قمر جلالوی وعدۂ وصل کے ایفا سے پشیماں ہو کر- استاد قمر جلالوی

وعدۂ وصل کے ایفا سے پشیماں ہو کر
وہ تصور میں بھی آتے ہیں تو پنہاں ہو کر

شوقِ دیدار شہیدوں کو ہے کون ان سے کہے
سیر کو جائیں سوئے گورِ غریباں ہو کر

فاتحہ پڑھ کے مری قبر سے قاتل جو اٹھا
خاک اڑ اڑ کے لپٹنے لگی ارماں ہو کر

میں شبِ وعدہ تصور میں انہیں لے آیا
در پہ بیٹھے ہی رہے غیر نگہباں ہو کر

شمع تربت پہ مری دیکھ کے بے مونس و یار
پھول تا صبح چڑھاتی رہی گریاں ہو کر

رات بھر ڈر ہی رہا صبح کے ہونے کا قمرؔ
وصل کی رات کٹی ہے شبِ ہجراں ہو کر​
استاد قمرؔ جلالوی
 
Top