت سے کہی جاسکتی ہے کہ کم از کم جہانگیر کے دور تک تیز رفتار انصاف دلانے کے لیے فوجی عدالتوں کا تصور نہیں تھا۔ اسی لیے جہانگیر کو محل کے باہر زنجیر لگا کر بڑی سی گھنٹی باندھنی پڑی۔ قریب ہی ہاتھیوں کا باڑہ بھی تھا تاکہ باغیوں اور قاتلوں کو فوراً کچلوایا جاسکے۔
ہمیں انصاف سے بھی تیز رفتار فوجی عدالتوں کا تصور کہیں میرتقی میر کے دورِ طوائف الملوکی میں جا کے ملتا ہے۔ اسی لیے کہنا پڑا
میر کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں

ایک رہنما تو اسلام آباد میں نیشنل ایکشن پلان وضع کرنے والے کُل جماعتی اجلاس میں کہہ ہی چکے ہیں کہ امریکہ نے بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان امریکی فوجی عدالتوں نے جو سزائیں سنائیں وہ بھی ٹھیک ہیں تو پھر گوانتانامو قیدی کیمپ پر اتنا شور کاہے کو؟
اسرائیل کی فوجی عدالتیں پچھلے 20 برس میں ایک لاکھ بائیس ہزار سے زائد فلسطینیوں کو مختلف المیعاد سزائیں سنا چکی ہیں۔ اس پر اتنا واویلا کیوں؟ مصر میں پچھلے دو برس سے قائم خصوصی فوجی عدالتیں اتنے ملک دشمنوں کو سزائے موت سنا چکی ہیں جتنی سزائیں حسنی مبارک کی 20 سالہ آمریت میں بھی نہیں سنائی گئیں۔ یہ بھی کہیے ٹھیک ہے۔
گوانتانامو قیدی کیمپ پر اتنا شور کاہے کو؟
ایک رہنما تو اسلام آباد میں نیشنل ایکشن پلان وضع کرنے والے کل جماعتی اجلاس میں کہہ ہی چکے ہیں کہ امریکہ نے بھی دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے فوجی عدالتیں قائم کی تھیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان امریکی فوجی عدالتوں نے جو سزائیں سنائیں وہ بھی ٹھیک ہیں تو پھر گوانتانامو قیدی کیمپ پر اتنا شور کاہے کو؟
چونکہ تیز رفتار فوجی عدالتوں کے سوا فوری انصاف کے حصول کا بظاہر کوئی موثر طریقہ نہیں لہٰذا سنہ 1857 میں انگریزوں نے ہندوستان میں جو فوجی عدالتیں لگائیں ان کے سزا یافتگان کو قومی ہیرو سمجھنے سے گریز کیجیے اور پھر سنہ 1919 میں جلیانوالہ باغ کے سانحے کے بعد لگنے والی مارشل لا عدالت کے قرار دیے گئے مجرموں کو بھی مجرم ہی سمجھیے۔
آپ کہیں گے کہ تم نو آبادیاتی دور میں جدوجہدِ آزادی دبانے کے لیے انگریزی فوجی عدالتوں کی گمراہ کن مثالوں سے ہمیں کیوں کنفیوز کررہے ہو۔ چلیے کنفیوز نہیں کرتے لیکن آپ کم از کم یہ تو مانیں گے کہ ایوب خان، یحییٰ خان اور ضیا الحق کی فوجی عدالتوں نے جو فیصلے کیے وہ ٹھیک تھے۔
تب ہی تو آپ نے سنہ 2014 میں بھی فوجی عدالتیں لگانے کا متفقہ فیصلہ کیا اور اس فیصلے میں دورِ ضیا کی فوجی عدالتوں کے مثالی انصاف سے سب سے زیادہ مستفید ہونے والی پیپلز پارٹی بھی شامل ہے۔ دورِ ضیا میں ہی پیپلز پارٹی کے ایک روپوش کارکن نے مجھے یہ قصہ سنایا تھا کہ جب عدالت کے رو برو ملزم کے وکیل کی تقریرِ بے گناہی طول پکڑنے لگی تو صدر نشین کرنل صاحب نے پہلو بدلتے ہوئے کہا ’وکیل صاحب گل چھیتی چھیتی مکاؤ۔اسی سزا وی دینی اے‘۔
کہا یہ جا رہا ہے پاکستان کی فوجی عدالتیں صرف دہشت گردوں کو انصاف دیں گی۔ سیاسی کارکنوں کو کچھ نہیں ہوگا۔ (ہائے میرے سادو، میں تمہارے قربان)۔
سوال یہ ہے کہ جس ناقص انٹیلیجنس نظام اور پولیس تفتیش کی ناکامی سے تنگ آ کر فوجی عدالتیں قائم کی جا رہی ہیں ان کی آنکھیں، ناک اور کان بھی تو یہی ناقص انٹیلیجنس نظام اور پولیس ہوگی۔ (اگر مریخ سے تفتیش کار لائے جا رہے ہیں تو اور بات ہے)۔
عدالتیں فوجی اور تفتیشی نظام وہی فرسودہ۔گویا یوں ہے جیسے آپ نیا کرتا پہننے کی خوشی میں نیا پاجامہ پہننا بھول جائیں۔
مگر یہ بلڈی سویلینز کسی قابل ہیں کہاں؟
سب سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ حالات ہی ایسے ہیں کہ ہمیں فوجی عدالتوں کا کڑوا گھونٹ پینا پڑ رہا ہے لیکن جو آپ کے لیے کڑوا گھونٹ ہے وہ انصاف کے لیے میٹھا گھونٹ کیسے ہوسکتا ہے؟ جس نظام پر خود آپ کو ہی تحفظات ہیں اس پر قوم کیسے اعتماد کرلے؟ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے ججوں کو اتنی ہی سیکورٹی اور سہولتیں دیجیے جتنی کسی میجر یا کرنل جج کو ملتی ہیں تب دیکھیے انصاف کی رفتار مگر یہ بلڈی سویلینز کسی قابل ہیں کہاں؟
کہا جا رہا ہے کہ فوجی عدالتیں صرف دو برس کے لیے قائم کی جا رہی ہیں اور اگر دو سال کے اندر دہشت گردی ختم نہ ہوئی تو پھر؟ کیا کسی کو یاد نہیں کہ ضیا الحق 90 دن کے لیے تشریف لائے تھے۔ کیا سب بھول گئے کہ سنہ 1989 میں کراچی کے حالات معمول پر لانے کے لیے رینجرز کو صرف چھ ماہ کی ابتدائی مدت کے لیے لایا گیا تھا۔ آج اس بات کو خیر سے 25 برس ہو چلے مگر آپریشن کراچی جاری ہے۔
سب سیاسی جماعتیں کہہ رہی ہیں کہ حالات ہی ایسے ہیں کہ ہمیں فوجی عدالتوں کا کڑوا گھونٹ پینا پڑ رہا ہے لیکن جو آپ کے لیے کڑوا گھونٹ ہے وہ انصاف کے لیے میٹھا گھونٹ کیسے ہوسکتا ہے؟ جس نظام پر خود آپ کو ہی تحفظات ہیں اس پر قوم کیسے اعتماد کرلے؟ انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کے ججوں کو اتنی ہی سکیورٹی اور سہولتیں دیجیے جتنی کسی میجر یا کرنل جج کو ملتی ہیں تب دیکھیے انصاف کی رفتار مگر یہ بلڈی سویلینز کسی قابل ہیں کہاں؟
تو پھر اوپر سے نیچے تک اتنی اینگلو سیکسن اور شرعی عدالتوں اور انسدادِ دہشت گردی کے خصوصی ٹرایبونلز کے سینکڑوں ججوں اور ان کے ہزاروں امدادی اہلکاروں پر اس قدر پیسہ کیوں لٹایا جا رہا ہے؟ فارغ کیجیے انھیں تاکہ قومی خزانے کا بوجھ کم ہو جہاں فوج سویلینز کے کرنے کے اور بہت سے کام کر رہی ہے یہ بھی کر لے گی۔ آپ بس تقریر پر ہی توجہ رکھیے۔
اب جب کہ فوجی عدالتیں قائم ہو رہی ہیں تو امید ہے مزید لوگ لاپتہ نہیں ہوں گے۔ انھیں باقاعدہ گرفتار کر کے فردِ جرم عائد کی جائے گی اور کھلا مقدمہ چلایا جائے گا۔ بھلے فوجی عدالت ہی میں چلے؟ کیا یہ امید بہت زیادہ تو نہیں؟
 
ڈان نیوز
اسلام آباد: حکومت کے قانونی مشیر ملک میں فوجی عدالتیں قائم کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل میں ترمیم پر غور کر رہے ہیں۔
(1) 8
اور 212-A
اور 212- B

آرٹیکل 8 بنیادی حقوق کی نفی کرنے والے قوانین ختم کرنے جبکہ آرٹیکل 212 عدالتوں اور ٹریبونلز کے انتظامی امور سے متعلق ہے۔
آرٹیکل 8 کہتا ہے کہ 'کوئی قانون یا رسم و رواج جو قانون کا حکم رکھتا ہو، تناقض کی اس حد تک کالعدم ہو گا جس حد تک وہ اس باب میں عطا کردہ حقوق کا نقیض ہو'۔


ان دو آرٹیکلز میں ترامیم کی صورت میں مشتبہ دہشت گردوں کے خلاف خصوصی عدالتیں قائم کرنے کے لیے 1952 کے آرمی ایکٹ میں تبدیلیاں کی جائیں گی۔
مجوزہ آئینی ترامیم کے مطابق فوجی عدالتیں دو سال تک فعال رہنے کے بعد ختم ہو جائیں گی۔
سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ ' آئینی ترامیم کا یہ پہلا مسودہ ہے، جسے حکومت جلد از جلد ایوان میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے'۔


سپریم کورٹ کی وکیل اور انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی سابق چئیرپرسن عاصمہ جہانگیر نے مجوزہ آئینی ترامیم کے حوالے سے ڈان کو بتایا کہ 'یہ پہلے دن سے واضح تھا کہ فوجی عدالتیں قائم کرنے سے پہلے حکومت کو بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دینے والی آئینی شقیں تحلیل کرنا ہوں گی'۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آئین میں ان ترامیم کی وجہ سے ہر شہری کو حاصل منصفانہ ٹرائل کے حق پر مبنی آرٹیکل 10-A بھی متاثر ہو گا۔
اس آرٹیکل کے مطابق: کسی شخص کو جسے گرفتار کیا گیا ہو، مذکورہ گرفتاری کی وجوہ سے، جس قدر جلد ہو سکے، آگاہ کیے بغیر نہ تو قید رکھا جائے گا اور نہ اسےاپنی پسندکے کسی قانون پیشہ شخص سے مشورہ کرنے اور اس کے ذریعہ صفائی پیش کرنے کے حق سے محروم کیا جائے گا۔


سابق وزیر قانون اور سپریم کورٹ کے وکیل ڈاکٹر خالد رانجھا نے ڈان کو بتایا کہ حکومت فوجی عدالتیں قائم کرنے کے لیے خواہ کوئی بھی راستہ اپنائے 'مجھے مطلوبہ نتائج ملنے کی ہرگز امید نہیں'۔
'ماضی میں جب بھی ایسے اقدامات اٹھائے گئے، ان پر چھ مہینوں کے اندر اندرشدید تنقید شروع ہو گئی اور بلاآخر عوام کی نظر میں فوج کا رتبہ اور مقام کم ہوا'۔
سپریم کورٹ کے ایک اور وکیل اور اِن دنوں سابق صدر پرویز مشرف کی خصوصی عدالت کے سامنے نمائندگی کرنے والے فواد چوہدری نے کہا کہ موجودہ آئینی فریم ورک میں فوجی عدالتوں کی گنجائش نہیں۔
فواد نے 1999 میں شیخ لیاقت حسین کیس پر سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اس فیصلے پر جسٹس منور مرزا نے ایک اضافی نوٹ بھی تحریر کیا تھا۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر یاسین آزاد نے ڈان کو بتایا کہ بار مجوزہ فوجی عدالتوں کے قیام کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اور وہ اس حوالے سے حکومتی بل کے حتمی مسودہ کا انتظار کر رہے ہیں۔
 
Top