نیوز چینلز میں کیرئیر کے نئے مواقع

نیوز چینلز میں کیرئیر کے نئے مواقع

ٹیلیویژن کی خبریں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کی کثیر آبادی کیلئے اطلاعات حاصل کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ بظاہر آسان دکھائی دینے والا یہ ذریعہ نہایت دشوار گزار اور سخت مقابلہ آرائی کا بے حد چیلنجنگ اور تھکادینے والا محاذ ہے۔ جس میں ہر شخص کو جو ذمہ داریاں دی جاتی ہیں اسے انجام دینا از حد ضروری ہے اور نہایت خوش اسلوبی سے اور وہ بھی مقررہ وقت پر یہاںفرد واحد کی غلطی بھی پوری ٹیم پر اثر انداز ہوتی ہے اوراگر کسی شخص نے اپنا کام سلیقے سے نہیں کیا تو اس پر محض کچھ لوگوں کی نگاہیں نہیں پڑیں گی بلکہ ناظرین کا پورا حلقہ اس سے واقف ہوجائے گا۔ جس کی تعدادچند لاکھ سے لے کر کروڑ تک ہوسکتی ہے۔ یہ اس پر منحصر ہے کہ خبر کی پہنچ کا دائرہ کہاں تک ہے ایسے میں جو شخص بھی اس پیشے میں قدم رکھنا چاہتا ہے اسے یہ سمجھ لینا چاہئے کہ یہ کوئی آسان پیشہ نہیں۔ کام کے اوقات دیر طلب ہوتے ہیں۔ کیریئر کے ابتدائی دنوں میں تنخواہ بھی معقول نہیں ہوتی۔ اس پرطرہ یہ کہ ٹیلی ویژن صحافی نیوز روم کے کام کو پوری طرح سے مکملکر ہی گھر لوٹتا ہے اور اس کام کو دوسروں کیلئے نہیںچھوڑتا ۔ کئی زاویوں سے دیکھا جائے تو اس پیشہ میں کام ملنا کافی مشکل ہے اور مل گیا تو اسے بر قرار رکھنا بھی مشکل ہے اور اس سے بھی مشکل ہے اچھی اسٹوری کا آئیڈیا پیش کرنا، اسے اچھی خبر میں تبدیل کرنا اور ناظرین کے سامنے پیش کرنا۔ اس سلسلہ میں یہ احتیاط بھی ضروری ہے کہ آپ سے پہلے کوئی اورچینل اسے پیش نہ کردے۔ اسی میں آپ کی مہارت مضمر ہے۔ ٹیلی ویژن میں کام کرنا صرف ایک پیشہ ہی نہیں بلکہ طرز زندگی ہے۔ یہاں کے ملازمین کو چھٹیوں اور تہواروں کے دنوں میں بھی کام کرنا پڑتا ہے۔ دفتر کے باہر بھی نگاہ اچھی اسٹوری کی تلاش میں رہتی ہے۔ مختلف چینلوں کی خبروں پر نگاہ رکھنا اور ساتھ ہی اپنے کام پر بھی تاکہ پتا چل سکے کہ اپنا کام اور بہتر کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ یہ چیزیں ذہنی تناﺅ میں مزید اضافہ کرتی ہیں اور یہ کبھی ختم نہ ہونے والا سلسلہ ہے۔ تاہم ٹیلی ویژن نیوز میں کام کرنے کا اپنا صلہ بھی ہے۔ ایک پر وقار اور پر جوش زندگی، سماج کے مختلف لوگوں سے ملنا اور ان کا انٹرویو۔ ان لوگوں سے ملاقات جو شاید دوسری صورت میں کبھی میسر نہ ہو پاتی۔ اس طرح کی ملاقاتوں سے اپنے فرقے اور برادری کے بڑے مسائل سے بھی رو برو ہونے کا موقع ملتا ہے۔ کام کو بہتر طریقے سے انجام دینے میں ایک جذباتی تسکین بھی حاصل ہوتی ہے۔
ٹیلی ویژن نیوز میں جس بنیادی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہے تحریر کی مہارت۔ تحریر دلچسپ اور واضح ہو۔ اس پیشے میں اچھی تحریر ایک بنیادی ہتھیار ہے جس کا اطلاق رپورٹر، پروڈیوسر، ایڈیٹر‘ ویڈیو گرافر، ٹیپ ایڈیٹر اور دیگر سبھی کارکنوں پر جو اس عمل سے وابستہ ہیں، ہو تا ہے جب وہ اچھی تحریر کی اہمیت کو نہ سمجھیں گے تب تک کوئی کام انجام نہیں دے سکتے۔ اچھی تحریر کا دارومدار اچھی رپورٹنگ پر ہوتا ہے۔ رپورٹر، رائٹر، پروڈیوسر، یا ایڈیٹر کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اطلاعات کیسے حاصل کی جاسکتی ہیں کن کن ذرائع سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ نیز اس موضوع پر کس طرح کا مواد آسانی سے فراہم ہوسکتا ہے۔ رپورٹنگ کی بنیادی مہارت کیلئے کسی استاد سے ایک دو لیکچر یا ضروری مشورہ لینا کافی فائدہ مند ہوسکتا ہے۔ یہ بھی پتا ہونا چاہئے کہ تحقیق کا ایک ضروری آلہ یعنی انٹر نیٹ کا استعمال کیسے کیا جاسکتا ہے۔
رپورٹر اور اینکر کیلئے زبانی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ زبانی ادائیگی سے مراد کسی مسودہ کو محض اچھی طرح پڑھ لینے سے نہیں بلکہ رپورٹر اور اینکر کو اس کا اہل ہونا چاہئے کہ تحریر کے ذریعے جن باتوں کو سامنے لانا چاہتے ہیں مہارت کے ساتھ پہلے ان کی زبانی ترسیل کریں۔ اس کیلئے اگر ممکن ہو تو بحث مباحثہ یا تھیڑ کی کار گزاریوں میں حصہ لیں۔ لفظوں کی ادائیگی اس طرح کرنا سیکھیں کہ ان کے معنی واضح ہوجائیں۔ ان کی ترسیل ناظرین تک بآسانی ہوجائے۔ ٹیلی ویژن صحافی کا علم وسیع ہونا ضروری ہے۔ اسے دنیا کے بارے میں پوری جانکاری ہونی چاہئے کہ کہاں کیا ہورہا ہے۔ تبھی وہ ایک اچھی اسٹوری کی شناخت کر پائے گا اور اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ لوگوں سے کس طرح کے سوالات پوچھے جاسکتے ہیں اور کیسے ان کے جواب حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ اسے ادب‘ سائنس، تجارت، تاریخ اور معاشیات و غیرہ کی بنیادی باتیں معلوم ہونا چاہئیں ایک کامیاب ٹیلی ویژن صحافی بننے کیلئے ان میں سے زیادہ تر کا استعمال معمول کے طور پر کرنا پڑے گا۔ ایسی معلومات بھی ضروری ہیں جو اسکول کالج اور یونیورسٹیوں کی کلاسز میں نہیں بلکہ سفر کے مشاہدوں، عام زندگی کے تجربوں اور لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے سے حاصل ہوں گی۔ یہ سبھی تجربات اور مشاہدات اس وقت کام آتے ہیں جب کوئی شخص اپنی صلاحیت کو اس پیشے میں بروئے کار لاتا ہے۔ ایسے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ٹیلی ویژن نیوز میں کام کرنا چاہتے ہیں۔ ان کیلئے اخباروں کے مطالعہ کے علاوہ یہ ضروری ہے کہ وہ ٹی وی نیوز بلیٹن کو غور سے سنیں اوردیکھیں اگر کسی شخص اپنے ارد گرد کے ماحول کے بارے میں جاننے کا تجربہ نہیں ہے تو یہ پیشہ اس کیلئے قطعی موزوں نہیں۔ ہر ماہ دو یا تین ایسے رسائل بھی پڑھنے چاہئیں جو خبروں سے متعلق ہوں۔ ان باتوں پر خصوصی توجہ دینی چاہئے کہ جو باتیں ان خبروںمیں کہی گئی ہیں وہ کیسے کہی گئی ہیں اور کیا کہی گئی ہیں پیشکش کا کیا اسٹائل ہے اور کون اچھے رپورٹر، رائٹر، ایڈیٹر اور کیمرہ مین ہیں ان سب کاموں کو تنقید ی نگاہ سے دیکھنا چاہئے۔ مختلف چیزوں کے بارے میں بھی معلومات ضروری ہیں۔ آڈیو اور ویڈیو ٹیکنالوجی کی بنیادی سمجھ بھی کافی اہم ہے اور یہ بھی کہ آوازوں اور تصویروں کو کیسے ریکارڈ کیا جاتاہے اور کیسے ان سے اچھی اسٹوری بنائی جاسکتی ہے۔ اب سبھی نیوز روم پوری طرح سے کمپیوٹرائیز ہوچکے ہیں جس سے رپورٹر، رائٹر، پروڈیوسر، کورن ڈاﺅن چیک کرنے، اسکرپٹ لکھنے، وڈیو کی نظر ثانی کرنے اور اسکرپٹ کو سینئر صحافی کی منظوری کیلئے بھیجنے یا پھر براہ راست ٹیلی پیرا میٹر تک بھیجنے میں آسانی ہوتی ہے۔ رپورٹر اور کیمرہ مین اب لیپ ٹاپ کمپیوٹر اور موبائل فون کے ساتھ اپنی اسٹوری کور کرنے کیلئے فیلڈ میں جاتے ہیں اور اپنے ساتھ ایسی گاڑی بھی لے جاتے ہیں جو جدید آلات سے مزین ہوتی ہے جن کی مدد سے وہ کسی بھی مقام سے اسٹوڈیو سے فوراً لائیو کنکٹ ہو سکتے ہیں۔ ٹیلی ویژن ٹیکنالوجی آلات کا ایک سیٹ فراہم کرتی ہے جس سے ٹیلی ویژن صحافی کام کرتے ہیں۔ان سے گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ ان آلات کے بارے میں جاننے اور سیکھنے کا جذبہ ہونا چاہئے نیوز روم میں کسی رول کو کیسے اد اکیا جاتا ہے اور کس طرح یہ سبھی ر ول بلیٹن اور چینل کی بقاءکیلئے ضروری ہیں۔ ٹیلی وژن میں کام کے دباﺅ سے چھٹکاراممکن نہیں اس لئے آپ کو اس کا عادی ہونا چاہیے۔ٹیلی ویژن میں بہترین صحافی وہی ہے جو کسی طرح کے دباﺅ کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیتا اور اپنی توجہ اپنے کام پر مرکوز کئے رکھتا ہے۔ کیونکہ اس پیشے میں ڈیڈ لائن کی بہت اہمیت ہے اور نیوزر وم میں کام کرنے والے پروفیشنل کا واسطہ بروقت ڈیڈ لائن سے ہوتا ہے۔ کبھی کبھی کئی اسٹوریز پر ایک ساتھ کام کرنا ہوتا ہے اور ان سب کی ڈیڈ لائن بھی ایک ہوتی ہے جب ڈیڈ لائن قریب آئے تو گھبرانا نہیں چاہئے بنیادی بات یہ ہے کہ دوسروں کی عظمت کے ساتھ آپ کو اپنی قابلیت کے بارے میں بھی پر اعتماد ہونا چاہئے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ بہت سی غلطیاں کریں اور انہی غلطیوں سے آپ کو سیکھنے کا موقع بھی ملے۔ کوشش کریں کہ غلطیاں کم سے کم ہوں لیکن غلطیوں کا ہونا فطری ہے کیوں کہ یہ اس عمل کا حصہ ہے۔ جب آپ کوئی غلطی کرتے ہیں اور اس کیلئے آپ کو کسی کی ڈانٹ سننا پڑتی ہے یا کسی کی تنقید کا نشانہ بنتے ہیں تو بجائے اس پر اپنی ناراضگی دکھانے کے ان غلطیوں کو تسلیم کرلینا زیادہ بہتر ہوگا اور اس سے بھی بہتر ان غلطیوں سے سبق حاصل کرنا۔ اپنی صلاحیت پر یقین رکھیں اور جتنا بہتر کرسکتے ہیں کرنے کی کوشش کریں۔ صحت کا خیال رکھیں سادہ کھانا کھائیں اور اپنی نیند پوری کریں۔ آپ کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ہر لمحہ آپ کسی نہ کسی نیوز اسٹوری پر کام کرتے رہیں۔ نیوز میکنگ کے پورے عمل میں غرق رہنے میں خوشی محسوس کریں اور اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے کے دوران ہر شخص سے پیشہ ورانہ مقابلہ کریں مقابلے سے مراد یہ ہے کہ آپ اتنی محنت کریں کہ اپنے کام میں ماہر ہوجائیں اور دوسروں کو آپ کی اہمیت کا احساس ہوا۔ اپنے عمل میں‘ اپنی وضع قطع میں اور اپنے رویے میں پروفیشنلزم اپنائیں۔ ٹیلی ویژن نیوز کثیر الجہات ہوتی ہیں۔ ٹیلی ویژن کی تکنیک لگاتار بدلتی رہتی ہے اور اسی لئے سیکھنے کا عمل لگا تار جاری رہتا ہے۔ دوسرا عمل جو لگاتار جاری رہتا ہے وہ ہے تحریر۔ آپ کو زبان پر مکمل عبور حاصل ہے اور آپ ایک اچھے رائٹر ہیں تو ٹیلی ویژن نیوز میں آپ کا مستقبل تابناک ہے۔(بشکریہ۔روزنامہ مقدمہ سنڈے میگزین)
 

شمشاد

لائبریرین
بھائی جی کسی دوسری سائیٹ سے پورے کا پورا مواد نقل کر کے یہاں چسپاں کرنا ضروری نہیں ہے۔ چند سطریں اور ربط دینا کافی ہوتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
ٹی وی، باقی میس میڈیا کی طرح موجودہ دور کی ایک لعنت ہے۔ اسکے فوائد کم اور نقصانات کہیں زیادہ ہو چکے ہیں۔ جب ٹی وی 1926ء میں ایجاد ہوا تو اسکا مقصد علم پھیلانا اور عوام کو حالات سے باخبر رکھنا تھا۔ آج 83 سال بیت چکے ہیں اور ٹیلیوژن سوائے جھوٹی خبروں، افواہوں، پراپیگنڈا اور انٹرٹینمنٹ کے سوا اور کچھ نہیں دکھاتا!
 

شمشاد

لائبریرین
انٹرٹینمنٹ بھی اب ایسی ہوتی جا رہی ہے کہ ایک خاندان اکٹھے بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا۔
 

فخرنوید

محفلین
محفل کے بہترین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یار سچی بہترین نقاد کی رائے بیان ہو چکی ہے۔


اللہ حافظ
 

dxbgraphics

محفلین
ٹی وی، باقی میس میڈیا کی طرح موجودہ دور کی ایک لعنت ہے۔ اسکے فوائد کم اور نقصانات کہیں زیادہ ہو چکے ہیں۔ جب ٹی وی 1926ء میں ایجاد ہوا تو اسکا مقصد علم پھیلانا اور عوام کو حالات سے باخبر رکھنا تھا۔ آج 83 سال بیت چکے ہیں اور ٹیلیوژن سوائے جھوٹی خبروں، افواہوں، پراپیگنڈا اور انٹرٹینمنٹ کے سوا اور کچھ نہیں دکھاتا!

انٹرٹینمنٹ بھی ایسی کے بیچلر انٹرٹینمنٹ کہہ لیں۔ فیملی انٹرٹینمنٹ والا دور گذر چکا
 

اشتیاق علی

لائبریرین
ٹی وی، باقی میس میڈیا کی طرح موجودہ دور کی ایک لعنت ہے۔ اسکے فوائد کم اور نقصانات کہیں زیادہ ہو چکے ہیں۔ جب ٹی وی 1926ء میں ایجاد ہوا تو اسکا مقصد علم پھیلانا اور عوام کو حالات سے باخبر رکھنا تھا۔ آج 83 سال بیت چکے ہیں اور ٹیلیوژن سوائے جھوٹی خبروں، افواہوں، پراپیگنڈا اور انٹرٹینمنٹ کے سوا اور کچھ نہیں دکھاتا!
عارف کریم بھائی آپ کی یہ بات تو سو فیصد نہیں بلکہ ہزار فیصد صحیح ہے۔
 

محسن حجازی

محفلین
انٹرٹینمنٹ بھی اب ایسی ہوتی جا رہی ہے کہ ایک خاندان اکٹھے بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا۔

اس قماش کی انٹرٹینمنٹ وہاں لے آئے گا کہ خاندان اکٹھا رہے گا ہی نہیں۔
عید وغیرہ کی چھٹیوں میں غلطی سے نیوز چینل کی بجائے جب بھی ادھرادھر بھٹکا تو واپسی کی راہ لی۔
 
Top