رضا واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا - نعت حضرت احمد رضا بریلوی

واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا
فیض ہے یا شہ تسنیم نرالا تیرا
آپ پیاسوں کے تجسس میں ہے دریا تیرا
اغنیا پلتے ہیں د ر سے وہ ہے باڑا تیرا
اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا
فرش والے تیری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
آسماں خوان زمین خوان زمانہ مہمان
صاحب خانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
بحر سائل کا ہوں سائل نہ کنویں کا پیاسا
خود بجھا جائے کلیجا مرا چھینٹا تیرا
چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یا ں اسکے خلاف
تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا
آنکھیں ٹھنڈی ہوں جگر تازے ہوں جانیں سیراب
سچے سورج وہ دل آرا ہے اجالا تیرا
دل عبث خوف سے پتا سے اڑا جاتا ہے
پلہ ہلکا سہی بھاری ہے بھروسا تیرا
ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا
مفت پالا تھا کبھی کام کی عادت نہ پڑی
اب عمل پوچھتے ہیں ہائے نکما تیرا
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
خوار و بیمار خطا وار گنہ گار ہوں میں
رافع و نافع و شافع لقب آقا تیرا
میری تقدیر بری ہو تو بھلی کردے کہ ہے
محو و اثبات کے دفتر پہ کروڑا تیرا
تو جو چاہے تو ابھی میل مرے دل کے دھلیں
کہ خدا دل نہیں کرتا کبھی میلا تیرا
کس کا منہ تکئے کہاں جائیے کس سے کہئے
تیرے ہے قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا
تو نے اسلام دیا تو نے جماعت میں لیا
تو کریم اب کوئی پھرتا ہے عطیہ تیرا
دور کیا جانیئے بدکار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مرے بے کس و تنہا ہے تیرا
تیرے صدقے مجھے اک بوند بہت ہے تیری
جس دن اچھوں کو ملے جام چھلکتا تیرا
حرم طیبہ و بغداد جدھر کیجئے نگاہ
جوت پڑتی ہے تیری نور ہے چھنتا تیرا
 
واہ کیا جود و کرم ہے شہ بطحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا
فیض ہے یا شہ تسنیم نرالا تیرا
آپ پیاسوں کے تجسس میں ہے دریا تیرا
اغنیا پلتے ہیں د ر سے وہ ہے باڑا تیرا
اصفیا چلتے ہیں سر سے وہ ہے رستا تیرا
فرش والے تیری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اڑتا ہے پھریرا تیرا
آسماں خوان زمین خوان زمانہ مہمان
صاحب خانہ لقب کس کا ہے تیرا تیرا
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
یعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نظروں پہ چڑھے دیکھ کے تلوا تیرا
بحر سائل کا ہوں سائل نہ کنویں کا پیاسا
خود بجھا جائے کلیجا مرا چھینٹا تیرا
چور حاکم سے چھپا کرتے ہیں یا ں اسکے خلاف
تیرے دامن میں چھپے چور انوکھا تیرا
آنکھیں ٹھنڈی ہوں جگر تازے ہوں جانیں سیراب
سچے سورج وہ دل آرا ہے اجالا تیرا
دل عبث خوف سے پتا سے اڑا جاتا ہے
پلہ ہلکا سہی بھاری ہے بھروسا تیرا
ایک میں کیا مرے عصیاں کی حقیقت کتنی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اشارہ تیرا
مفت پالا تھا کبھی کام کی عادت نہ پڑی
اب عمل پوچھتے ہیں ہائے نکما تیرا
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
خوار و بیمار خطا وار گنہ گار ہوں میں
رافع و نافع و شافع لقب آقا تیرا
میری تقدیر بری ہو تو بھلی کردے کہ ہے
محو و اثبات کے دفتر پہ کروڑا تیرا
تو جو چاہے تو ابھی میل مرے دل کے دھلیں
کہ خدا دل نہیں کرتا کبھی میلا تیرا
کس کا منہ تکئے کہاں جائیے کس سے کہئے
تیرے ہے قدموں پہ مٹ جائے یہ پالا تیرا
تو نے اسلام دیا تو نے جماعت میں لیا
تو کریم اب کوئی پھرتا ہے عطیہ تیرا
دور کیا جانیئے بدکار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مرے بے کس و تنہا ہے تیرا
تیرے صدقے مجھے اک بوند بہت ہے تیری
جس دن اچھوں کو ملے جام چھلکتا تیرا
حرم طیبہ و بغداد جدھر کیجئے نگاہ
جوت پڑتی ہے تیری نور ہے چھنتا تیرا

جزاک اللہ !!
سبحان اللہ !!
واہ کیا بات ہے ، کلامِ رضا کی ۔۔
 
Top