وَ اللّٰهُ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ

اجمل خان

محفلین
وَ اللّٰهُ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے ۔

اور رزق میں روٹی، کپڑا اور مکان کے علاوہ علم و ہنر، تعلیم و تربیت، تہزیب و تمدن، صحت و تندرستی اور انسان کی تفریح بھی سامل ہے۔
اللہ جو خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ ہے اپنے بندوں کو یہی رزق دینے کیلۓ چند قصبوں، شہروں اور ملکوں کو چن لیتا ہے جہاں اُس کی رحمتیں و برکتیں سایہ فگن رہتیں ہیں اور اپنے بندوں کو اُن کے گھر وں سے نکال کر اُن قصبہ، شہر یا ملک تک لے جاتا ہے جہاں سے وہ رزق حاصل کرتے ہیں اور خیر و برکتوں کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس آتے ہیں۔

جب تک اُن شہروں / ملکوں کے لوگ اللہ کے فرمانبردار رہتے ہیں، سماجی واخلاقی برائیوں سے دور رہتے ہیں، فرقوں میں نہیں بٹتے اور سب سے بڑھ کر یہ نہیں سوچتے کہ باہر سے آنے والے ہمارے حصے کی کھا رہے ہیں۔۔ اس وقت تک اُن شہروں اور ملکوں میں اللہ کی کی رحمتیں اور بر کتیں سایہ فگن رہتیں ہیں۔

تاریخ پہ نظر دوڈائیں تو اللہ رب العالمین نے کبھی اندلس میں غرناطہ کو، عراق میں بغداد و بصرا کو تو ہندوستان میں دہلی، آگرہ و اودھ کوچنا اور اِن شہروں کو اپنی رحمتوں وبرکتوں سے تہزیب و تمدن، علم و ہنر کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی رزق کا گہوارہ بنایا۔

لیکن جب اِن شہروں کے لوگ اللہ کی نافرمانیاں کیں اور اسلام کی سنہری اصولوں سے انحراف کرتے ہوۓ سماجی واخلاقی برائیوں میں ملوث ہو کرفرقوں میں بٹ گۓ تو اللہ کی رحمتیں اور بر کتیں وہاں سے رُوٹھ گئیں اور اُن کی جگہ خوف و وہشت جھا گیٔ۔ خوف ودہشت کی یہ فضاء سالوں رہتی ہے اور اللہ کے بندوں کوتقویٰ اختیار کرتے ہوۓ سُدھرنے کا پیغام دیتا ہے لیکن جب لوگ نہیں سُدھرتے تو یہ خوف ودہشت ایک شہر سے دوسرے شہر اور پھر پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

اور پھر کہیں ازابیلا و فرنانڈس آتا ہے تو کہیں ہلاکو خان اور کہین ایسٹ اِنڈیا کمپنی اور اللہ کے نافرمانوں پر مسلت ہو جاتا ہے-

کچھ یہی حال ہمارے ملک پاکستان کے ساتھ ہے۔ پاکستانی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سب سے بڑی شہر کراچی ہے جسے کبھی روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا تھا۔ جو امن کا گہوارہ تھا، جہاں تہذیب و تمدن پروان چڑھتی ہیں ، جہاں عام و خاص کیلۓ تعلیم و تربیت، علم و ہنر، صحت و تندرستی کے ساتھ ساتھ کھیل کود اور تفریح کے دروازے بھی کھلے ہیں۔

جہاں نہ صرف پورے پاکستان بھر سے بلکہ دوسرے ممالک سے بھی لوگ آکر رزق حاصل کرتے تھے اور تعلیم و تربیت، علم و ہنر، تہزیب و تمدن کے خزا نوں کے ساتھ اپنے شہروں، قصبوں اور گھروں کو واپس جاتے یا کچھ وہیں سکونت اختیار کر لیتے تھے۔
اگر اس شہر سے رزق حاصل کرنے والے بندے اللہ سے ایساڈرتے جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔ اللہ کا حکم" وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا " کے مطابق اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھامے رکھتے اور فرقوں میں نہ بٹتے تو اللہ ان کے رزق میں اور بھی برکت دیتا اور یہ شہر ترقی کے مراحل طے کرتی رہتیکیونکہ الله تعالیٰ کا وعدہ ہے:

وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا يَكْسِبُوْنَ(سورة الاعراف:96)

”اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی اختیار کرتے ، تو ہم آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے ان پر کھول دیتے ، لیکن انہوں نے جھٹلایا اس لیے ہم نے ان کی کمائی کی پاداش میں ان کو پکڑ لیا۔“

لیکن اس شہر سے رزق حاصل کرنے والوں نے اپنے پیارے نبی ﷺ کی تعلیمات سے رو گردانیی کی اور تقویٰ و پر ہیزگاری کے بجاۓ اللہ کی نا شکری اور نافرمانی کی ۔۔۔ " اور اللہ کے سب سے بہتررازق (وَ اللّٰهُ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ ) ہونے کو ۔۔۔ بھول گۓ اور جھٹلایا۔ اللہ نے رزق تقسیم کرنے کا جو نظام بنایا ہے اسکو چیلینز کرتے ہوۓ رزق کے معاملے میں مقامی و غیر مقامی میں رشہ کشی شروع ہوی ٔ تو اللہ کا فرمان جاری ہوا :

وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنَا فِيْ كُلِّ قَرْيَةٍ اَكٰبِرَ مُجْرِمِيْهَا لِيَمْكُرُوْا فِيْهَا١ؕ وَ مَا يَمْكُرُوْنَ اِلَّا بِاَنْفُسِهِمْ وَ مَا يَشْعُرُوْنَ (سورة الأنعام- 123)

” اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگادیا ہے کہ وہاں اپنے مکروفریب کا جال پھیلائیں۔ دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں، مگر اُنہیں اس کا شعور نہیں ہے۔“

جی ہاں پھر اس شہر میں کچھ بڑے بڑے مجرم پیدا ہوۓ اور یہاں کے مقامی لوگوںکے ذہنوں میں ڈالا کہ یہ باہر کے لوگ آکر کیوں یہاں سے رزق بٹور رہے ہیں، یہ تو تمہارے حصے کا رزق ہڑپ کر رہے ہیں۔ انہیں مار بھگاؤ تاکہ شہر کی ساری رزق پر صرف اور صرف تمہارا قبضہ ہو۔ اللہ نے رزق باٹنے کا جو میزان قائم کیا ہے اسے نا سمجھا اور اللہ کی نا شکری اور نافرمانی بڑھتی چلی گیٔ۔

صرف مقامی لوگوں نے ہی ناشکری نا کی یہاں غیر مقامی لوگوں کا کردار بھی کچھ اچھا نہ رہا۔ اس شہر کی المیہ یہ رھی کہ اس کے ادارے ایسے لوگوں کے قبضے میں رہے جومال ودولت کی حرص میں مبتلا ہوۓ ان کا مقصد صرف مال بنانا ہوتا۔ انہیں اس شہر کی بہوبوو سے کویٔ دلچسپی نہیں ہوتی۔ صرف مال بنانے کی فکر میں زیادہ ترلوگ ہر ناجائزو حرام طریقے استعمال کۓ، رشوت کا بازار گرم کیا، ایک دوسرے کے حقوق غصب کۓ،ہر برایٔ کو شہر میں فروغ دیاجسکے وجہ سے امن و امان مفقود ہوتی گیٔ لیکن انہیں کویٔ خیال نہ رہا اور سونے کی انڈا دینے والی مرغی کو ذبح کرکے سارا مال ایک ہی دن حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔

شہر کے مقامی اور غیر مقامی لوگ اسلام سے دور ہو کرلسانی و صوبائی عصبیت میں مبتلا ہو گۓ اور فرقوں میں بٹتے چلے گۓ ۔ اسلام نام کو رہ گیا ۔ مذہبی تنگ نظری، بد اعتقادی اور بد اعمالی کا غلبہ شروع ہوا اور دہشتگردی، لاقانونیت، غربت، مہنگائی نے پورے شہر کو لپیٹ لیا ۔

کراچی جسے کبھی روشیوں کا شہر کہا جاتا تھا اور اب ہنگاموں اور قتل و غارت گری سے مشہور ہوا ۔۔ شہر پہ رحمت اور برکت کی جگہ خوف و دہشث چھا گیٴ ۔ جیسا کہ اس بارے میں قرآن میں آتا ہے
وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً يَّاْتِيْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ (سورة النحل-112)

اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے۔ وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اُس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اُس نے اللہ کی نعمتوں کا کُفران شروع کر دیا۔ تب اللہ نے اُس کے باشندوں کو اُن کے کرتُوتوں کا یہ مزہ چکھایا کہ بھُوک اور خوف کی مصیبتیں اُن پر چھا گئیں۔

اگر اس شہر اور ملک کے حکمراں و دیگر لیڈران اس شہر کے مسائل و بدامنی اور فرقہ واریت کا انصاف سے کام لیتے ہوۓ شروع ہی میں تدارک کر لیتے تو یہ ناسور پورے ملک میں نا پھیلتا۔لیکن وہ ملک پہ حکومت کرنے کیلۓ اسی بہانے اپنی سیاست چمکاتے رہےاوراب یہ عالم ہے کہاس شہر سے اُٹھنے والیخوف و دہشث کی فضاء پورے ملک کو اپنے خوفناک لپیٹ میں لے چکی ہے.

لیکن اب بھی ہم ہوش میں نہیں آۓ اور نہ ہی آ پائیں گے۔

اگرچہ مایوسی کفر ہے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ جب کویٔ قوم اللہ اور اُسکے رسول ﷺ کی تعلیمات بھلا کر آپس میں فرقوں میں بٹ جاتی ہے اور ایک دوسرے کا خون بہانے لگتی ہے تو اللہ کسیازابیلا و فرنانڈسیاہلاکو خان یا ایسٹ اِنڈیا کمپنی کو ایسی نافرمان قوم پر مسلتکر دیتا ہے جواُنہیں اُنکے کرتوتوں کا مزا چکھاتا ہے۔

پاکستان کے باسیوں! اللہ نے تم پر یہ خوف و دہشت کی فضاء اس لۓ لایا ہے تاکہ تم اللہ سے ڈرنے والے بن جاؤ، تقویٰ اختیار کرو۔ آپس کے تفرقے چھوڑ کر بھایٔ بھایٔ بن جاؤ۔ کاش ہم اپنے پیارے بنی ﷺ کی صرف اس ایک حدیث پہ عمل کر لیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا تم لوگ ایک دوسرے پر حسد نہ کرو اور نہ ہی تناجش کرو (تناجشبیع کی ایک قسم ہے) اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ ہی ایک دوسرے سے روگردانی کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندے بھائیبھائی ہو جاؤ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیلکرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک کیطرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقوی یہاں ہے کسی آدمی کے برا ہونے کے لئےیہی کافی ہے کہ وہ اپنےمسلمان بھائی کو حقیر سمجھےایک مسلمان دوسرے مسلمانپر پورا پورا حرام ہے اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی عزت وآبرو۔صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 2041 حدیث متواتر حدیث مرفوع مکررات 13 متفق علیہ 8(یہ حدیث easy quran o hadees سافٹویر سی لی گئی ہے)

لیکن ہم اس کو سر سری پڑھیں گے بس۔ نا ہی سمجھیں گے نا عمل کر نے کیلۓ تیار ہونگے۔ ہم تو بس انتظار میں ہیں کسیازابیلا و فرنانڈس یا ہلاکو خان یاایسٹ اِنڈیا کمپنی کے آنے کا جو ہمیں ہماری کرتوتوں کا مزا چکھا دے۔ ہمارے جوانوں کو قتل کرکے ان کے سروں کی مینار بناۓ، ہماری عورتوں کی عزت تارتار کرے اور ہمیں جبرأَ مرتد بنالے۔

خدارا کچھ تو تاریخ سے سبق لیجۓ۔ کچھ تو ایک مسلمان ہونے کے نا طے اپنا کردار ادا کیجۓ۔یہ خوف و دہشت کی فضاءدور ہو اسکے لۓ کچھ تو کیجۓ ۔
 
Top