وزیراعظم کا تفصیلی انٹرویو ......."آج کامران خان کے ساتھ ""

زین

لائبریرین
حساس نوعیت کے فیصلے عوامی مفاد میں ہونے چاہئیں، وزیراعظم
امریکی حملے رکوانے کیلئے حکمت عملی بنانی پڑیگی، امریکی حملوں کے معاملے پر اقوام متحدہ میں جانے کے علاوہ ہمارے پاس بہت سے آپشن ہیں،بااختیار وزیراعظم ہوں کوئی حکومتی فیصلہ میرے بغیر نہیں ہوتا
تمام فیصلے ایوان صدر میں ہونے کا تاثر غلط ہے، پنجاب حکومت چلتا دیکھنا چاہتے ہیں، پاکستان ایک جوہری طاقت اور ذمہ دار ملک ہے،سید یوسف رضا گیلانی کا نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو
اسلام آباد ............. وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ حساس نوعیت کے فیصلے عوامی مفاد میں ہونے چاہئیں، امریکی حملے رکوانے کیلئے حکمت عملی بنانی پڑیگی، امریکی حملوں کے معاملے پر اقوام متحدہ میں جانے کے علاوہ ہمارے پاس بہت سے آپشن ہیں،بااختیار وزیراعظم ہوں کوئی حکومتی فیصلہ میرے بغیر نہیں ہوتا،تمام فیصلے ایوان صدر میں ہونے کا تاثر غلط ہے، 17 ویں ترمیم کے خاتمے کے حوالے طریقہ کار کے تحت عمل کیا جائیگا، اعلیٰ عدلیہ کے بارے پارلیمنٹ جو طے کریگی ہم بھی وہی کرینگے، پنجاب حکومت چلتا دیکھنا چاہتے ہیں، ہرگز نہیں چاہتے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی پنجاب میں اتحاد سے علیحدہ ہو جائیں، قومی اسمبلی کا اجلاس جلد بلایا جائیگا اور صدر کے خطاب پر بحث ہوگی، پاکستان ایک جوہری طاقت اور ذمہ دار ملک ہے،ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں کیا۔ اس دوران وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کے حوالے سے ماضی کی حکومتوں کا تجربہ سب کے سامنے ہے، ماضی کی کسی حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے معاملے کی کابینہ سے منظوری نہیں لی۔ انہوںنے کہاکہ پہلی دفعہ ہماری حکومت نے آئی ایم ایف سے قرضے کیلئے کابینہ سے منظوری لی ہے جس میں ہمارے اتحادی بھی شامل ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہماری اتحادی حکومت ہے اور مضبوط اپوزیشن ہے۔ وزیراعظم نے کہاکہ بڑی طاقتیں بھی آئی ایم ایف سے قرضے کیلئے قطار میں لگی ہوئی ہیں ہمیں یہ سوچ ہونی چاہئے کہ آئندہ معاشی صورتحال کیا ہوگی۔ ملکی صورتحال کو دیکھتے ہوئے آئی ایم ایف سے بہت پہلے رجوع کرلیا تھا ۔ انہوںنے کہاکہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کے حوالے سے تنقیدبھی سن رہا ہوں۔ آئی ایم ایف سے قرضے کی شرائط کے حوالے سے انہوںنے کہاکہ ہم آئی ایم ایف کی بہت سی شرائط پر ہی عمل کر چکے تھے ۔ انہوںنے کہاکہ آئی ایم ایف جو آج ہمارے سامنے شرائط رکھتا وہ ہم پہلے ہی پوری کر چکے ہیں۔ انہوںنے کہاکہ ہم ایک آزاد ملک ہیں کسی کے پابند نہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ پوری دنیا میں تبدیلی آئی ہے بارک اوباما کی جیت تبدیلی کی علامت ہے۔ جنرل پیٹرس نے خودیہبیان دیا ہے کہ وائٹ ہائوس کی غلطیوں کی وجہ سے پاکستان میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ انہیں بھی اس معاملے پر نظر ثانی کرنی پڑی گی۔ وزیراعظم نے کہاکہ امریکی حملے رکوانے کیلئے حکمت عملی بنانی پڑیگی۔ وزیراعظم نے کہاکہ سابق حکومت اور سابق صدر پرویز مشرف نے امریکہ سے معاہدے کئے یا نہیں اس کا ہمیں کوئی علم نہیں۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان پر امریکی حملوں کے حوالے سے حکومت کا امریکہ کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا اس حوالے سے واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ بے بنیاد ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ امریکی حملوں کے معاملے پر اقوام متحدہ میں جانے کے علاوہ بھی ہمارے پاس بہت سے آپشن ہیں۔ کمیٹی اس بات کا فیصلہ کریگی کہ امریکی حملوں کو رکوانے کیلئے اور کیا کیا جا سکتا ہے۔ انہوںنے کہاکہ فوج سول حکومت کے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی حکومتی رٹ چیلنج ہوتی ہے وہاں فوجی ایکشن کیا جاتا ہے جسے صوبائی حکومت اور عوام کی حمایت حاصل ہو تی ہے۔ انہوںنے کہاکہ عسکریت پسندوں سے نمٹنے کیلئے قبائل میں لشکر تشکیل دیئے گئے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ صدر آصف زرداری نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا تھا جس پر بحث کی گئی ہے ۔ انہوںنے کہاکہ قومی اسمبلی کا اجلاس جلد بلایا جائیگا اور صدر کے خطاب پر بحث ہوگی۔ 17 ویں ترمیم کے خاتمے اور صدرکے اختیار میں کمی کے سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ آپ کو اتنی جلدی کیوں ہے قوم سے وعدہ کیا ہے تو اس پر ایک طریقہ کار کے تحت عمل کرینگے۔ انہوںنے کہاکہ 17 ویں ترمیم اور 58 ٹو بی کا خاتمہ پیپلزپارٹی کے منشور میں شامل ہے۔ صدر زرداری پہلے صدر ہیں جنہوںنے خود کہا ہے کہ میں اپنے اختیارات ختم کرنا چاہتا ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ میں ایک بااختیار وزیراعظم ہوں کوئی حکومتی فیصلہ میرے بغیر نہیں ہوتا یہ بات درست نہیں کہ تمام فیصلے ایوان صدر میں کئے جاتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ میں چاہتا ہوں کہ تمام اداروں میں میرٹ کے مطابق تعیناتیاں کی جائیں۔ انہوںنے کہاکہ اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں جو پارلیمنٹ طے کریگی ہم اس کے پابند ہیں اور ہم وہی کرینگے ۔ انہوںنے کہاکہ سابق چیف جسٹس اور سابق صدر اس وقت بیرونی ممالک کے دورے پر ہیں۔ انہوںنے کہاکہ محترمہ بینظیر بھٹو کو ہیومن رائٹس کا ایوارڈ دیا گیا اور سابق چیف جسٹس کو بیرون ملک ایوارڈ سے نوازا گیا ۔ ٹی وی پروگرام کے ذریعے ان دونوں شخصیات کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ شریف برداران کی سپریم کورٹ میں پیش نہ ہونے کے فیصلے کے بعد وفاقی حکومت نے خود کیس کی پیروی کی۔ وزیراعظم نے کہاکہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا گیا تو سب سے پہلا احتجاج میں نے کیا تھا۔ انہوںنے کہاکہ پنجاب حکومت چلتا دیکھنا چاہتے ہیں خواہش نہیں کہ ن لیگ اور پی پی پنجاب میں اتحاد سے علیحدہ ہو جائیں۔ یوسف رضا گیلانی نے کہاکہ میں مری معاہدے کا حصہ نہیں تھا۔ ان کی ایسی میں جو باتیں ہوئیں ان کی تصدیق کرنے کی کوشش نہیںکی جو باتیں ہوئی ہیں وہ مختلف جماعتوں کی اپنی اپنی منشور ہیں اور دونوں جماعتوں کے مختلف خیال ہیں میں اس پر بات نہیں کر سکتا کیونکہ میں متعلقہ آدمی نہیں ہوں۔ انہوں نے کہاکہ اگر کوئی عدلیہ کا آدمی کرپشن میں ملوث ہوگا تو اعلیٰ عدلیہ ہے فوج کیلئے کورٹ مارشل ہے ۔ ایک سوال میں انہوںنے کہاکہ اگر ایک سول آدمی کرپشن کریگا تو اس کیلئے پی اے سی ہے۔ اگر وہ چاہے تو وہ مسئلہ کو متعلقہ حکام کو بھیج سکتی ہے۔ نیب صرف ہمارے لئے بنائی گئی تھی میں مظلوم ہوں ایک سزا دی اور دوسرا اپنے پاس رکھے ۔ انہوںنے کہاکہ احتساب کا نظام صرف پارلیمنٹرین کیلئے نہ ہو بلکہ سب کے لئے ہو۔ نیب کو میرے زیر اثر کرکے مجھے اذیت میں مبتلا کر دیا گیا۔انہوںنے کہاکہ پی اے سی کا چیئرمین اپوزیشن میں سے لیکر اپنی داڑھی ان کے ہاتھ میں دے دی ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتے ہیں۔ صدر کی بھارت کو جوہری معاہدے کی پیش کش ابھی ایک تجویز ہے فیصلہ انہوںنے کرنا ہے۔ انہوںنے کہاکہ احساس نوعیت کے فیصلے جو عوام کے فائدے میں ہوں تو حکومت کو کرنے چاہئیں۔ میڈیا اور اپوزیشن اور کچھ لیڈر پاکستان کے انٹرنل ایشوز پر غیر ذمہ داری کا تاثر دیتے ہیں ہم یہ تاثر ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان غیر ذمہ دار ن ملک نہیں ہے۔ انہوںنے کہاکہ کرزئی حقیقت میں صدر ہیں حکومت کے حکومت سے رابطے ہوتے ہیں اس لئے ان سے رابطے ہیں ۔دیگر لوگوں سے رابطے کرے ہم کیوں ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کریں۔ ا نہوںنے کہاکہ پبلک اکائونٹس کمیٹی کا چیئرمین اپوزیشن لیڈر کو بنایا گیا ہے قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات ارکان کا احتساب ہوتا ہے آئین کے تحت وزیراعظم ، وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت جواب دہ ہیں اللہ کرے ہماری حکومت مدت پوری ورنہ پہلے تو یہ ہوتا آیا ہے کہ حکومتیں تین سال سے زیادہ کا عرصہ پورا نہیں کرتیں۔ ہمارا احتساب عوام کرینگے ہم پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم حقیقی ایشوز پر توجہ دینا چاہتے ہیں صدر مملکت آصف زرداری کی جانب سے بھارت کو دی گئی تجاویز پر بحث ہوگی۔ انہوںنے کہاکہ پاکستان ایک جوہری طاقت ہے اور وہ ایک ذمہ داری اور طاقتور ریاست ہے اور ہم کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائینگے جس سے دنیا کو لگے کہ ہمارا یہ قدم غیر ذمہ دارانہ ہے۔
 

طالوت

محفلین
موصوف انٹرویو کے دوران وصی ظفر بننے کی کوشش کر رہے تھے ۔۔ اور "سوال گندم جواب چنے" کی صورت میں دے رہے تھے ۔۔ تمام وقت کامران خان کو سر سے پاؤں تک عجیب نظروں سے دیکھتے رہے ، شاید مرعوب کرنے کی کوشش میں مصروف تھے ۔۔۔ معلوم ہوتا تھا کہ مشرف کے مشیران میں سے کوئی مشیر انھوں نے بھی رکھ لیا ہے ۔۔ عجیب بھونڈا انداز ، نہ بات میں ربط نہ سوال کو سمجھنے کی صلاحیت ، انگریزی کے اٹک اٹک کر جملے ادا کر رہے تھے کہ جیسے "Mr. President Bush" والی تقریر کا تاثر ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہوں ۔۔
اور پھر اس پر یہ کہ خود کو عوامی نمائندہ عوامی نمائندہ فرما رہے تھے مگر شاید اتنا بھی نہیں جانتے کہ جس حلقے کی عوام سے وہ ووٹ لے کر آئے ہیں وہ بے چارے تو اردو بھی ٹھیک سے سمجھ نہیں سکتے چہ جائیکہ انگریزی کو سمجھیں ۔۔
وسلام
 

زین

لائبریرین
میں‌خود رات کو مصروف تھا اسلیے انٹرویو نہیں‌ دیکھا سکا۔
ویسے زرداری صاحب کو تو ایسا ہی وزیراعظم چاہیئے تھا جیسے مشرف کوشوکت عزیز کی
گزشتہ روز میڈیا سے گفتگو کے دوران امریکی حملوں کے بارے میں‌پوچھے گئے انتہائی اہم سوال کا موصوف نے مذاق میں جواب دیا ۔ ملک کو توڑنے کی ساشیں ہورہی ہیں اور انہیں‌یہ سب کچھ مذاق لگتا ہے ۔ بلوچستان میں‌آزادی کے نعرے لگ رہے ہیں حتیٰ کہ صوبائی اسمبلی کے فلور پر بھی آزادی کی باتیں ہورہی ہیں ۔ دوسرے صوبوں‌کے لوگوں کو شاید اس بات کا احساس نہیں ۔ اگر کوئی یہاں کوئٹہ آئے تو پتہ چلے کہ ہر دیوار پر کیا نعرے لکھے گئے ہوتے ہیں، جلسوں میں ملک کے خلاف کیا کیا بولا جاتا ہے ؟
اور دوسری طرف ہمارے وزیراعظم اور صدر صاحب کو عیاشیوں سے فرصت نہیں ملتی ،ملک دیوالیہ ہوگیا لیکن صدر صاحب سینکڑوں ""لوٹ ماروں""کے ساتھ سرکاری خرچے پر ایک مہینے میں ہی پوری دنیا دیکھنے کے خواہشمند ہیں‌پھر بھیک مانگتے ہوئے انہیں شرم بھی نہیں‌آتی ۔ بلوچستان کی طرف یہ لوگ تھوڑی سی بھی توجہ دے نا تو سب مسائل حل ہوسکتے ہیں‌کیا نہیں‌ہمارے پاس ، گیس ہے ، سونا ، چاندی، کوئلہ، سنگ مرمر کے اتنے بڑے بڑے ذخائر ہیں ۔سینٹ کی مجلس قائمہ برائے داخلہ کے چیئرین سینیٹر طلحہ محمود کل یہاں‌کوئٹہ آئے تھے ،وہ کہہ رہے تھے کہ اگر بلوچستان کے لوگوں‌کو اعتماد میں‌لیکر یہاں کے وسائل کو بروئے کار لایا جائے تو ملک کےذمے واجب الا داقرضے کچھ ہی عرصے میں ختم ہوسکتے ہیں اور پھر ہمیں‌کسی سے بھیک مانگنے کی ضرور نہیں‌پڑےگی ۔
لیکن ہمارے حکمران بجائے وفاق اور صوبے کے درمیان خلیج ختم کرنے کے ،مزید دوریاں پیدا کررہے ہیں ۔
لعنت ہو ایسے حکمرانوں پر
 
Top