وزیراعظم کی قرضہ سکیم کو سود سے پاک کرنے کا فیصلہ۔

انصار عباسی کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے انصار عباسی کو فون پر بتایا کہ وزیراعظم کی قرضہ سکیم کو سود سے پاک کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ یہ بات انصار عباسی نے اپنے آج کے کالم میں لکھی۔ ان کے الفاظ یہ ہیں:"
جب میں نے سنا کہ مریم نواز صاحبہ کو اس اسکیم کا سربراہ بنا دیا گیا تو مجھے بہت دکھ ہوا کیوں کہ مریم صاحبہ سے ماضی میں میری جب بھی فون پر بات ہوئی میں نے انہیں ایک بہت اچھا مسلمان پایا۔ اُن کی گفتگو میں اللہ تعالیٰ اور نبیﷺ کے حوالے ہوتے۔ وہ تو سیاست کے بارے میں کہتی ہیں کہ ۔’’جدا ہودین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘۔ مجھے سمجھ میں نہیں آیا کہ مریم صاحبہ نے اس ذمہ داری کو کیوں قبول کیا۔ اسی پریشانی میں میں نے انہیں ایک پیغام بھیجا جس کے جواب میں مجھے انہوں نے فون کیا جومجھے اُس وقت موصول ہوا جب میں اس کالم کا ابتدائی حصہ لکھ چکا تھا۔ مریم نواز صاحبہ کو ابھی میں نے اپنی شکایت کا حوالہ ہی دیا تو کہنے لگیں کہ انصار بھائی میرا ایمان ہے کہ میںنے اللہ تعالیٰ کو اپنے ہر عمل پر جواب دینا ہے تو ایسے میں میںاللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ جنگ کرنے کا سوچ بھی کیسے سکتی ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گی جس سے ان کے والد (وزیر اعظم نواز شریف) یا ان کی اپنی آخرت خراب ہوجائے۔ پھر مریم صاحبہ نے کہا کہ وہ پہلے ہی اس مسئلہ کے اوپر کام کررہی ہیں کیوں کہ وہ سود کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتیں جب کہ انہیں معلوم ہے کہ یہ اللہ اور اللہ کے رسولﷺ کے خلاف جنگ ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ وزیراعظم نواز شریف نے وزیر خزانہ اور ان کے ساتھ ہونے والی ایک میٹنگ میں یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ان قرضوں میں سود نہیں لیا جائے گا بلکہ اس ساری اسکیم کو اسلامی بنکنگ کے اصولوںکے مطابق چلایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا اعلان بہت جلد کر دیا جائے گا۔ مریم صاحبہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ نہیں چاہتیںکہ اچھے کام کو بے برکت کر دیا جائے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ انشااللہ یہ تو پاکستان میں سودی نظام کے خاتمہ کی شروعات ہے۔ یہ سب سن کر میرے دل اور میری زبان سے مریم صاحبہ کے لیے بہت دعائیں نکلیں۔ میں نے انہیں کہا کہ انشااللہ میرا رب آپ کو اپنے اس عمل کی وجہ سے آخرت میں بخشش عطا فرمائے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُن سے یہ کام اللہ کی ذات لے رہی ہے اور اس میں نہ تو سیاست ہے اور نہ دکھاوا۔ باتوں باتوں میں مریم صاحبہ نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اُن کے بھائی حسین نواز جو سعودی عرب میں کاروبار کرتے ہیں انہوں نے بھی اپنے کاروبار کو سود کی لعنت سے پاک کرلیا ہے۔فون بند ہوا تو میں نے سوچا کہ میاں نواز شریف کتنے خوش نصیب ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے اُن کوایسی صالح اولاد سے نوازا ۔ مریم صاحبہ نے ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ یہ بات کی کہ انہیں پہلی فکر اپنے والد اور پھر اپنی آخرت کی ہے اور وہ نہیں چاہتیں کہ اُن کے والد کو ایسے کسی معاملہ میں آخرت میں مشکل پیش آئے۔"
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=154210
ایچ اے خان
 

فلک شیر

محفلین
اگر ایسا ہوتا ہے، تو یقیناً انتہائی خوش آئند ہے۔ اور اس ضمن میں کوشش کے لیے انصار عباسی صاحب اور مریم نواز صاحبہ مبارکباد اور تحسین و ستائش کے مستحق ہیں۔ سود کی لعنت سے چھٹکارا پانے کے لیے کسی کا بھی اٹھایا ہوا قدم ہمارے لیے قابل تقلید ہے۔
اللہ تعالیٰ توفیق سے نوازیں اور قبول فرمائیں۔
 
اگر ایسا ہوتا ہے، تو یقیناً انتہائی خوش آئند ہے۔ اور اس ضمن میں کوشش کے لیے انصار عباسی صاحب اور مریم نواز صاحبہ مبارکباد اور تحسین و ستائش کے مستحق ہیں۔ سود کی لعنت سے چھٹکارا پانے کے لیے کسی کا بھی اٹھایا ہوا قدم ہمارے لیے قابل تقلید ہے۔
اللہ تعالیٰ توفیق سے نوازیں اور قبول فرمائیں۔
ویسے اگر واقعی یہ کام ہوجائے تو بلا سود سکیموں کا رواج چل پڑے گا اور یہ طریقہ ہوسکتا ہے دوسرے بینک بھی اپنا لیں۔
 

فلک شیر

محفلین
ویسے اگر واقعی یہ کام ہوجائے تو بلا سود سکیموں کا رواج چل پڑے گا اور یہ طریقہ ہوسکتا ہے دوسرے بینک بھی اپنا لیں۔
سیاسی قیادت کی خواہش اس سلسلہ میں بہت اہم ہے۔ اسلامی نظام معیشت کی deliverance پہ جو شکوک و شبہات مختلف حلقوں کی طرف سے سامنے آتے ہیں ، اُن کا مؤثر علمی جواب حکمران طبقات تک پہنچا کر اس جانب کلیدی قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔سودی نظام کے چنگل میں جکڑی انسانیت کو اس سے نجات دلانے کے لیے اتنی ہی بڑی کاوش کی ضرورت ہے، جتنا بڑا اس سرمایہ دارانہ نطام کا جال ہے۔
بہت سے مخلص مسلمان ، صرف اس وجہ سے غیر سودی بینکاری اور لین دین کی مخالفت کرتے ہیں ، کہ وہ اس کو فی زمانہ ناممکن العمل تصور کرتے ہیں۔ اس ضمن میں سنجیدہ حلقوں کو مناسب حل اور تجاویز کے ساتھ ارباب اقتدار کو متوجہ کرنا چاہیے، کیونکہ صرف حلت و حرمت کا حکم سنا کر آپ لوگوں کو اتنی بڑی تبدیلی پہ قائل نہیں کر سکتے۔
اللہم انصر من نصر دین محمد صلی اللہ علیہ و سلم
 

سید ذیشان

محفلین
اس پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے جو بوجھ چند قرض داروں نے اٹھانا تھا اب وہ مہنگائی کی صورت میں سب لوگ اٹھائیں گے۔ اور ساتھ میں شریفوں کی آخرت بھی سنور جائے گی۔ ہم خرما و ہم ثواب!
 

یوسف-2

محفلین
پاکستان میں مروج ”اسلامی بنکاری“ پر بھی تا حال اتفاق رائے نہیں ہے۔ ایک بڑے مکتبہ فکر کا کہنا ہے کہ یہ بھی عملاً سودی ہی ہے، صرف نام اور طریقہ کار تبدیل شدہ ہے۔ جبکہ دوسرا گروپ کہتا ہے کہ یہ روایتی سودی بنکنگ سسٹم سے تو بہتر ہی ہے اور اسلامی بنکنگ کی جانب ایک اہم قدم۔

حکومت سودی قرضہ دینے پر اس لئے بھی ”مجبور“ ہوتی ہے اسے جب یہ قرضے واپس ملیں تو روپے کی ”ڈیویلیویش“ اور سودی رقم مل کر اس مالیت کے برابر تو ہوجائے جو اس نے بطور قرض دیا تھا۔ لیکن اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ حکومت قرضہ روپے میں دینے کی بجائے گولڈ میں قرض دے۔

اگر حکومت نوجوانوں کو ”ایک لاکھ روپے کا قرضہ“ جاری کرنے کی بجائے ”20 گرام 22 قیراط کا سونا“ بطور قرض جاری کرے جو مناسب قسطوں (جیسے ایک سال کے بعد سے ایک گرام سونا ماہانہ) کے ذریعہ واپس لے تو حکومت کو ”ڈیویلیوڈ مالیت کی واپسی“ سے بھی نجات مل جائے گی اور سود کا چکر سرے سے ہی ختم ہوجائے گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت لوگوں کو سونا کیسے دے گی اور لوگ ایک ایک گرام سونا کیسے واپس کریں گے۔ ایسا عملی طور پر تو ممکن نہیں ہے۔ اس کا ایک آسان سا حل ہے کہ ۔۔۔ حکومت قرضہ تو 20 گرام سونا ہی منظور کرے۔ لیکن ”قرض کی ڈیلیوری“ میں یہ آپشن کھلا رکھے کہ قرض لینے والا، جس روز قرض وصول کرے، وہ چاہے تو سونے میں وصول کرے، چاہے تو اس روز اس کی قیمت کے مساوی روپیہ وصول کرلے ۔ یہ اوپن آپشن ہوگا تو لوگ مساوی روپیہ ہی لینا پسند کریں گے، سونا لے کر بھی تو اسے فروخت ہی کرکے کوئی کام شروع کریں گے۔ اسی طرح قرض کی واپسی کا بھی دو آپشن ہو کہ یا تو ایک گرام سونے کی قسط جمع کراؤ یا اس روز ایک گرام سونے کی مالیت کے مساوی روپیہ۔

اگر حکومت پیپر کرنسی کو ختم کرکے سونے چاندی کا ”روپیہ“ جاری کردے تو تو اس سودی نظام سے بھی چھٹکارا مل سکتا ہے، روپیہ کی ڈی ویلیوایشن، افراط زر اور مہنگائی، ان سب مسائل کا حل نکل آئے گا۔ لیکن ایسی صورت میں حکومتی جماعت کی سرکاری خرچہ پر عیاشی کا سلسلہ ختم ہوجائے گا۔

واللہ اعلم بالصواب
 
قرضے کا لفظ اگر استعمال کریں گے تو اس میں کسی قسم کے منافع کی کوئی گنجائش نہیں رہتی جب قرض کی واپسی میں منافع شامل ہوا تو اسی کو سود کہتے ہین۔۔
چنانچہ اس سارے کام کو اسلمائز کرنے کیلئے ایک ہی حل ہے کہ اسے قرض کی بجائے بیع و شراء یعنی خرید و فروخت کے معاہدے کے طور پر لیا جائے۔۔۔
 
اس پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے جو بوجھ چند قرض داروں نے اٹھانا تھا اب وہ مہنگائی کی صورت میں سب لوگ اٹھائیں گے۔ اور ساتھ میں شریفوں کی آخرت بھی سنور جائے گی۔ ہم خرما و ہم ثواب!
یااللہ ہمیں اجتماعی مایوسی سے نجات دے۔ آمین
 
سونے چاندی والا حل فیالوقت قابلِ عمل نہیں ہے۔۔۔نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
قابلَ عمل حل میں سے ایک ممکنہ صورت یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت قرضہ کسی فرد کوجاری کرنے کی بجائے براہِ راست سرمایہ کاری کرے۔ یعنی اگر کوئی شخص اپنے بزنس کیلئے کچھ سامان وغیرہ لینا چاہتا ہے (زمین، مشینری، خام مال وغیرہ) تو حکومت یہ سامان خود خرید کر اسے قسطوں پر مذکورہ فرد کے حوالے کرے (اور ان قسطوں میں اپنا منافع رکھ لے)۔۔۔اس صورت میں کوئی سود نہیں ہے
 

سید زبیر

محفلین
ہمیں یقیناً حسن ظن سے کام لینا چاہئے ورنہ یہاں تو ایسی بھی خبریں ہیں
اسلام ٹائمز۔ پاکستان میں 210 ارب کے مضاربہ سیکنڈل میں آزاد کشمیر کے شہریوں کے بھی کروڑوں روپے ڈوب گئے۔ مفتی احسان، مفتی غلام رسول اور دیگر بڑے بڑے مفتی دین دار طبقوں کی جمع پونچی گنوا بیٹھے۔ مظفرآباد، میرپور، راولاکوٹ، پلندری، باغ، حویلی، ہٹیاں بالا، نیلم، بھمبر اور کوٹلی اضلاع کے ہزاروں شہریوں نے پاکستان کے بااثر دین دار شخصیات کی ترغیب پر سودی نظام سے تنگ آکر 10 سے 15 فیصد حلال منافع کی لالچ میں آ کر کروڑوں انویسٹ کیے۔ ابتداء میں ان گروپوں نے جن میں سپیڈ بکس سرفہرست ہے، نے لاکھوں لوگوں کو ماہانہ 8 فیصد منافع فراہم کیا۔ بعد ازاں چھ ہزار اور بتدریج کم کرتے کرتے ایک ہزار اور پھر غائب ہوگئے۔
ذرائع کے مطابق بین الاقوامی سمگلر جو کہ افغانی نژاد ہے اور ایوبی کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے، سابق وزیراعظم سید یوسف گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کا قریبی دوست ہے۔ جو آزاد کشمیر کی وادی نیلم ، سوات اور بلوچستان کی کانوں سے قیمتی پتھروں کی سمگلنگ کرتا ہے۔ جو کہ پاکستان سے افغانستان اور پھر افغانستان سے وسطی ایشیائی ریاستوں کے زریعے پورپ کی منڈیوں تک سمگلنگ کرتا ہے وہ بھی اس مضاربہ سیکنڈل میں شامل ہے۔ جس نے پاکستان کے بڑے بڑے مفتیوں کو کمال چالاکی سے اپنے جال میں پھنسا کر قوم کے دو سو دس ارب روپے ہتھیا لیے۔ ذرائع کے مطابق ایوبی نے مضاربہ کمپنیوں کو باور کروایا کہ وہ حلال کاروبار کرتا ہے اس کے عرب امارات اور کویت میں بحری جہاز چلتے ہیں اور دنیا بھر میں ہوٹلنگ کا کاروبار ہے۔ ذرائع کے مطابق پیسہ ہتھیانےکے بعد ایوبی اور اس کے کئی ساتھی پاکستان سے فرار ہو چکے ہیں۔
مظفرآباد میں مضاربہ کے شکار وزیراعظم ہائوس کے امام قاری عبدالغفور نے بتایا کہ مضاربہ کے عنوان سے حلال منافع کا حصول ہمارے لیے بڑی حوصلہ افزاء خبر تھی۔ بینکوں میں سودی لین دین سے تنگ آ کر میں نے اپنی جمع پونچی مبلغ آٹھ لاکھ روپے مضاربہ میں شامل کر دیئے۔ شروع میں منافع ملا بعد ازاں ایجنٹ نے بتایا کہ کمپنی کا مالک فرار ہو چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق مضاربہ سیکنڈل کی نذر ہونے والے سرمائے میں آزاد کشمیر کے ضلع حویلی اور باغ کے لوگوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔


اس راز کو اب فاش کر اے روحِ محمدﷺ
آیاتِ الہٰی کا نگہبان کدھر جائے
 

قیصرانی

لائبریرین
کافی معلوماتی۔ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا پلاننگ ڈویژن کتنی سٹریٹجک سوچ رکھتا ہے۔ ایک سکیم کو لانچ کیا گیا ہے اور فوراً ہی اس میں تبدیلیاں۔ کیا کسی معاشیات دان کی رائے لی گئی کہ اس سے ملک کی معیشت پر کیا اثر پڑے گا؟ ایک لاکھ افراد بھی اگر دو لاکھ روپے (کم از کم حد) کا قرض لیں تو یہ کل رقم جا کر 20 ارب روپے بنتی ہے۔ تاہم اگر اس کو زیادہ سے زیادہ حد رکھ کر دیکھا جائے تو یہ رقم 2 کھرب روپے کے مساوی بنتی ہے۔ ڈالروں میں دیکھا جائے تو ایک اندازہ ہے کہ 20 کروڑ ڈالر (جو کہ مناسب رقم ہے) سے لے کر دو ارب ڈالر تک بنتی ہے۔ کیا کوئی ماہر معاشیات مجھے یہ بتا سکتا ہے کہ پاکستان کا 2013-14 کا بجٹ (جو کہ ساڑھے تین ٹریلین روپوں کے برابر ہے) کتنے کھرب روپے کا ہوگا؟ اس میں سے کتنی رقم قرضوں کی ادائیگی کے لئے نکلے گی، کتنی رقم دفاع، تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں کے لئے جائے گی؟
اس کے بعد ہم مل کر اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ حکومت اس قرض سکیم میں کتنی سنجیدہ ہے
 
قیصرانی میں آپ کو بتاؤں کہ یہ گنجا ایسی ہی حرکتیں کرتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔میں ایک مرتبہ فیصل آباد میں تھا تقریبا 20 سال پرانی بات ہے میں پنجابی سمجھتا تھا لیکن بول نہیں سکتا تھا اور میرا حاضرین پر تاثر بھی یہی تھا کہ مجھے پنجابی نہیں آتی ہے ۔۔۔ بہرحال ادھر میں نے ایک حرکت پٹھانوں والی کردی تو محفلین میں سے ایک بولا کہ جناب آپ پٹھان ہیں تو میں نے کہا جی علاقہ کی نسبت سے پٹھان ہوں تو اس نے ایک لمبی ہووووووووووں کی ۔۔۔۔۔پھر آپس میں کہنے لگے کہ پٹھان لگ دا نہیں سی ۔۔۔۔۔ دوسرا بولا کہ جناب ایس طرح دی حرکت نہ کردا تے فیر پتہ کس طرح لگدا کے اے پٹھان اے۔
جناب قیصرانی صاحب تکے گوشت اور پھجے کے پائے کھا کھا کر گنجے کے دماغ میں بُھس بھر گیا ہے ۔۔۔۔ ایسی حرکتیں نہیں کرے گا تو پتہ کیسے چلے گا کہ جس طرح سَر بالوں سے خالی ہے اسی طرح دماغ بھی عقل سے خالی ہے بلکہ عین ممکن ہے گاؤ ماتا کا مغز اس میں ہو ویسے بھی انڈیا کی محبت میں بہت زیادہ ۔۔۔گااااااااااااااااااںںںںںںںںںںں کرتا ہے۔
 

ابن رضا

لائبریرین
اس پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے جو بوجھ چند قرض داروں نے اٹھانا تھا اب وہ مہنگائی کی صورت میں سب لوگ اٹھائیں گے۔ اور ساتھ میں شریفوں کی آخرت بھی سنور جائے گی۔ ہم خرما و ہم ثواب!
اگر اس کا صحیح استعمال ہو تو خوش آئند اقدام ہے۔

تھوڑی وضاحت ضروری ہے ذیشان بھائی کہ مذکور سکیم کو روایتی بنک کاری سے نکال کر اسلامی بنک کاری میں منتقل کرنے کا فیصلہ مہنگائی پر نہ ہی ٹیکس پیئر پر اثر انداز ہوگا تاہم معمولی حد تک ہو بھی سکتا ہے۔ کیونکہ سود کی جگہ اب حکومت کی شراکت ہو گی کاروبار میں اور 10 فیصد سرمایہ تاجر کا اور 90 فیصد حکومت کا ہو گا۔ لیکن تاجر کی محنت بھی ساتھ شامل ہوگی اس لیے نفع و نقصان میں اس کے حصے کی شرح زیادہ ہوگی۔ اب حکومت براہ ِ راست قرض دینے کی بجائے ایک طے شدہ قیمت پر حصے دار ہوگی۔

اس کا فائدہ خاص عوام کومتوقع ہے۔ اور حکومت کو افراطِ زر کی وجہ سے نقصان بھی ہو سکتا ہے مگرفائدہ اپنی جگہ۔ وہ اس طرح کہ روایتی بنکاری میں سود کا میڑقرض کی ادائیگی تک رواں دواں رہتا ہے اور اصل زر کی ذمہ داری اپنی جگہ علیحدہ چاہے ذاتی املاک بیچ کر پورا کیا جائے۔ جبکہ اسلامی بنکاری میں چاہے کاروبار ڈیفالٹر ہو جائے منافع کا میڑ پہلے سے طے شدہ مدت سے تجاوز نہیں کرسکتا (مرابحہ ، مشارکہ کی صورت میں )بلکہ نقصان کی صورت میں منافع کا میڑ نقصان کے میٹر میں بھی بدل سکتاہے ۔ اور مزید یہ کہ کاروبار میں ناکامی و نقصان کی صورت میں تاجر اپنے 10 فیصد حصے سے محروم اور حکومت اپنے 90 فیصد اصل زر سے بھی محروم ہو سکتی ہے۔ میری دانست میں حکومت ایسی پردڈکٹ کو ترجیح دے گی جس میں اصل زر و طے شدہ منافعے کا خسارہ نہ ہو۔ تاہم اوور ڈیو کی صورت میں اضافی مدت کا کچھ منافع نہیں ملے گا۔اور ایسا ہوتا آیا ہے کہ سرکاری مال کو مالِ مفت دلِ بے رحم کے مصداق استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے عام آدمی کو فائدہ کم اور ڈیفالٹ کرنے والوں کے لیے اچھا موقع بھی فراہم ہو گیا ہے۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے ۔ کہ ہم اپنی حدوں سے تجاوز نہ کریں اور اللہ کی دی گئی نعمتوں کا اچھا استعمال کریں۔ حُسنِ ظن و حُسن ِ عمل کا ثبوت دیں ۔ آمین۔
 
آخری تدوین:
Top