والد مرحوم کی یاد میں

والد مرحوم کی یاد میں

کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں، جو زندگی میں آنا ضروری ہوتے ہیں۔اور وہی لمحات انسانی ذہین پر انمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔اگر قدرت نے اس جہان میں ، امید ،صبر کی نعمت اور خوشیوں کی جھلک نہ رکھی ہوتی تو شاید دنیا کا نام جہنم پڑجاتا۔دنیا اگر چہ جہنم تو نہیں کہلاتی ، مگر میں اتنا ضرور کہوں گا کہ دنیا بہت ظالم ہے، یہی دنیا کی گردش دوراں انسان سے بہت کچھ چھین لیتی ہے، انسان کے خون کا آخری قطرہ اس کی امیدوں کا واحد محور اور اس کا آخری سہارا ، سب کچھ اسی ستم ظریف کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے۔
نظام قدرت ہے کہ انسان کو درد اسی وقت ہوتی ہے جب اسے چوٹ لگ جاتی ہے، اور درد اسی کو ہوتی ہے ، جس کو چوٹ لگتی ہے، اور پھر یہ درد اس وقت تک باقی رہتی ہے، جب تک انسان زندہ رہتا ہے۔ کچھ لمحات اور مخصوص مواقع ایسے بھی آتے ہیں، جب زندگی کے زخموں پر پڑی ہوئی گرد کو جھاڑ کر زخموں کو پھر تازہ کر دیتے ہیں۔
26 فروری کا دن بھی ایک ایسا ہی دن ہے ،جب راقم سے دنیا نے متاعِ گراں قیمت چھین لی۔ اوروالد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ 26 فروری 2013 کو میرے والد گرامی کو ہم سے بچھڑے ہوئے ایک سال مکمل ہو گیا۔ مگر ان کی یادیں اور ان کی جدائی کا درد آج بھی تازہ ہے۔ آج بھی میرا دل نوحہ کناں ہے، آج بھی اشک اور آہیں تنہائی کے لمحوں میں صبرو استقامت کے بندھ توڑ کر بہ نکلتے ہیں۔آج بھی ان کی نصیحتیں میرے کانوں میں گونج اٹھتی ہیں۔آج بھی ان کا عکس میر ی تر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔اور آج بھی مجھے ان کی یاد خوب خوب رلاتی ہے۔
والد گرامی نے ایک عام غریب آدمی کی زندگی گزاری۔ بظاہر وہ جتنے عام تھے در حقیقت وہ اتنے ہی خاص تھے۔یہی وجہ ہے کہ میں اپنا درداپنے قارئین سے بانٹنے کی نیت سے انکی زندگی کے چند چیدہ چیدہ پہلوؤ ں کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں۔
حضرت والد گرامی خواجہ غلام محمد رحمہ اللہ علیہ نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اور لڑکپن میں ہی یتیمی کے امتحان میں مبتلا ہو گئے۔ میرے دادا محترم سکندر خان مرحوم کی وفات کے بعد والد گرامی کو اپنے دو بھائیوں اور دو بہنوں کی پرورش کرنا اپنی والدہ محترمہ کی خدمت کرنا پڑی۔یہی وجہ ہے کہ انہیں پانچویں کلاس تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد محنت مزدوری کرنا پڑی۔ دریں اثنا انھوں نے پاک فوج میں شمولیت اختیار کر لی اور 1971 کی پاک بھارت جنگ میں بنگال (موجودہ بنگلہ دیش ) کے محاذ پر جنگ میں حصہ لیا۔اسی دہائی میں فوج کو خیر باد کہدیا اور اپنے گاؤں ناڑہ ضلع اٹک میں آ کر بطور مزارع کاشت کاری کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔جو آخر تک جاری رکھا۔
وہ فطری طور پر پاکستان اور اسلام سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ اور زمانہ جوانی میں مسلم لیگ کے علاقائی ورکر بھی رہے۔ اپنے ماموں (حوالدار نواب ، جو علاقے کے سرداروں کے مد مقابل مقامی الیکشن میں حصہ لینے والے واحد لیڈر تھے ) کی الیکشن مہم میں بھی حصہ لیتے رہے۔
حضرت والد گرامی ریڈیو کے مستقل سامع تھے۔ ریڈیو پاکستان اور بی بی سی کی اردو نشریات بہت اہتمام سے سنتے تھے۔یہ عادت راقم کو بھی ورثے میں ملی۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب 2006 میں میں تعلیم کے حصول کے سلسلے میں گاؤں سے باہر چلا گیا تو جب بھی گھر آتا اخبارات ساتھ لے کر آتا تھا۔ تو حضرت والد صاحب ان اخبارات میں سے چیدہ چیدہ مضامین اور کالم پڑھوا کر سنتے تھے۔بڑوں سے سنا ہے کہ وہ عہد جوانی میں بہت رعب داب والے تھے۔مگر میں نے تو انہیں بارگاہ خداوندی میں جھکے ہوئے ہی پایا ہے۔ جب تک سفر کرنے کے قابل تھے سہون شریف میں حضرت سخی لال شہباز قلندر کے دربار کی باقاعدہ حاضری دیتے رہے۔میں نے جب سے ہوش سنبھالا ان کو راتوں کو اٹھ کر ذکر اور فکر کرتے ہوئے ہی پایا۔
بلامبالغہ وہ پوری پوری رات جاگ کر ذکر بالجہر کیا کرتے ہوئے گزارتے تھے۔ان کے معمولات میں شامل تھا کہ نماز عشاء کے بعد اپنے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ ، سیدنا علی المرتضیٰ، سیدنا امام حسین، سیدنا امام حسن، سیدہ النساء فاطمہ الزہرہ ، سیدنا شیخ عبدلقادر جیلانی رضوان اللہ علیہم اجمیعینک کی بارگاہ میں فردا فردا دو دو نوافل پڑھ کر انکا ثواب بطور ہدیہ پیش فرمایا کرتے تھے۔رسول خدا ﷺ کی اہل بیت اطہار سے ان کو بہت لگاؤ تھا۔کئی دفعہ میں نے رات کے لمحات میں سیدنا علی المرتضیٰ ، حسنین کریمین اور اہل بیت اطہار کے اسماء کا ورد کرتے ہوئے سنا ہے۔لگتا ہے انکو ان محبوب ہستیوں کا نام لے کر روحانی تسکین ملتی تھی۔
ان کے اذکار میں درود پاک کو خصوصی اہمیت حاصل تھی۔مجھے بھی بے حساب درود وسلام پڑھنے کی تلقین فرماتے تھے۔ گن گن کر اذکار کرنے کو ترجیح نہیں دیتے تھے۔رات کے آخری حصے میں رو رو کر دعائیں فرماتے تھے۔ میں نے اپنی زندگی میں انہیں ان اوقات کے علاوہ کبھی بھی روتے ہو ئے نہیں دیکھا۔شایدحضرت والد گرامی کے ان رت جگوں کی برکت سے ہم رسول اللہ ﷺ کی خصوصی نگاہ شفت میں رہے اور والد گرامی کے علاوہ خود راقم کو بھی رسول اللہ ﷺ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت نصیب ہو گئی۔
حضرت والد محترم نے باقاعدہ قرآن کریم کی تعلیم نہیں پائی تھی تاہم اواخر عمر میں وہ تلاوت کلام پاک فرمایا کرتے تھے۔ یقیناًغیر محسوس طریقے سے ان کو قرآن کریم کی تعلیم دی گئی تھی۔ کبھی کبھار وہ اس حقیقت کا نکشاف بھی فرمایا کرتے تھے۔ وہ دمے کے مریض تھے۔ اس لیے آخری دنوں میں بہت کمزور ہو گئے تھے۔ مگر اس کے باوجود بستر پر بھی اذکا ر کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بالآخر 26 فروری 2012کی صبح دس بجے کے قریب وہ اس دار فانی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئے۔ آخری لمحات میں انہوں نے آب زم زم نوش فرمایا۔اور دلچسب بات یہ ہے کہ آخری وقت تک ان کی زبان پر ذکر خداوندی جاری رہا۔
ان کی وفات کے بعد میں نے ان کو خواب میں دیکھا ہے کہ وہ ہمارے لیے جنت کی نہروں کا پانی اور کچھ پھل لے کر آئے ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ ان کے رب نے ان کو بہترین مقام دیا ہوگا ، مگر پھر بھی میں ان کی جدائی کا درد برداشت نہیں کر پاتا۔
اللہ تعالی ٰ ان کے درجات کو بلند کرے۔
 

نایاب

لائبریرین
اللہ تعالی والد مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے آمین
درویش ایسے ہی ہوا کرتے ہیں عام سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بلا شک
اپنی یادوں میں شراکت دینے پر بہت شکریہ بہت دعائیں محمد کامران اختر بھائی
 

سید زبیر

محفلین
محمدکامران اختر بھائی ہر نفس نے یہ موت کا ذائق چکھنا ہے یہی حقیقت ہے بے شک والد کا سایہ اٹھنے سے انسان تپتی دھوپ میں آجاتا ہے مگر ہمارا خالق ہی ہمارے لیے بہتر کرتا ہے ۔وہ وہی کرتا جو ہمارے لیے بہتر سمجھتا ہے ۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ آپ کے والد مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے (آمین)
 
اللہ تعالی والد مرحوم کے درجات کو بلند فرمائے آمین
درویش ایسے ہی ہوا کرتے ہیں عام سے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ بلا شک
اپنی یادوں میں شراکت دینے پر بہت شکریہ بہت دعائیں محمد کامران اختر بھائی

جزاک اللہ سر
اللہ تعالیٰ آپ کو سدا سلامت رکھے
 
محمدکامران اختر بھائی ہر نفس نے یہ موت کا ذائق چکھنا ہے یہی حقیقت ہے بے شک والد کا سایہ اٹھنے سے انسان تپتی دھوپ میں آجاتا ہے مگر ہمارا خالق ہی ہمارے لیے بہتر کرتا ہے ۔وہ وہی کرتا جو ہمارے لیے بہتر سمجھتا ہے ۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ آپ کے والد مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے (آمین)

آمین
بہت بہت شکریہ سر
جزاک اللہ
 

پردیسی

محفلین
اللہ تعالی والد مرحوم کو اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے آمین
 

نیلم

محفلین
ماشاءاللہ بھائی آپ کے والد محترم کے بارے میں پڑھ کے بہت ہی اچھا لگا ۔اللہ ہمیں بھی ایسے نیک اعمال کی توفیق دے آمین
اللہ تعالی آپ کے والد کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور آپ کو صبر جمیل عطا کرئے آمین
 

شمشاد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ آپ کے والد مرحوم پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔ اور آپ سبکو صبر کی دولت سے نوازے۔

بیشک اولاد کے لیے والدین ایک ایسی ہی ہستی ہوتی ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ اور اولاد کو چاہیے کہ اس کا حق ادا کرے۔
 
ماشاءاللہ بھائی آپ کے والد محترم کے بارے میں پڑھ کے بہت ہی اچھا لگا ۔اللہ ہمیں بھی ایسے نیک اعمال کی توفیق دے آمین
اللہ تعالی آپ کے والد کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور آپ کو صبر جمیل عطا کرئے آمین

آمین
بہت بہت شکریہ
 
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ آپ کے والد مرحوم پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے۔ اور آپ سبکو صبر کی دولت سے نوازے۔

بیشک اولاد کے لیے والدین ایک ایسی ہی ہستی ہوتی ہیں جن کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ اور اولاد کو چاہیے کہ اس کا حق ادا کرے۔

آمین
دعا فرمائیں کہ ہم سب حق ادا کر پائیں۔
 

مہ جبین

محفلین
اللہ انکی قبر پر اپنے انوار و تجلیات کی بارش فرمائے اور انکے درجات کو بلند فرمائے
آپکو اپنے والدین کے لئے صدقہء جاریہ بنائے اور قیامت میں انکو آپ سے راضی فرمائے آمین
 
اللہ عزوجل انہیں بلند درجات عطا فرمائے۔
شایدحضرت والد گرامی کے ان رت جگوں کی برکت سے ہم رسول اللہ ﷺ کی خصوصی نگاہ شفت میں رہے اور والد گرامی کے علاوہ خود راقم کو بھی رسول اللہ ﷺ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی زیارت نصیب ہو گئی۔
حضرت والد محترم نے باقاعدہ قرآن کریم کی تعلیم نہیں پائی تھی تاہم اواخر عمر میں وہ تلاوت کلام پاک فرمایا کرتے تھے۔ یقیناًغیر محسوس طریقے سے ان کو قرآن کریم کی تعلیم دی گئی تھی۔ کبھی کبھار وہ اس حقیقت کا نکشاف بھی فرمایا کرتے تھے۔
بہت بڑی سعادت بیان فرمائی سر آپ نے!
 
اللہ تعالی آپکے والد مرحوم پر اپنی خاص رحمتیں نازل فرمائے اس کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے انہیں بلند درجات عطا فرمائے۔ آمین
 

عمراعظم

محفلین
اللہ تعالیٰ مرحوم کو اعلیٰ مقام پر جگہ مرحمت فرمائے۔ والدین کی رحلت اولاد سے تعلق کو ختم نہیں کرتی۔آپ ’ان کے لئے صدقہء جاریہ ثابت ہو سکتے ہیں۔آپ کا ہر نیک عمل ’ان کے درجات میں اضافے کا باعث بنے گا۔( ان شاء اللہ)
 
انا اللہ و انا الیہ راجعون​
اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اورلواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ یقینا باپ کا سایہ ایک بہت بڑی نعمت ہوتی ہے ،عام زندگی میں تو اس کا احساس نہیں ہوتا لیکن دور ہونے کے بعدطبیعت پر کیا گذرتی ہے وہی بیان کر سکتا ہے جس نے اس درد کو محسوس کیا ہو۔بھائی محمد کامران اختر ہم آپ کے غم میں برابر کے شریک ہیں ۔​
اللہ آپ کو مزید ہمت اور حوصلہ دے آمین​
 
Top