مصطفیٰ زیدی وُہ عہد عہد ہی کیا ہے، جسے نبھاؤ بھی ۔ مصطفیٰ زیدی

فرخ منظور

لائبریرین
وُہ عہد عہد ہی کیا ہے، جسے نبھاؤ بھی
ہمارے وعدۂ اُلفت کو بھُول جاؤ بھی

بھلا، کہاں کے ہم ایسے گمان والے ہیں
ہزار بار ہم آئیں، ہمیں بُلاؤ بھی

بگڑ چلا ہے بُہت رسمِ خُود کشی کا چلن
ڈرانے والو، کِسی روز کَر دکھاؤ بھی

نہیں کہ عرضِ تمنا پہ مان ہی جاؤ
ہمیں اِس عہدِ تمنّا میں آزماؤ بھی

فغاں، کہ قصّۂ دِل سُن کے لوگ کہتے ہیں
یہ کون سی نئی افتاد ہے، ہٹاؤ بھی

تمھاری نیند میں ڈُوبی ہُوئی نظر کی قسم
ہمیں یہ ضِد ہے کہ جاگو بھی اور جگاؤ بھی

( مصطفیٰ زیدی)
 
Top