وحدت الوجود

شاکرالقادری

لائبریرین
ہندوستان کی بہت بڑی شخصیت
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
جن کے تبحر علمی کے اپنے پرائے سبھی قائل ہیں
وہ بھی
وج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ودی
ہیں
اور یہ کوئی دقیانوسی مسئلہ نہیں
اردو ادب خاص طور پر اردو شعر کی رگ رگ میں اس فلسفہ نے سرایت کی ہوئی ہے
چند سال پہلے ہی
علامہ قبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر نے
اردو غزل میں وحدۃ الوجود کی روایت پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیا ہے جس پر انہیں
ڈاکٹریٹ کے اعزاز سے نوازا گیا
 
شاکر بھائی ، مہربانی کر کے فلسفہ وحدت الوجود پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈال دیں‌،، تاکہ ‌لاعلم افراد بھی اس بارے میں ‌جان سکیں ۔ ۔
 
کہ
شاکرالقادری نے کہا:
ہندوستان کی بہت بڑی شخصیت
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ
جن کے تبحر علمی کے اپنے پرائے سبھی قائل ہیں
وہ بھی
وج۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ودی
ہیں
اور یہ کوئی دقیانوسی مسئلہ نہیں
اردو ادب خاص طور پر اردو شعر کی رگ رگ میں اس فلسفہ نے سرایت کی ہوئی ہے
چند سال پہلے ہی
علامہ قبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے تعلق رکھنے والے پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر نے
اردو غزل میں وحدۃ الوجود کی روایت پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مکمل کیا ہے جس پر انہیں
ڈاکٹریٹ کے اعزاز سے نوازا گیا

شاکر صاحب ،

دقیانوسی فلسفہ تو ہرگز نہیں ہے مگر کافی الجھا ہوا اور پیچیدہ ضرور ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی اور علامہ اقبال کے بارے میں دو رائے پائی جاتی ہیں کہ وہ پہلے وحدت الوجود کے قائل تھے اور پھر وحدت الشہود کے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا سارے وجودیوں کے عقائد ایک سے ہیں یا ان میں فرق پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے بات کہیں سے کہیں جا نکلتی ہے۔

منصور حلاج پر کفر کے فتوے کے بارے میں جنید بغدادی رحمہ(جو خود وجودی صوفیا میں بہت بڑا مقام رکھتے ہیں) سے پوچھا گیا کہ کیا یہ فتوی ٹھیک ہے تو ان کا جواب تھا کہ

حالت ظاہری پر تو یہ فتوی درست ہے البتہ باطن کا حال خدا بہتر جانتا ہے۔
 

حسن نظامی

لائبریرین
السلام علیکم
بھئی میں تو آپ بڑے بڑے حضرات سے ایک انتہائی عاجزانہ سی درخواست کروں گا کہ اس فلسفہ کو یہیں کلوز کر دیا جائے کیونکہ صوفیاء نے جو کہ اس کی پیچیدگیوں کو جانتے تھے کبھی بھی عوام کے سامنے بیان نہیں کیا تو ہم کون ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والسلام
 

شاکرالقادری

لائبریرین
جناب شاہد احمد خان صاحب
آ پ نے مجھے حکم دیا ہے کہ وحدت الوجود کے بارے میں مختصرا یہاں کچھ لکھوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ فورم وحدت الوجود جیسے دقیق اور ادق فلسفہ کا متحمل نہیں ہو سکتا اور نہ ہی یہ فلسفہ ایسا ہے کہ اس کو عوامی سطح پر زیر بحث لایا جا سکے --
فی الحال حضرت منصور حلاج اور ان کے نعرہ "انا الحق"کے بارے میں ڈاکٹر نکلسن کی مشہور عالم کتاب Idea of Personality in Sufismکا ایک اقتباس آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے نہایت سادہ الفاظ میں منصور حلاج کے نعرہ "انا الحق" کی وضاحت کی ہے
"اگرچہ حضرت حلاج نے انا الحق کا نعرہ لگایا جس کا مطلب یہ ہے کہ میں حق ہوں لیکن وہ بھی نہایت پرزور الفاظ میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالی وراء الوراء ہے اور خالق و مخلوق ایک نہیں ہو سکتے " "حضرت حلاج کے "انا الحق"کا مطلب یہ نہ تھا کہ میں خدا ہوں بلکہ یہ تھا کہ میں حق ہوں ،یعنی سچ ﴿کریٹیو ٹرتھ﴾یہ نظریہ ہمہ اوست کے سراسر خلاف ہے کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہبے کہانسان خدا کا مظہر ہے یہ نظریہ حضرت عیسی علیہ السلام کے ان کلمات کے تقریبا مطابق ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ جس نے مجھے دیکھا باپ ﴿خدا ﴾ کو دیکھا لیکن یہ نظریہ جسے حلول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اسلام میں جڑ نہ پکڑ سکا اسے حضرت حلاج اور ان کے مریدین نے ہی ختم کر دیا تھا۔ صوفیاء کا بیان ہے کہ حضرت حلاج کو اس لئے شہید نہیں کیا گیا تھا کہ وہ حلولی تھے بلکہ اس لئے کہ انہوں نے حق تعالی کا راز فاش کر دیا "
ڈاکٹر نکلسن اسی کتاب میں آگے چل کر حلاج کی پابندی شریعت کے بارے میں لکھتے ہیں
"جب حسین بن منصور حلاج کو پھانسی دینے کے لئے لایا گیا تو انہوں نے دارو رسن کو دیکھ کر قہقہہ لگایا اور اس زور سے ہنسے کہ آنکھوں سے پانی بہنے لگا اس کے بعد انہوں نے لوگوں کی طرف دیکھا اور اپنے پیر بھائی اور دوست ابو بکر شبلی کو دیکھ کر دریافت کیا کہ کیا آپ کے پاس مصلی ہے انہوں نے جواب دیا ہاں یا شیخ انہوں نے کہا اسے بچھا دو اس کے بعد حلاج نے آگے بڑھ کر دو رکعت نماز ادا کی "
ڈاکٹر نکلسن آگے چل کر لکھتے ہیں
"ایک دفعہ شیخ منصور بن حلاج خلیفہ منصور کی مسجد میں گئے اور لوگوں کو پکار کر کہا آو میں تمہیں ایک بات بتاتا ہوں یہ سن کر بے شمار لوگ آپ کے گرد جمع ہو گئے ان میں سے کچھ آپ سے محبت کرتے تھے اور کچھ آ پ سے نفرت کرتے تھے آپ نے فرمایا اللہ نے میرا خون تم پر حلال کیا ہے پس مجھے قتل کر ڈالو اس پر ایک بزرگ نے جن کا نام عبدالودود بن سعید بن عبدالغنی تھا آگے بڑھ کر کہا اے شیخ ہم ایسے شخص کو کس طرح قتل کر سکتے ہیں جو نماز پڑھتا ہے روزے رکھتا ہے اور قرآن مجید کی تلاوت کرتا ہے حلاج نے جواب دیا نماز پڑھنے روزے رکھنے اور تلاوت کلام پاک سے قتل ممنوع نہیں ہو جاتا مجھے قتل کرو تاکہ تم کو انعام ملے اور میں آرام کروں اس سے تم غازی بن جاو گے اور میں شہید اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان جو منصور حلاج کو غیرشرعی کہتے ہیں اور وہ غیر مسلم جو الزام لگاتے ہیں کہ صوفیاء نے جب اسلام کو روحانیت سے خالی دیکھا تو دوسرے مذاہب سے اسے حاصل کر کے اسلام سے منحرف ہو گئے سراسر لغو اور بے بنیاد ہے اور تعصب کا نتیجہ ہے "

آپ نے دیکھا کہ ڈاکٹر نکلسن جیسے محقق جو اوائل عمر میں مواد کی عدم فراہمی کی وجہ سے تصوف پر اعتراضات کی بوچھاڑ کرنے میں پیش پیش تھے اب کس طرح تحقیق مزید کی بدولت اس حقیقت کا اعتراف کر رہے ہیں کہ حضرت حلاج جیسے انا الحق کا نعرہ لگانے والے صوفی نے مرتے دم تک نماز روزہ اور تلاوت کی سختی سے پابندی کی اور شریعت اسلامی کو قائم رکھا ---
اس سلسلے میں وقتا فوقتا مزید مواد بھی پیش کرتا رہوں گا -- سر دست اتنے پر ہی اکتفا کرتا ہوں ۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
علامہ سر محمد اقبال رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
"خودی یا انا ، ذات انسانی میں اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے اور وجود حقیقی وہی ہے جسے اپنی حقیقت کا شعور ہو جتنا کسی کا شعور ذات گہرا ہے اتنا ہی مدارج حقیقت میں اس کا درجہ بلند ہے " ﴿ تشکیل جدید الہیات اسلامیہ صفحہ 110﴾
مزید فرماتے ہیں :
"یہ صرف تصوف تھا جس نے کوشش کی کہ عبادت اور ریاضت کے ذریعے واردات باطن کی وحدت تک پہنچے قرآن پاک کے نزدیک یہ واردات علم کا ایک سرچشمہ ہیں جن میں عالم تاریخ اور عالم فطرت کا اضافہ کر لینا چاہئے اور ان واردات کی نشو نما حضرت حلاج رحمہ اللہ تعالی کے نعرہ انا الحق میں اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی "
مزید فرماتے ہیں:
"ابن خلدون نے محسوس کر لیا تھا کہ ان مراتب کی تخلیق کے لئے ایسے منہاج علم کی ضرورت ہے جو فی الواقع موثر ہو جدید نفسیات کو بھی اگرچہ اس قسم کی کسی منہاج کی ضرورت کا اعتراف ہے لیکن اس کا قدم ابھی اس اکتشاف سے آگے نہیں بڑھا کہ صوفیانہ مراتب شعور کی خصوصیات کیا ہیں ہمارے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے اس قسم کے احوال اور مشاہدات کی تحقیق علمی نہج پر کی جائے جیسے حضرت حلاج کو پیش آئے جو کہ علم کا ایک سرچشمہ ہیں لیکن ہم ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکے "
 

شاکرالقادری

لائبریرین
مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی ایک تصنیف میں حضرت محی الدین ابن العربی جن کا مسلک وحدت الوجود تھا بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ فلسفہ انہی کا پیش کردہ تھا کی تعلیمات کو صحیح قرار دیا ملاحظہ ہو کتاب "تنبیہ الظرفی " از مولانا اشرف علی تھانوی ۔۔۔۔
 

قیصرانی

لائبریرین
جزاک اللہ شاکر القادری بھائی۔ کافی معلوماتی پوسٹیں ہیں۔ کسی حد تک تو میں نے یہ واقعات سیارہ ڈائجسٹ کے اولیائے کرام نمبر کی کسی جلد میں دیکھے تھے، لیکن باقی تفصیل ابھی آپ کی زبانی پتہ چلی
 

شاکرالقادری

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
شاکر صاحب ،

دقیانوسی فلسفہ تو ہرگز نہیں ہے مگر کافی الجھا ہوا اور پیچیدہ ضرور ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی اور علامہ اقبال کے بارے میں دو رائے پائی جاتی ہیں کہ وہ پہلے وحدت الوجود کے قائل تھے اور پھر وحدت الشہود کے۔
جناب محب علوی!
حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کے متعلق اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ وہ وجودی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس پر سبھی متفق ہیں کہ وہ شروع سے آخر تک وجودی ہیں
رہے حضرت علامہ اقبال رح
تو آپ ان کی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں
پہلا دور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دور میں وہ وحدت الوجود کے قائل ہیں
دوسرا دور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دور میں وہ وحدت الوجود کے مخالف ہیں
تیسرا اور آخری دور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس میں وہ پھر وحدت الوجود کے قائل ہوئے اور شیخ اکبر ابن العربی کو جو پہلے وہ صرف ابن عربی کے نام سے پکارتے تھے شیخ اکبر کی حیثیت سے تسلیم کرتے ہیں
علامہ اپنا مرشد مولانا جلال الدین رومی کو مانتے ہیں اور انہیں مرشد رومی کے نام سے پکارتے ہیں جبکہ خود کو مرید ہندی کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور اس بات میں کس کوشک ہو سکتا ہے کہ مولانا روم رح وحدت الوجودی نظریہ کے قائل تھے
اس سلسلہ میں مزید معلومات شواہد و اسناد کے ساتھ انشااللہ اپنی آئندہ پوسٹوں میں کرتا رہوں گا
 

شاکرالقادری

لائبریرین
شاہد احمد خان نے کہا:
علامہ اقبال آخری عمر میں تصوف اور صؤفیا کے خلاف ہو گئے تھے
جناب شاھد احمد خان !
ایسا ہر گز نہیں
علامہ کے افکار ونظریات کو ان کے کلام کی روشنی میں پرکھا جاتا ہے آپ ان کے 1934 اور 1936 کے بعد کے کلام، مضامین اور خطوط کا مطالعہ کریں آپ خود اپنے موقف سے رجوع کر لیں گے ااور اپ کو اپنی یہ بات بالکل لغو لگنے لگے گی کہ وہ آخری عمر میں صوفیا کے خلاف ہو گئے تھے
 
السلام و علیکم!
وحدت الوجود کے بارے میں ابن عربی جسے آپ محی الدین کہتے ہیں ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں “کہ تم عظیم الشان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو محمد سمجھتے ہو جیسا کہ تم سراب کو پانی سمجھتے ہو ،جیسے سراب پانی نہیں ہو سکتا ویسے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم محمد نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب تم آؤ گے تو تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاٰؤ گے بلکہ صورت محمدیہ میں اللہ کو پاؤ گے اور رویت محمدیہ میں اللہ کو دیکھو گے۔“(بحوالہ فتوحاتََََََِ مکیہ)
یہ وہ تعریف ہے جو ابن عربی نے بیان کی اور جسے شاکر صاحب پی گئے اور بیان نہ کیا کہ اصل میں وحدت الوجود کا مبدا کیا ہے وحدت الوجود کا عقیدہ اللہ تعالی کو مخلوق میں ماننا ہے حالانکہ اللہ کی بزرگی ، عظمت اور بڑائ اسی میں ہے کہ ہم آللہ تعالی کو مخلوق سے جدا مانیں کہ اللہ علیحدہ ہے بندہ علیحدہ ہے ساجد علیحدہ ہے مسجود علیحدہ ہے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
عبدالغفورراجپوت نے کہا:
السلام و علیکم!
وحدت الوجود کے بارے میں ابن عربی جسے آپ محی الدین کہتے ہیں ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں “کہ تم عظیم الشان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو محمد سمجھتے ہو جیسا کہ تم سراب کو پانی سمجھتے ہو ،جیسے سراب پانی نہیں ہو سکتا ویسے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم محمد نہیں ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب تم آؤ گے تو تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پاٰؤ گے بلکہ صورت محمدیہ میں اللہ کو پاؤ گے اور رویت محمدیہ میں اللہ کو دیکھو گے۔“(بحوالہ فتوحاتََََََِ مکیہ)
یہ وہ تعریف ہے جو ابن عربی نے بیان کی اور جسے شاکر صاحب پی گئے اور بیان نہ کیا کہ اصل میں وحدت الوجود کا مبدا کیا ہے وحدت الوجود کا عقیدہ اللہ تعالی کو مخلوق میں ماننا ہے حالانکہ اللہ کی بزرگی ، عظمت اور بڑائ اسی میں ہے کہ ہم آللہ تعالی کو مخلوق سے جدا مانیں کہ اللہ علیحدہ ہے بندہ علیحدہ ہے ساجد علیحدہ ہے مسجود علیحدہ ہے۔

پینے پلانے کی بھی خوب کہی
بھائی
اپنے اپنے ظرف کی بات ہے
:lol:
اس بات سے کس کو انکا ر ہے کہ
اللہ کی ذات ہر چیز میں جلوہ نما ہے
اور

وفی انفسکم افلا تبصرون

کے بارے میں کیا خیال ہے
 

قسیم حیدر

محفلین
و فی انفسکم افلا تبصرون والی آیت کا ترجمہ ہے “اور یقین کرنے والوں کے لیے زمین میں بڑی بڑی نشانیاں ہیں اور خود تمہارے اپنے اندر بھی، پھر کیا تم دیکھتے نہیں“؟ اس سے تو اللہ تعالیٰ کی توحید کی نشانیاں بتائی جا رہی ہیں۔ وحدت الوجود کا اثبات کہاں سے ثابت ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے نہ کہ ہے شے میں۔
الرحمٰن علی العرش استوٰی
“رحمٰن جو عرش پر مستوی ہے“
ام امنتم من فی السماء ان یرسل علیکم حاصبا
ایک باندی جو بول نہیں سکتی تھی سے سوال کیا گیا کہ اللہ کہاں ہے تو اس نے اشارے سے جواب دیا کہ آسمان میں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس پر فرمایا اسے آزاد کر دو یہ ایمان والی ہے
 

شاکرالقادری

لائبریرین
رحمان عرش پر مستوی ہے
اس سے انکار نہیں
لیکن کیا وہ صرف عرش پر ہی مستوی ہے اور کہیں نہیں
اللہ کی ذات کے لیے انسان جب بھی اشارا کرتے ہیں تو آسمان ہی کی طرف کرتے ہیں اس اشارہ سے اللہ کی زات کی بلندی عظمت جلال اور رفعت کا اظہار ہوتا ہے نہ کہ اللہ کو آسمانوں میں مقید کرنا ثابت ہوتا ہے اور کیا اللہ آسمان پر ہی ہے زمین میں نہیں
وسع کرسیہ السموت والارض
کیا اللہ کی کرسی زمینوں اور آسمانون کو محیط نہیں؟؟
قلوب المومنین عرش اللہ تعالی
پر بھی غور فرایئے گا
اور "نحن اقرب" کو بھی خیال میں رکھیے گا
اللہ نوالسموات والارض بھی دھیان میں رہے
اللہ کائنات کے ذرے ذرے میں موجود ہے
کیسے موجود ہے؟؟
دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے؟
خدا کو عرش پر اور آسمانوں میں محدود اور مقید نہیں کیا جاسکتا
اور ایسا کرنے سے کفر کا لزوم ہو جاتا ہے
 

قسیم حیدر

محفلین
اللہ تعالیٰ کی صفات کےبارے میں صرف وہی کہا جائے گا جسے قرآن و سنت نے پیش کیا اور سلف امت نے جسے بطور عقیدہ اختیار کیا تھا اور جو اس نے اپنی صفات کے بارے میں خود فرمایا ہے یا جو اس کی صفات کے بارے میں رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے۔ صفاتِ باری تعالیٰ کو تکییف (یعنی کیسے)، تمثیل (یعنی مخلوق کے ساتھ مشابہت) اور تحریف و تعطیل کے بغیر اس طرح مانا جائے گا جس طرح اللہ جل جلالہ کی ذات گرامی کے لائق ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
لیس کمثلہ شیء و ھو السمیع البصیر (الشورٰی ۔۱۱)"اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ سنتا دیکھتا ہے"
یہ بات قرآن و سنت سے ثابت ہے اور اس پر تمام سلف امت کا اجماع ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی مخلوق کے اوپر اور ان سے جدا ہے، وہ اپنے عرش پر مستوی ہے اور استواء اس طرح ہے جس طرح اس کی ذات گرامی کےشایان شان ہے۔ اس کا استواء اپنی مخلوق کےاستواء سے مشابہت نہیں رکھتا۔ ہاں البتہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کے اعتبار سے اپنی مخلوق کے ساتھ ہے، اپنی مخلوق کی کوئی بات اس سے مخفی نہیں ہے۔چنانچہ قرآن حکیم میں نہایت واضح انداز میں اس بات کو بیان کر دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں، اپنی مخلوق سے اوپر اور اپنے عرش پر مستوی ہے۔
الیہ یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعہ (فاطر(۱۰)"اسی (اللہ) کی طرف پاکیزہ کلمات چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتے ہیں"
مزید فرمایا:
انی متوفیک ورافعک الی (آل عمران۔۵۵)"(اے عیسٰی) میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کر کے تمہیں اپنی طرف اٹھا لوں گا"
تعرج الملئکۃ و الروح الیہ ( المعارج۔۴)"فرشتے اور روح اس کی طرف چڑھتے ہیں"
ثم استوٰی علی العرش الرحمٰن (الفرقان۔۵۹)"پھر عرش پر مستوی ہوا (وہ جس کا نام رحمٰن یعنی) بڑا مہربان (ہے)"
ء امنتم من فی السماء ان یخسف بکم الارض (الملک۔۱۶)"کیا تم اس سے جو آسمان میں ہے بے خوف ہو کہ تم کو زمین میں دھنسا دے"؟
اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سےجدا اور عرش پر مستوی ہے۔ ہم یہ سمجھنے کے مکلف نہیں ہیں کہ وہ عرش پر کیسے ہے۔ جتنی بات قرآن و حدیث میں بتا دی گئی ہے اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور جو بات نہیں بتائی گئی اس کی کرید کرنا گمراہی میں اضافے کے سوا کچھ نہیں دے سکتا۔ امام مالک رحمہ اللہ کا قول مشہور ہے کہ کسی نے ان سے استواء کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
"استواء تو (قرآن و حدیث) سے معلوم ہے، وہ استواء کس طرح کا ہے یہ مجہول (نا معلوم) ہے، اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور اس کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے"
بہت سی صحیح اور حسن احادیث سے بھی ثابت ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ آسمان پر ہیں۔ مثلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا شب معراج اپنے رب کے پاس جانا۔ ابو داؤد اور دیگر کتب احادیث میں ایک حدیث کے الفاظ یہ ہے کہ "ہمارا رب وہ اللہ (ہے) جو آسمان میں ہے، اے اللہ! تیرا نام پاک ہے اور تیرا حکم آسمان و زمین میں جاری ہے"۔ حدیث اوعال مین ہے کہ "عرش اس کے اوپر ہے، اللہ اپنے عرش کے اوپر ہے اور وہ تمہارے سب حالات کو جانتا ہے"
صحیح حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ایک باندی سے پوچھا "اللہ کہاں ہے"؟ تو اس نے جواب دیا "آسمان میں"۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا " میں کون ہوں؟" اس نے جواب دیا "آپ اللہ کے رسول ہیں" تو آپ نے فرمایا "اسے آزاد کر دو یہ ایک مومن عورت ہے"۔ اس مسئلہ میں ائمہ سلف سے اس قدر اقوال مروی ہیں کہ ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے۔ کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، سلف امت، صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ میں سے کسی نے بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ اللہ آسمانوں میں نہیں ہے یا یہ کہ وہ عرش پر نہیںہے اور نہ کسی نے کبھی یہ کہا کہ وہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے اور اس کی نسبت سے تمام جگہیں برابر ہیں۔
یہ موضوع بہت تفصیل چاہتا ہے۔ امام ابن تیمیہ اور ابن القیم کی تحریروں کا مطالعہ مفید ہو گا۔ چاہنے کے باوجود میں ابھی اس موضوع پر تفصیل سے نہیں لکھ پا رہا۔ اللہ نے توفیق دی تو وحدت الوجود کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون شامل کروں گا۔
نحن اقرب الیہ من حبل الورید، وسع کرسیہ السموت، و ھو معکم اینما کنتم، وھو اللہ فی السموت و فی الارض وغیرہ آیات کی تفصیل ان شاءاللہ عنقریب بیان کروں گا۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
قسیم حیدر نے کہا:
یہ موضوع بہت تفصیل چاہتا ہے۔ امام ابن تیمیہ اور ابن القیم کی تحریروں کا مطالعہ مفید ہو گا۔
امام ابن تیمیہ ؟؟؟؟؟
کیا یہ وہی امام ابن تیمیہ ہیں جنہوں نے منبر پر بیٹھ کر استوی علی العرش کے بارے میں سوال کا عملی مظاہرہ کر کے جواب دیا تھا کہ ایسے۔
؟؟؟؟؟؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
قسیم حیدر نے کہا:
صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ میں سے کسی نے بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ اللہ آسمانوں میں نہیں ہے یا یہ کہ وہ عرش پر نہیںہے اور نہ کسی نے کبھی یہ کہا کہ وہ اپنی ذات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے اور اس کی نسبت سے تمام جگہیں برابر ہیں۔
اور یہ تو آج بھی کوئی نہیں کہتا کہ اللہ آسمانوں میں موجود نہیں ہے یا وہ عرش پر موجود نہیں ہے۔
عرش اور آسمانوں میں اللہ کی موجودگی کے بارے کس کو انکار ہو سکتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اللہ زمینوں میں موجود نہیں؟؟؟
کیا اللہ ہر جگہ موجود نہیں؟؟؟؟
کیا تم اپنے چہرے کو جس جانب کر لوگے اللہ اسی جانب موجود نہیں ہوگا
کیا سلف صالحین میں سے کسی نے یہ بھی کہا کہ اللہ زمین پر نہیں صرف آسمانوں ہی میں ہے
اور یہ جو اللہ کے بارے میں حاضرو ناظر کا عقیدہ ہے اس کے کیا معنی ہیں؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

قسیم حیدر

محفلین
شاکرالقادری نے کہا:
قسیم حیدر نے کہا:
یہ موضوع بہت تفصیل چاہتا ہے۔ امام ابن تیمیہ اور ابن القیم کی تحریروں کا مطالعہ مفید ہو گا۔
امام ابن تیمیہ ؟؟؟؟؟
کیا یہ وہی امام ابن تیمیہ ہیں جنہوں نے منبر پر بیٹھ کر استوی علی العرش کے بارے میں سوال کا عملی مظاہرہ کر کے جواب دیا تھا کہ ایسے۔
؟؟؟؟؟؟
جی ہاں یہ وہی ابن تیمیہ ہیں جن کے بارے میں ابن بطوطہ یہ کہانی بیان کرتا ہے کہ انہوں نے منبر پر چڑھتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالی کا استوا بھی ایسا ہی ہے۔ لیکن ابن تیمیہ کا دامن الحمد للہ ایسے بہتانوں سے پاک ہے۔ اس واقعے کی تحقیق ابوالحسن علی ندوی نے اپنی کتاب دعوت و عزیمت جلد دوم میں بیان کی ہے۔جس کے مطابق ابن بطوطہ کو شام میں کسی دوسرے شخص کے بارے میں دھوکا ہوا کہ یہ ابن تیمیہ ہیں اور اسی کے قول کو اس نے نقل کر دیا۔ ابن تیمیہ کا موقف جاننے کےلیے ان کی کتابیں کافی ہیں۔ اہل سنت و الجماعت اللہ تعالیٰ کو تجسیم تمثیل سے مبرا کہتے ہیں
 
Top