وصالِ یار کا موسم

وصالِ یار کا موسم اِدھر آیا، اُدھر نکلا
جسے ہم داستاں سمجھے، وہ قصہ مختصر نکلا

گنے جو وصل کے لمحے تو مشکل سے وہ اتنے تھے
کہ تارے جاگ کر سوئے، کہ سورج ڈوب کر نکلا

ہمیشہ ایک ہی غلطی، ہر اِک سے دوستی جلدی
وہ جس کے زہر تھا دل میں، تِرا نورِ نظر نکلا

خموشی شور جیسی تھی، نگہ بھی چور جیسی تھی
وہ دل لے کر ہوا غایب، کوئی ڈھونڈو کدھر نکلا

اُس اِک مشعل کا پروانہ، ہوا عمار دیوانہ
زمانے بھر میں چرچا تھا، وہی اِک بے خبر نکلا​

8 جون 2011ء​
 
بہت معذرت کہ اتنے عرصے بعد یہاں سے گزر ہوا اور یہ پیغام دیکھا۔ یہ غزل ہی ہے، لیکن یہ سوال کیوں؟ :-o میں وجہ نہیں سمجھ سکا۔
 
عمار خاں بھائی۔ بہت خوبصورت غزل ہے ۔ داد قبول فرمائیے۔
استادِ محترم کا کہنا یہ ہے اگر یہ غزل ہے جوکہ اس کی ہیئت اور مضامین سے ظاہر ہے تو پھر آپ نے نظم کی مانند اسکا عنوان کیوں مقرر کیا؟
 
Top