واصف علی واصف

نیلم

محفلین
ایک آدمی بڑا خوب صورت ہے اور اگر اپنے صاحب کو پسند ہی نہیں تو پھر کیا خوب صورت ہے۔ بات تو کوئی نہ بنی۔ جس کی تعریف یہ ہے کہ اسے قبول کرنے والا عشق موجو ہو۔ وہ

حسن کہ جسے عشق نہیں ملا، اس حسن کو ہم کیا کہیں، سوائے محرومی کے۔ اور اگر حسن نہیں ہے اور اسے عشق مل گیا تو عشق کا ملنا ہی حسن ہے ورنہ وہ حسن محرومی ہے۔ اگر

محبوب کو طالب مل جائے تو وہ محبوب کہلاتا ہے، ورنہ محبوب کی اور کوئی صفت نہیں، سوائے اس کے کہ کوئی چاہنے والا ہو۔ اگر کوئی چاہنے والا نہیں ہے تو کوئی کتنا ہی حسین ہو،

بیکار ہے۔ اگر آپ کے اندر طلب کی تمنا نہ ہو تو آپ کتنے ہی اچھے ہو جائیں، بیکار ہے۔گویا آپ کے اندر تضاد پیدا ہو گیا، تضاد کا پیدا ہونا دراصل محبت کی محرومی ہے۔

واصف علی واصف، گفتگو 3 صفحہ: 143
 

نیلم

محفلین
ایک بار جبران نے کہا

فرض کرو، تم ہر چیز سے دستبردار ہونے پر مجبور کر دی جاؤ اور تمھیں سوائے سات الفاظ کے سب کچھ بھلانا پڑ جائے، تو تمھارے وہ سات الفاظ کیا ہونگے۔ جن کا تم انتخاب کروگی؟۔

میں نے سوچا اور بس پانچ الفاظ بتا سکی جو یہ تھے

“ اللہ، زندگی، محبت، حُسن، زمین “۔

اور میں نے پھر جبران کی طرف دیکھ کر کہا
“ باقی دو الفاظ کیا ہو سکتے ہیں ؟“۔

تب اس نے کہا کہ باقی دو اہم الفاظ ہی

“ میں اور تم “

ندیم ہاشم کے ناول۔۔۔۔۔۔۔خدا اور محبت۔۔۔ سے اقتباس
 

نیلم

محفلین
اپنے ماحول پر گہری نظر رکھیں۔اور اس کا بغور مطالعہ کریں
غور کریں آپ کے بیوی بچے،ماں باپ،بہن بھایئ،عزیزواقارب،
یار دوست،آپ کے بارے میں کیا خیال کرتے ہیں۔لوگ آپ کے سامنے آپ کو کیا کہتے ہیں اور آپ کی عدم موجودگی آپ کا تزکرہ کس انداز میں کرتے ہیں۔کبھی،کبھی خاموشی سے اپنے گھر کے سامنے سے اجنبی ہو کر گزر جاءیں۔اور سوچیں اس گھر میں آپ کب تک ہیں۔وہ وقت دور نہیں جب یہ گھر تو ہو گا مگر آپ نہیں ہونگے۔
اس وقت اس گھر میں کیا ہو گا آپ کا تزکرہ کس انداز میں۔۔۔۔۔۔

واصف علی واصف کی کرن کرن سورج سے۔
 

نیلم

محفلین
آج کا انسان صرف دولت کو خوش نصیبی سمجھتا ہے اور یہی اس کی بدنصیبی کا ثبوت ہے۔

خوش نصیبی ایک متوازن زندگی کا نام ہے، نہ زندگی سے فرار ہو اور نہ بندگی سے فرار ہو۔

حضورپاک صلی اللہ علیہ وسلم
اتنے خوش نصیب ہیں کہ جو آپ کا غلام ہو گیا وہ بھی خوش نصیب کر دیا گیا۔

خوش نصیب اپنے آپ پر راضی، اپنی زندگی پر راضی، اپنے حال پر راضی، اپنے حالات پر راضی، اپنے خیالات پر راضی، اور اپنےخدا پر راضی رہتا ہے۔

واصف علی واصف
 

نیلم

محفلین
معمولی بات بڑے غیر معمولی نتائج بر آمد کرتی ہے

کبھی کبھی ایک چھوٹی سی بات اتنی بڑی بات ہوتی ہے کہ اسے دانائی اور رعنائی خیال کی انتہا سمجھ لیا جاتا ہے -

اگر چھوٹی بات کو چھوٹا نہ سمجھا جائے تو کوئی بڑی بات بڑی نہ رہ جائے -

چھوٹے کاموں کو بڑی احیتاط سے کرنے والا انسان کسی بڑے کام سے کبھی مرعوب نہیں ہوتا -

چھوٹے انسانوں سے محبّت کرنے والا ان کا ادب کرنے والا ، ان سے برابر کا سلوک کرنے والا ،
کسی بڑے سے بڑے شہنشاہ سے نہیں ڈرتا -

معمولی انسان سے محبّت غیر معمولی انسان کا ڈر نکال دیتی ہے -

ایک سجدہ حاصل ہو جائے تو ہزاروں سجدوں سے نجات حاصل ہو جاتی ہے -

از واصف علی واصف قطرہ قطرہ قلزم صفحہ ٩١
 

باباجی

محفلین
جن کو منشائے الٰہی میسر ہو، انہیں آہ سحر گاہی میسر ہوتی ہے
اور آہ سحر گاہی اس کائنات اور باطنی کائنات میں رابطے کا بڑا معتبر ذریعہ ہے

واصف علی واصفؒ
کتاب: بات سے بات
 

نیلم

محفلین
خوف زدہ انسان پتوں کی کھڑکھڑاہٹ سے ڈرتا ہے۔
وہ آنے والوں سے ڈرتا ہے ۔
وہ ہر ایک سے ڈرتا ہے ۔اپنے ماضی سے ڈرتا ہے، اپنے حال سے ڈرتا ہے۔ اپنے مستقبل سے ڈرتا ہے ، بلکہ اپنے پرائے یہاں تک کہ اپنے ہی سائے سے ڈرتا یے -
خوف اگر ایک بار دل میں بیٹھ جائے تو پھر وجہ کے بغیر ہی خوف پیدا ہوتا رہتا ہے ۔
ڈرے ہوئے انسان کے لیے ہر امکان ایک ٹریجڈی ہے ۔
اس کے لیے ہر واقعہ ایک حادثہ ہے ۔
خوف زدہ انسان خود کو اس بھری دنیا میں تنہا محسوس کرتا ہے۔خوف احساسِ تنہائی ضرور پیدا کرتا ہے۔خوف زدہ انسان کی مثال ایسے ہے، جیسے کسی وسیع صحرا میں تنہا مسافر کو رات آجائے ۔
اور جب انسان اپنے وجود سے بے خبر ہو ، اسے اپنے وجود کا احساس بھی مشکل سے ہوتا ہے ۔
خوف سے بچنے کا واحد، مناسب اور سہل طریقہ یہی ہے کہ انسان میں خدا کا خوف پیدا ہو جائے ۔
یہ خوف ، ہر خوف سے نجات دلاتا ہے ۔
انسان اپنے آپ کو اللہ کے سپرد کر دے تو ہر خوف ختم ہو جاتا ہے۔اگرمنشائے الہٰی کو مان لیا جائے تو نہ زندگی کا خوف رہتا ہے نہ موت کا۔نہ امیری کا ، نہ غریبی کا۔نہ عزت کی تمنا ، نہ ذلت کا ڈر۔یہ سب اس کے انداز ہیں ۔ وہ جو چاہے عطا کرے۔ ہمیں راضی رہنا ہے۔ورنہ ہماری سر کشی اور خود پسندی کی سزا صرف یہی ہے کہ ہمیں اندر سے دبوچ لیا جائے۔ظاہر کے جسم میں تو کوئی خراش نہ ہو ، لیکن اندر سے باطنی وجود قاش قاش اور پاش پاش ہو چکا ہو۔ جب زمین والوں کی بد اعمالیاں حد سے بڑھ جائیں تو آسمان سے عذاب کا دیباچہ خوف کی صورت میں نازل ہوتا ہے۔ممالک ، حکومتیں ، معاشرے، تہذیبیں ، افراد غرض یہ کہ ہر ذی جان خوف زدہ ہوتا ہے۔ہر شخص یہی محسوس کرتا ہے کہ نہ جانے کب کیا ہو جائے۔ ہر ارتقاءاندیشے سے دو چار ہوتا ہے۔ہر شے ایک بے نام اندیشے کے سائے میں لپٹی ہوئی نظر آتی ہے۔

حضرت واصف علی واصف رح کی تصنیف ”دل دریا سمندر “ سے انتخاب
 

نیلم

محفلین
وہ شخص جو اپنے آپ کو ماحول سے بلند سمجھتا ہے۔
سکون نہیں پائے گا۔
اور وہ شخص بھی جو اپنے آپ کو اپنے ماحول سے نیچا سمجھتا ہے۔
وہ بھی سکون نہیں پائے گا۔
( واصف علی واصف )
 

نیلم

محفلین
اگر ہم زبان کی پھیلائی ہوئی مصبیتوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ خاموشی میں کتنی راحت ہے۔ زیادہ بولنے والا مجبور ہوتا ہے کہ ہو سچ اور جھوٹ ملا کر بولے۔
انسان بولتا رہتا ہے اور خاموش نہیں ہوتا کیونکہ خاموشی میں اسے اپنے روبرو ہونا پڑتا ہے اور وہ اپنے رُو برو ہونا نہیں چاہتا۔

قطرہ قطرہ قلزم از واصف علی واصف سے اقتباس
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اگر ہم زبان کی پھیلائی ہوئی مصبیتوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ خاموشی میں کتنی راحت ہے۔ زیادہ بولنے والا مجبور ہوتا ہے کہ ہو سچ اور جھوٹ ملا کر بولے۔
انسان بولتا رہتا ہے اور خاموش نہیں ہوتا کیونکہ خاموشی میں اسے اپنے روبرو ہونا پڑتا ہے اور وہ اپنے رُو برو ہونا نہیں چاہتا۔

قطرہ قطرہ قلزم از واصف علی واصف سے اقتباس
اگر خاموشی کے پھیلائے ہوئے فسادات کا جائزہ لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ معاشرہ برائی کی وجہ سے نہیں برائی پر خاموش رہنے والوں کی وجہ سے تباہ ہوتا ہے۔ :p
 
Top