وزیر اعظم کا قوم سے خطاب :سوات اور ملا کنڈ میں فوجی آپریشن کا اعلان

زین

لائبریرین
ٓاسلام آباد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے سوات اور ملا کنڈ میں فوجی آپریشن کا اعلان کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ہم دہشت گردوں اور انتہاء پسندوں کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے ان عناصر کا قلع قمع کیا جائے گا جو ملک اور قوم کے سکون کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کو ہتھیار پھینکنے پر مجبورکر دیا جائے گا اور اپنے عوام اور اپنے ملک کا ہر قیمت اور ہر مرحلے پر تحفظ کریں گے۔ عسکریت پسندوں اور انتہاء پسندوں کو پاکستان کو یرغمال نہیں بنانے دیں گے۔ وزیر اعظم نے شورش زدہ علاقوں کے متاثرین کی آباد کاری اور بحالی کے لیے ایک ارب روپے کی پیکیج ا ور شہید ہونے والے خاندانوں کے نوجوانوں کو سرکاری ملازمتیں دینے کا اعلان کیا ہے وزیر اعظم نے بے گھر افراد کی امداد کے لیے عالمی برادری سے تعاون کی اپیل بھی کی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مفاہمت اور مصالحت کی پالیسی پر گامزن رہیں گے فوجی کارروائی کے بارے میں حکومتی اتفاق رائے حاصل کیا گیا ہے۔ پوری قوم نقل مکانی کرنے والے مجبور بے کس اور پریشان حال شہریوں کے لیے آگے بڑھیں۔ اسلام میں خود کش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔ ان خیالات کا اظہار انھوںنے جمعرات کی شب ٹی اورریڈیو پر قوم سے خطاب میں کیا ۔وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ آج میں وزیر اعظم نے کہا کہ آپ سے ایک ایسے موقع پر مخاطب ہوں جب ملک کے بعض علاقوں اور خاص طور پر سوات اور مالا کنڈ ڈویژن کی صورتحال کے حوالے سے قوم بجا طور پر فکر مند ہے۔ قوم کے وقار اور ملک کی سلامتی کے بارے میں سوچنے والے محب وطن عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم نے قومی سیاسی امور کے بارے میں مفاہمت اور مصالحت کی پالیسی اختیار کی جس کے مثبت اور خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ ہم نے ہمیشہ کوشش کی کہ سیاسی قوتوں اور جمہوری اداروں کو نیک نیتی کے ساتھ اعتماد میں لیں اور اُنہیں اپنے ساتھ لے کر چلیں کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ ہمارے تمام مسائل کا حل اسی طرزِ فکر وعمل میں مُضمر ہے ۔ساری دُنیا نے مشاہدہ کیا کہ ہماری اِس پالیسی اور حکمتِ عملی کے نتیجے میں ہر اہم مرحلے کو کامیابی اور خوش اسلوبی سے طے کیا گیا۔ اِس کی ایک تاریخی مثال 16 مارچ کا دن تھا جب وکلاء کے لانگ مارچ کے موقع پر تمام امور پُرامن طور پر طے پاگئے ۔ ہم نے مفاہمت اور مصالحت کی اِسی پالیسی کو یہ جانتے ہوئے فروغ دیا کہ جمہوریت کے راستے پر چل کر ہی ہم مہذب دنیا اور عالمی برادری میں سرخرو ہوسکتے ہیں، باہمی اتحاد کے ذریعے ہی ہم درپیش چیلجنز کا مقابلہ کرسکتے ہیں اور وقت کی آواز پر لبیک کہہ کر ہی ہم اپنی آزادی اور خودمختاری کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس وقت قوم کو 2بڑے چیلنجز کا سامنا ہے ان میں سے ایک قومی سلامتی کا اور دوسرا اقتصادی ترقی کا ہے۔ غور کیا جائے تو یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں یعنی ملک میں امن و امان کی صورتحال تسلّی بخش ہوگی تو معاشی اور صنعتی ترقی کا پہیہ رواں دواں رہے گا، جمہوریت کو فروغ میسر آئے گا اور عوام خوشحالی کی منزل کی طرف گامزن رہیں گے۔ اس پس منظر میں سوات کی موجودہ صورتحال ہماری فوری توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے اور اس کا ازالہ ناگزیر ہوچکا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ کی طرح سوات کے حوالے سے بھی نیک نیتی ، صبر و تحمل ، مفاہمت اور دوراندیشی سے کام لیا۔ ہماری شروع دن سے ہی کوشش رہی کہ اِس مسئلے کو پُر امن طور پر حل کیا جائے ۔ اس سلسلے میں ہم نے مذاکرات اور بات چیت کا راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دی۔حکومت کی نیک نیتی ور اسلام دوستی کا اس سے بڑھ کر ثبوت اور کیا ہوگا کہ ہم نے نظامِ عدل ریگولیشن کے نفاذ کی خاطر ہرممکن تعاون کیا۔ سرحد حکومت نے اس سلسلے میں معاہد ے پر دستخط کیے جس کا وفاقی حکومت نے احترام کیا۔ اس معاملے کو پارلیمنٹ کے سامنے رکھا گیا جہاں اِس پر مکمل اتفاقِ رائے ہوا اور اس کے بعد صدرِ مملکت نے اس پر بلا تاخیر دستخط کردیئے۔اِس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی مشاورت کی گئی اور ہم اُن کے تعاون کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہاں میں اس امر کی نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس مرحلے پر ہمیں اندرونی اور بیرونی سطح پر بڑی حد تک دباٶ کا سامنا تھا لیکن حکومت نے اس کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملک و قوم کے وسیع تر مفادات اور سوات کے عوام کے تہذیبی پس منظر اور دیرینہ مطالبات کے پیشِ نظر مفاہمت اور یکجہتی کا راستہ اختیار کیے رکھا ۔ہم پر یہ تنقید بھی کی جاتی رہی کہ ہم اپنے داخلی معاملات کے بارے میں فیصلے کسی غیرملکی دباٶ کے تحت کرتے ہیںمگر سوات معاہدے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہم نے یہ معاہدہ اپنے عوام کی خواہش اور ملک و قوم کے وسیع تر مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیا تھا۔ حکومت اِس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ ملک و قوم اس وقت انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ داخلی طور پر ہمیں گوناں گوں مسائل کا سامنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے عوام معاشی اور اقتصادی اعتبار سے خوشحال ہوں ، ہمارے بچے اور بچیاں پُرامن اور خوشگوار ماحول میں تعلیم حاصل کریں، ہمارے آنگنوں اور بازاروں کی رونقیں بحال رہیں، ہمارے نوجوان اپنے مستقبل کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کا بھرپور استعمال کریں، ہم غربت اور افلاس سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کریں۔ ہمیں مہنگائی ، لوڈشیڈنگ ، بے روزگاری، مایوسی اور محرومی کے مسائل سے چھٹکارا نصیب ہو اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم عالمی برادری میں اپنے سبز ہلالی پرچم کی سربلندی اور وقار کی علامت بن کر سرخروہوں۔ اسی جذبے اور اسی سوچ کے تحت حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے بلکہ اُن کو ہتھیار پھینکنے پر مجبور کردیں گے۔ ہم اپنے عوام اور اپنے ملک کا ہر قیمت پر اور ہر مرحلے پر تحفظ کریں گے اور اس حوالے سے ہم کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ پوری قوم متحد اور منظم ہو کر اُن عناصر کے خلاف حکومت کا ساتھ دے جو بندوق کی نوک پر قائد اعظم محمد علی جناح اور شاعرِ مشرق علامہ اقبال کے پاکستان کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں، جو ہمارے شاندار ماضی کے لیے رسوائی کا باعث بن رہے ہیں اور جو ہمارے مستقبل کو تاریک کرنے کے درپے ہیں۔ عزیز ہم وطنو! مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومت کی نیک نیتی اور امن پسندی کو اس کی کمزوری تصور کیا گیا۔ طے یہ پایا تھا کہ نظامِ عدل ریگولیشن کے نفاذ کے بعد سوات اور مالاکنڈ ڈویژن میں مکمل طور پر امن قائم کرنے کی خاطر عسکریت پسند ہتھیار ڈال دیں گے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ اُن کی جانب سے خلاف ورزیوں کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔اُنہوں نے کئی فوجی چیک پوسٹوں اور قافلوں پر مسلح حملے کیے، اُنہوں نے ایسے افراد کو بھی اپنے انتقام اور بربریت کا نشانہ بنایا جنہوں نے امن و امان قائم کرنے کی کوششوں کے دوران سیکورٹی فورسز کے ساتھ تعاون کیا تھا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں اِس موقع پر آپ کی توجہ اِس جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ سوات اور مالاکنڈڈویژن میں عسکریت پسندوں کی جارحانہ او رمسلح کارروائیوں کے نتیجے میں وہاں سے لاکھوں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں اور یہ بے گناہ ، مجبور اورپریشان حال شہری ہم سب کی بھرپوراور فوری توجہ کے مستحق ہیں۔ ہمیں اِس بات کا شدت سے احساس ہے کہ :۔ نہتے اور بے گناہ شہریوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا گیا ہے۔طالبات کو سکول اور کالج جانے سے زبردستی روکا جارہا ہے۔ قلیتوں پر زندگی اجیرن کردی گئی ہے۔ قومی اداروں کو نقصان پہنچایا جارہا ہے۔ اختلافِ رائے رکھنے والوں پر کُفر کے فتوے عائد کیے جارہے ہیں۔ سرکاری اور نجی اِملاک پر قبضہ کرکے اُنہیں تباہ کیا جارہا ہے۔ عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنانے والے سیکورٹی فورسز کے جوانوں پر حملے کیے جارہے ہیں۔خواتین کے ساتھ شرمناک امتیازی سلوک روا رکھا گیا ہے۔ دہشت گرد اور انتہا پسند اپنا خوف دوسرے علاقوں تک پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسلام کے نام پر ایسے اقدامات کیے گئے جن سے دُنیا بھر میں مسلمانوں کے سر شرم اور ندامت سے جُھک گئے۔اُنہوں نے آئین، جمہوریت ، پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا کے خلاف اقدامات شروع کردیئے جن کو بجا طور پر ریاست کی رِٹ کو چیلنج کرنے کے مترادف قرار دیا جاسکتا ہے اور جس کی کوئی حکومت کبھی اجازت نہیں دے سکتی۔حکومت بجاطورپر سمجھتی ہے کہ عسکریت پسندوں کی مذموم سرگرمیاں اور امن وامان کو تباہ کرنے کی کوششیں اُس مرحلے پر آن پہنچی ہیں جہاں حکومت کے لیے فیصلہ کُن اور انتہائی قدم اُٹھانا اب ناگزیر ہوچکا ہے۔ حکومت نے نہایت سوچ بچار اور باہمی اتفاقِ رائے سے ضروری کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے چنانچہ پاک سرزمین کے تقدس اور قومی وقار کی سربلندی کے لیے عسکریت پسندوں کا مکمل طور پر خاتمہ کرنے کے لیے اور عوام کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے فوج طلب کی جارہی ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں کی بحالی اور فلاح و بہبود کے لیے 1 ارب روپے فراہم کیے جارہے ہیں۔جس خاندان کا کوئی فرد عسکریت پسندوں کے ہاتھوں شہید ہوا ہے، اُس کے خاندان کے ایک فرد کو فوری طور پر ملازمت دی جائے گی۔ عزیز ہم وطنو!میں اس موقع پر عوام سے ، نوجوانوں سے، خواتین سے، سول سوسائٹی سے، میڈیا سے اور ہر اُس شخص اور ادارے سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس مرحلے پر حب الوطنی کے تقاضوں کے تحت متحد ہو کرحکومت اور افواج پاکستان کا ساتھ دیں۔ میں خاص طور پر علماء و مشائخ حضرات سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اسلام کا اصلی اور حقیقی روپ نمایاں کرنے کے لیے آگے بڑھیں اور دُنیا پر یہ حقیقت اُجاگر کریں کہ :۔اسلام میں خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلام حقیقی معنوں میں امن اور بھائی چارے کا دین ہے۔ اسلام تو غیر مسلموں کے ساتھ بہتر سلوک کا درس دیتا ہے۔ اسلام خواتین کے ساتھ مہذب اور شائستہ رویہ اختیار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام ایسا ضابطہ حیات ہے جو انسان کے کردار اور عمل کو ہی فضلیت کی اساس قرار دیتا ہے۔اسلام کے بارے میں مخالفین کا یہ پروپیگنڈا بالکل بے بنیاد اور من گھڑت ہے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے۔ میرے عزیز ہم وطنو! میں ایک بار پھر قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ حالات کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اور اپنے فرض کی آواز کو سنتے ہوئے متحد اور منظم ہوکر ملکی سلامتی اور قومی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لیے آگے بڑھیں۔ میں تمام عالمی قوتوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اِس مرحلے پر نقل مکانی کرنے والے لوگوں کی مالی امداد اور امن و امان قائم کرنے والے اداروں کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کے لیے ہمارے ساتھ تعاون کریں۔آئیے ! ہم دُنیا پر اپنے عزم کا عملی طور پر اظہار کریں کہ اسلام کے نام پر حاصل کیے گئے اِس ملک میں امن اور سکون ہی ہماری اولین ترجیح ہے، ہم اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہم اپنے عوام کی خوشحالی اور روشن مستقبل کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور ہم اُن عناصر کا قلع قمع کردیں گے جنہوں نے ہمارے ملک اور قوم کا سکون تباہ کرنے کوشش کی ہے۔ آیئے ! ہم سب مل کر رب العزت کے حضور دعا کریں کہ وہ ہمیں راہ راست پر رہتے ہوئے مملکتِ خداداد کی حفاظت اور خدمت کرنے کی توفیق اورحوصلہ عطا کرئے۔ آمین!


بشکریہ ثناء نیوز
 

قمراحمد

محفلین
اِن طالبان کا علاج ہی یہی ہے۔ دنیا بھر میں یہ پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ پیار محبت کی زبان نہیں سمجھتے۔۔۔ آپ اِن کو ذرا سی ڈھیل دیں گے تو پورے پاکستان پر حکومت کرنے کے خواب دیکھنے لگ جاتے ہیں۔۔۔ یہ بس اپنے آپ کو ہی مومن مانتے ہیں۔ باقی سب تو اِن کے لیے مسلمان تو دورکی بات، انسان بھی نہیں ہے۔ اِن کو کس نے حق دیاہے کے یہ سوات اور صوبہ سرحد میں اپنی خود کی بنائی ہوئی جعلی شریعت نافذ کریں۔ آرمی کا اپریشن سو فیصد درست ہے۔ یہ اپریشن امریکی دباؤ کے تحت ہی شروع کیا گیا ہے۔کیونکہ پاکستانی حکومت کو وراننگ مل گئی تھی کے اگر اِن طالبان کو روکا نا گیا تو پھر امریکہ خود کاروائی کرئے گا۔ دیر سے ہی حکومت کو اپنی رٹ بحال کرنے کا خیال تو آیا۔
 
Top