عباس تابش واپسی - عبّاس تابش

یہ بارہ سال پہلے کی کہانی ہے
کہ جب سرسوں کی گندل تھا بدن میرا
ہوا مجھ کو کھلاتی تھی
مجھے چرخے کی گھو کر ہی سے گہری نیند آتی تھی
دہن میں شیر مادر کی مہک کے آخری دن تھے
جوانی جھلملاتی تھی​
یہ بارہ سال پہلے کی کہانی ہے
میں اپنے آپ میں رہتا تھا جیسے پھول میں خوشبو
مجھے اک نام جو گڑ کی طرح میٹھا تھا اب بھی ہے
اسی کی شکریں چھب ہیں
کہانی لو بڑھاتی ہے​
یہ بارہ سال پہلے کی کہانی ہے
میں ہاتھوں سے گرا حرف دعا بن کر
مگر بوسوں بھری شفقت تسلّی ڈھونڈھ لاتی تھی
نہ میں سرسوں کی گندل تھا
نہ مجھ کو نیند آتی تھی
عجب سی بے ثباتی تھی
پھر اک دن بے گھری مجھ کو مرے گھر سے نکال آئی
کہ جیسے آنکھ سے آنسو نکل کر پھر نہیں آتا​
تجھے تو سب خبر ہوگی
مجھے ملک جنوں میراث میں دے کر کوئی قاپس پلٹ آیا
وہاں کی جاگتی راتیں
سر خامہ اترتی نیند کی گھاتیں
وہ دفتر میں پڑے پتھر کے لب سے پھوٹتی باتیں
نہ میں سرسوں کی گندل تھا
نہ اب سرسوں کی گھو کر تھی کہ مجھ کو نیند آجاتی
پری مجھ کو ڈرا جاتی​
یہ بارہ سال پہلے کی کہانی ہے
مجھے گاڑی نے اسٹیشن پہ لا پھینکا
تو میرا شہر ہی گم تھا
مری پہچان ہی گم تھی
میرے دکھ سے بھرا تانگہ گیا جب ریلوے بازار کی جانب
مرا گھر بھی میرے بچپن کی صورت
گرد گزراں میں کہیں گم تھا​
پھر اک شہتوت کی چھاؤں سے پوچھا اپنے بارے میں
پھر اک بے عمر پنواڑی کا شکنوں سے بھرا چہرہ
کسی سیاح کے نقشے کی صورت کھل گیا مجھ پہ​
نہ اس میں میرا بچپن تھا
نہ میرے خانہ زادوں کی نشانی تھی
پھر اک دکاں پہ لٹکی ہوئی تصویر سے پوچھا
تجھے تو سب خبر ہوگی
یہاں عبّاس تابش نام کا اک شخص رہتا تھا
کہاں ہے وہ
نہ اب سرسوں کی گندل ہے
نہ وہ چرخے کی گھو کر ہے
مگر اک بند دروازے پر دھندلے نام کی تختی
مرے گھر کی نشانی ہے
یہ میرے آج کے دن کی کہانی ہے​
 
Top