نین سکھ سرمہ

ایک سرمہ فروش کی کہانی
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں دال کھا کر گوشت کے ڈکار لیتا تھا اور میں نے سرمہ بیچنا بھی شروع نہیں کیا تھا۔ نیا نیا اپنے گاؤں سیالکوٹ سے لاہور آیا تو لکشمی چوک کے پاس ایک فلم ڈسٹری بیوشن کمپنی میں بیرون شہر بجھوانے والی فلموں کی ریلوں کا حساب کتاب رکھنے کا کام مل گیا ۔ میرے ذمے ریلوں کو ترتیب سے رکھنا اور جہاں جہاں ڈیمانڈ ہوتی تھی وہاں وہاں فلم کی ریلیں بجھوا کر رجسٹر میں اندراج کرنا تھا۔

رہائش کے لیے عبدالکریم روڈ پر مجھے ایک چوبارہ مل گیا جو ایک بوڑھی اماں کی ملکیت تھا، نیچے والے حصے میں وہ خود رہتیں تھی۔ اماں جی تو لڑکیوں کے کسی سکول میں کینٹین چلاتیں جبکہ ان کے دو بیٹے گھر سے تھوڑا دور سائیکلیں ٹھیک کرنے کا کام کرتے۔ کبھی کبھار آتے جاتے ان سے بھی سلام دعا ہو جاتی تھی۔

میرے چوبارے کی واحد کھڑکی ساتھ والے گھر کی چھت پر کھلتی تھی جو کہ ایک منزلہ تھا۔ میں چھڑا چھانٹ تھا پھر بھی کھانا اپنے چوبارے میں ہی بنا لیا کرتا۔ دن میں کبھی کبھار کھانا بناتے ہوئے گرمی کا احساس زیادہ ہونے یا رات کو سونے سے پہلے کھڑکی کے پٹ وا کردیتا۔

ہفتے کےچھ دن تو صبح سے شام نوکری اور رات گھر والی روٹین رہتی لیکن چھٹی والے دن اپنے کپڑے دھونے، کھانا بنانے اور چوبارے کی صفائی ستھرائی کر کے بھی بہت سا وقت بچ جاتا۔ پھر میرا کوئی یار دوست بھی نہیں تھا کہ جو میرے پاس آ جاتا یا میں اس کے پاس چلا جاتا اور نہ ہی میں گھومنے پھرنے کا شوقین تھا۔ تو ایسے میں وقت گزاری کے لیےکبھی کبھار کھڑکی کھول کر باہر اڑتی ہوئی پتنگیں دیکھتا رہتا یا اپنی چارپائی پر پڑا ریڈیو سنتا رہتا۔

مجھے اس چوبارے میں آئے کوئی تین چار ہفتے ہوئے تھے کہ ایک چھٹی والے دن میں کھڑکی کھولے اڑتی ہوئی رنگ برنگی پتنگیں دیکھ رہا تھا تبھی ساتھ والی چھت پر ایک لڑکی نظر آئی جو چھت سے سوکھے ہوئے کپڑے اکٹھے کر رہی تھی۔ میں کھڑکی سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا اور اسے چوری چھپے دیکھتا رہا تاکہ اسے پتہ نہ لگے۔ وہ کپڑے اکٹھے کر کے ممٹی میں جا گھسی اور پھر مجھے دکھائی نہ دی۔

لڑکی خوبصورت تھی یا پھر شاید مجھے خوبصورت لگی کہ اس رات میرا بہت سا وقت اسے ہی سوچتے ہوئے جاگتے میں گزر گیا۔ اگلے بہت سے دن میں روزانہ کام سے واپس آ کر کھڑکی میں کھڑا ہوجاتا لیکن وہ لڑکی دوبارہ نظر نہ آئی اور ادھر میں اس کی محبت میں یکطرفہ مبتلا ہوا پڑا تھا۔ اسی طرح کوئی تین ہفتے گزر گئے اور مجھے دوبارہ اس کی شکل دکھائی نہ دی۔

ایک دن کام سے واپس آتے راستے میں مجھے ایک دکان نظر آئی۔ اس پر بڑا سا بورڈ لگا تھا 'نین سُکھ سرمہ' نیچے تحریر تھا 'اس سرمے کے استعمال سے ظالم سے ظالم محبوب بھی دو ہی دنوں میں آپ سے نظریں ملانے پر مجبور'۔ مجھے لگا شاید میری مشکل کا حل یہی ہے۔ میں فوراً دکان میں جا گھسا۔ وہاں ایک بابا جی بیٹھے تھے، شرماتے لجاتے انھیں اپنا حال دل سنایا تو کہنے لگے یہ سرمہ لے جاؤ، اور اپنی آنکھوں میں ڈالے رکھو، دو ہی دن میں تمھارا محبوب تم سے نظریں ملانے پر مجبور ہو جائے گا۔ میں نے سرمہ لیا اور خوشی خوشی گھر کی طرف چل دیا۔

اگلے دو دن میں نے لپ لپ بھر کر سرمہ اپنی آنکھوں میں ڈالا اور کھڑکی کھول کر مسلسل اس چھت کی طرف دیکھتا رہا۔ لیکن مجھے کوئی کامیابی نہ ملی کہ میرے کھڑکی میں کھڑے ہونے کے اوقات کے دوران کوئی بھی چھت پر نہ آیا، نظریں خاک ملنا تھی۔ پتہ نہیں بابے نے کیسا سرمہ دے دیا تھا جس نے کوئی اثر ہی نہ کیا۔

تیسرے دن میں پھر بابے نین سُکھ کی دکان پر جا پہنچا اور اسے سارا حال بتایا۔ اس نے کہا کوئی بات نہیں تم لڑکی اور اس کی ماں کا نام بتاؤ میں تمھیں بالو شاہی دم کر کے دوں گا، وہ انھیں کھلانا اور پھر دیکھنا تمھارا کام کیسے بنتا ہے۔ مجھے نام کا تو پتہ نہیں تھا اس لیے واپس لوٹ گیا۔

اگلے ایک دو دن میں مجھے اس چھت پر ایک دس بارہ سال کا لڑکا پتنگ اڑاتے نظر آیا۔ اس لڑکے کو پتنگ اڑاتے دیکھ کر میں نے ایک منصوبہ بنالیا۔ تیسرے دن میں نے بازار سے ایک بڑی سی پتنگ لی اور گھر آ گیا۔ جب وہ لڑکا پتنگ اڑانے آیا تو میں نے اپنی پتنگ کھڑکی سے اس کی چھت پر پھینک دی۔ اتنی بڑی پتنگ دیکھ کر لڑکا بہت خوش ہوا اور مجھے کہنے لگا آئیں نا آپ بھی پتنگ اڑائیں، لیکن میں نے اسے منع کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پتنگ اڑانا نہیں آتی یہ میں تمھارے لیے ہی لایا ہوں۔ اس طرح میں نے اس لڑکے سے گپ شپ شروع کر دی اور چار ہی دنوں میں اس کی ماں اور بہن کا نام جان لیا۔

اگلے دن میں صبح ہی صبح ایک کلو بالو شاہی لیکر بابے نین سُکھ کی دکان پر جا پہنچا اور اسے لڑکی اور اس کی ماں کے نام بتائے۔ نام سن کر بابے نے میری طرف تھوڑا حیرانی سے دیکھا لیکن پھر مجھے بالو شاہی دم کر کے دے دیں اور کہا کہ اس گھر کا جو بھی شخص یہ بالو شاہی کھائے گا وہ تمھارا مرید ہو جائے گا اور پھر تمھارا کام باآسانی ہو جانا ہے۔ میں نے لفافہ اٹھایا اور سیدھا گھر آ گیا۔ پھر کھڑکی کھول کر بالو شاہی کا لفافہ ان کی چھت پر پھینک دیا اور خود چھپ کر دیکھتا رہا کہ کب میری ایک بار کی دیکھی ہوئی محبوبہ اسے اٹھانے آتی ہے لیکن نہ اس نے آنا تھا نہ وہ آئی۔ لیکن کوئی گھنٹے دو گھنٹے بعد وہ پتنگ والا لڑکا کسی کام سے چھت پر آیا تو اس کی نظر لفافے پر پڑی۔ اس نے وہیں کھڑے کھڑے لفافہ کھول کر دیکھا اور پھر لفافہ اٹھا کر بھاگتا ہوا سیڑھیوں سے نیچے چلا گیا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ مٹھائی سارے گھر والے کھائیں گے اور میرا کام بن جائے گا۔

مٹھائی پھینکے تیسرا دن آ گیا لیکن نا تو چھت پر کوئی ذی روح آیا اور نہ ہی کسی اور طرف سے میرے ساتھ رابطہ ہوا۔ میں پھر بابے نین سُکھ کے پاس جا پہنچا اور اسے ساری بات بتائی۔ بابا ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر بولا تیرا کام ایسے نہیں ہونے والا، تجھے 8 دن کا چلہ کرنا پڑے گا اور مجھے بھی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تو آٹھ دن اپنے چوبارے سے باہر نہیں نکلے گا۔ میں نے حامی بھر لی اور بابے کے بتائے ہوئے طریقے پر اپنے آپ کو چوبارے میں بند کر لیا اور کھڑکی بھی بند کر دی کہ اس بار ضرور اس لڑکی اور اس کے گھر والوں کا دل میری طرف مائل ہو جائے گا اور میں اس لڑکی سے بیاہ رچا لوں گا۔

چِلہ کرتے شاید چوتھا روز تھا کہ مجھے گلی میں بینڈ باجوں کی آواز آئی لیکن میں نے کھڑکی نہ کھولی اور نہ باہر دیکھا کہ کہیں میرا چِلہ خراب نہ ہو جائے۔ کوئی دو گھنٹے بینڈ باجوں کی آوازیں آتی رہیں اور پھر خاموشی طاری ہو گئی۔ میں نے بھی یہی سمجھا کہ محلے میں کوئی شادی ہونی ہے۔ جب اگلا دن چڑھا تو میرے چوبارے پر دستک ہوئی اور کسی نے میرا نام لے کر آواز دی۔ میں فوراً پہچان گیا کہ یہ وہی پتنگ والا لڑکا ہے۔ درواز ہ کھولا تو وہ لڑکا بولا، آپ کو میرے ابو بلاتے ہیں۔ میرے روئیں روئیں سے خوشی پھوٹنے لگی، میں نے فوراً ہاتھ منہ دھویا، بالوں میں خوب دبا کر کنگھی کی، کچھ بہتر کپڑے پہنے اور جوتوں پر کپڑا مار کر انھیں صاف کیا۔ پھر اس کے ساتھ گلی کا چکر کاٹ کر اس کے گھر کو ہو لیا۔ میں بہت خوش تھا کہ چار دن میں ہی میرا کام بن گیا ہے۔

لڑکے نے بیٹھک کھول کر مجھے بٹھا دیا۔ عام سا کمرہ تھا، چارکرسیاں، میز، ایک چارپائی اور کچھ سجاوٹ کا سامان پڑا تھا۔ کچھ دیر میں کیا دیکھتا ہوں کہ بابا نین سُکھ بیٹھک میں آ کر کرسیوں کے سامنے پڑی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گیا ہے۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ بابا کہنے لگا میرا نام خوشی محمد ہے، تمھیں سمجھ تو آ گئی ہو گی کہ کل میں نے اپنی بیٹی کی رخصتی کر دی ہے۔ ابھی اس نے اتنی ہی بات کی تھی کہ بیٹھک میں بابے نین سُکھ کی بیوی بھی مٹھائی اور چائے ایک ٹرے میں اٹھائے آ گئی۔ میں حیران پریشان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ پھر بابے کی بیوی بولی کہ میری اس بیٹی کی منگنی ہوئی ہوئی تھی اس لیے کہیں اور بیاہنے کا تو خیال بھی نہیں تھا۔ البتہ میری چھوٹی بیٹی ابھی رہتی ہے اگر تمھیں منظور ہے تو اس کی شادی تم سے کر دیتے ہیں۔ میں نے چند لمحے سوچا، پھر مٹھائی کا ایک ٹکڑا اٹھا کر منہ میں رکھا، ساتھ ہی چائے کا گھونٹ بھرا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔

شادی کے بعد بابے نین سکھ نے میری نوکری چھڑوا دی اور اپنے ساتھ دکان پر لے گیا جہاں پہلے اس نے مجھےسرمہ بنانا سکھایا اور پھر دوکان ہی میرے حوالے کردی۔ اب میں سارا دن سرمہ بناتا اور اسے شیشیوں میں بھرتا رہتا ہوں۔ روزانہ ہی دو چار نوجوان باہر لگے بورڈ کو پڑھ کر اندر آتےہیں اور سرمے کی ایک دو شیشیاں لے جاتے ہیں۔

دوستو، بھائیو اور عزیزو میرا یہ نین سکُھ سرمہ آپ کی آنکھوں سے جالا، ککرا اور خارش تو دور کر سکتا ہے لیکن محبوب نہیں ملا سکتا اور یہ جو سرمے کے نام کے نیچے لکھا ہے "ظالم سے ظالم محبوب بھی دو ہی دنوں میں آپ سے نظریں ملانے پر مجبور" سراسر جھوٹ ہے، تم بھی اعتبار نہ کرنا۔


۔۔۔۔

ماخوذ
 

لاریب مرزا

محفلین
ہائیں!! یہ کیا ہوا؟؟ :eyerolling: :ROFLMAO:
مصنف وہ کرشماتی سرمہ خود لگانے کے بجائے محبوبہ کو تحفے میں بھجوا دیتے تو شاید باقی کے تردد نہ کرنے پڑتے اور صورت حال مختلف ہوتی۔ :sneaky:
 

لاریب مرزا

محفلین
جوں جوں کہانی پڑھتے گئے آپ سے شدید ہمدردی کے احساسات بڑھتے گئے۔ آخر میں "ماخوذ" کا لفظ پڑھ کر سوچا کہ ہائیں!! :eyerolling: ایویں ہمدردی ضائع گئی۔ :ROFLMAO:
پھر جب تھوڑا سا اور سوچا تو خیال آیا کہ جب تحریر چوہدری صاحب کی ہے تو ماخوذ کہاں سے ہوئی؟؟ :confused2: :D
تفنن برطرف!! اچھی تحریر ہے۔ سب نوجوانوں کو چاہیے کہ اس تحریر کو غور سے پڑھیں اور کچھ سبق حاصل کریں۔ :D
 
آخری تدوین:
ہائیں!! یہ کیا ہوا؟؟ :eyerolling: :ROFLMAO:
مصنف وہ کرشماتی سرمہ خود لگانے کے بجائے محبوبہ کو تحفے میں بھجوا دیتے تو شاید باقی کے تردد نہ کرنے پڑتے اور صورت حال مختلف ہوتی۔ :sneaky:
مصنف نے نین سکھ سرمے کی 4 شیشیاں خرید لی ہیں اور جلد ہی 'انھیں' بھجوانے والا ہے، بمعہ اس رقعہ کے۔۔۔
اگر یہ سرمہ استعمال کر کے آپ کے دلی کیفییات میں کوئی تبدیلی وقوع پذیر نہ ہو پائی تو باقی سرمہ اپنے دائیں والی ہمسائی کو بھجوا دی جیے۔:p شکریہ
نوٹ، یہ رقعہ بھی ساتھ ہی بھجوا دیجیے گا:battingeyelashes:
 
جوں جوں کہانی پڑھتے گئے آپ سے شدید ہمدردی کے احساسات بڑھتے گئے۔ آخر میں "ماخوذ" کا لفظ پڑھ کر سوچا کہ ہائیں!! :eyerolling: ایویں ہمدردی ضائع گئی۔ :ROFLMAO:
ہمدردی بھی استعمال یا ضائع ہوجانے والی شے ہوتی ہے کیا۔۔؟:cool:
پھر جب تھوڑا سا اور سوچا تو خیال آیا کہ جب تحریر چوہدری صاحب کی ہے تو ماخوذ کہاں سے ہوئی؟؟ :confused2: :D
سینہ بہ سینہ منتقل ہوئی ایک پنجابی داستان
تفنن برطرف!! اچھی تحریر ہے۔ سب نوجوانوں کو چاہیے کہ اس تحریر کو غور سے پڑھیں اور کچھ سبق حاصل کریں۔ :D
یہ بات کی نا، اس سے یہی سبق ملتا ہے کہ سب ایک بار سرمہ ضرور لگائیں اور چیک کریں :p
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ایک سرمہ فروش کی کہانی
یہ اس وقت کی بات ہے جب میں دال کھا کر گوشت کے ڈکار لیتا تھا اور میں نے سرمہ بیچنا بھی شروع نہیں کیا تھا۔ نیا نیا اپنے گاؤں سیالکوٹ سے لاہور آیا تو لکشمی چوک کے پاس ایک فلم ڈسٹری بیوشن کمپنی میں بیرون شہر بجھوانے والی فلموں کی ریلوں کا حساب کتاب رکھنے کا کام مل گیا ۔ میرے ذمے ریلوں کو ترتیب سے رکھنا اور جہاں جہاں ڈیمانڈ ہوتی تھی وہاں وہاں فلم کی ریلیں بجھوا کر رجسٹر میں اندراج کرنا تھا۔

رہائش کے لیے عبدالکریم روڈ پر مجھے ایک چوبارہ مل گیا جو ایک بوڑھی اماں کی ملکیت تھا، نیچے والے حصے میں وہ خود رہتیں تھی۔ اماں جی تو لڑکیوں کے کسی سکول میں کینٹین چلاتیں جبکہ ان کے دو بیٹے گھر سے تھوڑا دور سائیکلیں ٹھیک کرنے کا کام کرتے۔ کبھی کبھار آتے جاتے ان سے بھی سلام دعا ہو جاتی تھی۔

میرے چوبارے کی واحد کھڑکی ساتھ والے گھر کی چھت پر کھلتی تھی جو کہ ایک منزلہ تھا۔ میں چھڑا چھانٹ تھا پھر بھی کھانا اپنے چوبارے میں ہی بنا لیا کرتا۔ دن میں کبھی کبھار کھانا بناتے ہوئے گرمی کا احساس زیادہ ہونے یا رات کو سونے سے پہلے کھڑکی کے پٹ وا کردیتا۔

ہفتے کےچھ دن تو صبح سے شام نوکری اور رات گھر والی روٹین رہتی لیکن چھٹی والے دن اپنے کپڑے دھونے، کھانا بنانے اور چوبارے کی صفائی ستھرائی کر کے بھی بہت سا وقت بچ جاتا۔ پھر میرا کوئی یار دوست بھی نہیں تھا کہ جو میرے پاس آ جاتا یا میں اس کے پاس چلا جاتا اور نہ ہی میں گھومنے پھرنے کا شوقین تھا۔ تو ایسے میں وقت گزاری کے لیےکبھی کبھار کھڑکی کھول کر باہر اڑتی ہوئی پتنگیں دیکھتا رہتا یا اپنی چارپائی پر پڑا ریڈیو سنتا رہتا۔

مجھے اس چوبارے میں آئے کوئی تین چار ہفتے ہوئے تھے کہ ایک چھٹی والے دن میں کھڑکی کھولے اڑتی ہوئی رنگ برنگی پتنگیں دیکھ رہا تھا تبھی ساتھ والی چھت پر ایک لڑکی نظر آئی جو چھت سے سوکھے ہوئے کپڑے اکٹھے کر رہی تھی۔ میں کھڑکی سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا اور اسے چوری چھپے دیکھتا رہا تاکہ اسے پتہ نہ لگے۔ وہ کپڑے اکٹھے کر کے ممٹی میں جا گھسی اور پھر مجھے دکھائی نہ دی۔

لڑکی خوبصورت تھی یا پھر شاید مجھے خوبصورت لگی کہ اس رات میرا بہت سا وقت اسے ہی سوچتے ہوئے جاگتے میں گزر گیا۔ اگلے بہت سے دن میں روزانہ کام سے واپس آ کر کھڑکی میں کھڑا ہوجاتا لیکن وہ لڑکی دوبارہ نظر نہ آئی اور ادھر میں اس کی محبت میں یکطرفہ مبتلا ہوا پڑا تھا۔ اسی طرح کوئی تین ہفتے گزر گئے اور مجھے دوبارہ اس کی شکل دکھائی نہ دی۔

ایک دن کام سے واپس آتے راستے میں مجھے ایک دکان نظر آئی۔ اس پر بڑا سا بورڈ لگا تھا 'نین سُکھ سرمہ' نیچے تحریر تھا 'اس سرمے کے استعمال سے ظالم سے ظالم محبوب بھی دو ہی دنوں میں آپ سے نظریں ملانے پر مجبور'۔ مجھے لگا شاید میری مشکل کا حل یہی ہے۔ میں فوراً دکان میں جا گھسا۔ وہاں ایک بابا جی بیٹھے تھے، شرماتے لجاتے انھیں اپنا حال دل سنایا تو کہنے لگے یہ سرمہ لے جاؤ، اور اپنی آنکھوں میں ڈالے رکھو، دو ہی دن میں تمھارا محبوب تم سے نظریں ملانے پر مجبور ہو جائے گا۔ میں نے سرمہ لیا اور خوشی خوشی گھر کی طرف چل دیا۔

اگلے دو دن میں نے لپ لپ بھر کر سرمہ اپنی آنکھوں میں ڈالا اور کھڑکی کھول کر مسلسل اس چھت کی طرف دیکھتا رہا۔ لیکن مجھے کوئی کامیابی نہ ملی کہ میرے کھڑکی میں کھڑے ہونے کے اوقات کے دوران کوئی بھی چھت پر نہ آیا، نظریں خاک ملنا تھی۔ پتہ نہیں بابے نے کیسا سرمہ دے دیا تھا جس نے کوئی اثر ہی نہ کیا۔

تیسرے دن میں پھر بابے نین سُکھ کی دکان پر جا پہنچا اور اسے سارا حال بتایا۔ اس نے کہا کوئی بات نہیں تم لڑکی اور اس کی ماں کا نام بتاؤ میں تمھیں بالو شاہی دم کر کے دوں گا، وہ انھیں کھلانا اور پھر دیکھنا تمھارا کام کیسے بنتا ہے۔ مجھے نام کا تو پتہ نہیں تھا اس لیے واپس لوٹ گیا۔

اگلے ایک دو دن میں مجھے اس چھت پر ایک دس بارہ سال کا لڑکا پتنگ اڑاتے نظر آیا۔ اس لڑکے کو پتنگ اڑاتے دیکھ کر میں نے ایک منصوبہ بنالیا۔ تیسرے دن میں نے بازار سے ایک بڑی سی پتنگ لی اور گھر آ گیا۔ جب وہ لڑکا پتنگ اڑانے آیا تو میں نے اپنی پتنگ کھڑکی سے اس کی چھت پر پھینک دی۔ اتنی بڑی پتنگ دیکھ کر لڑکا بہت خوش ہوا اور مجھے کہنے لگا آئیں نا آپ بھی پتنگ اڑائیں، لیکن میں نے اسے منع کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پتنگ اڑانا نہیں آتی یہ میں تمھارے لیے ہی لایا ہوں۔ اس طرح میں نے اس لڑکے سے گپ شپ شروع کر دی اور چار ہی دنوں میں اس کی ماں اور بہن کا نام جان لیا۔

اگلے دن میں صبح ہی صبح ایک کلو بالو شاہی لیکر بابے نین سُکھ کی دکان پر جا پہنچا اور اسے لڑکی اور اس کی ماں کے نام بتائے۔ نام سن کر بابے نے میری طرف تھوڑا حیرانی سے دیکھا لیکن پھر مجھے بالو شاہی دم کر کے دے دیں اور کہا کہ اس گھر کا جو بھی شخص یہ بالو شاہی کھائے گا وہ تمھارا مرید ہو جائے گا اور پھر تمھارا کام باآسانی ہو جانا ہے۔ میں نے لفافہ اٹھایا اور سیدھا گھر آ گیا۔ پھر کھڑکی کھول کر بالو شاہی کا لفافہ ان کی چھت پر پھینک دیا اور خود چھپ کر دیکھتا رہا کہ کب میری ایک بار کی دیکھی ہوئی محبوبہ اسے اٹھانے آتی ہے لیکن نہ اس نے آنا تھا نہ وہ آئی۔ لیکن کوئی گھنٹے دو گھنٹے بعد وہ پتنگ والا لڑکا کسی کام سے چھت پر آیا تو اس کی نظر لفافے پر پڑی۔ اس نے وہیں کھڑے کھڑے لفافہ کھول کر دیکھا اور پھر لفافہ اٹھا کر بھاگتا ہوا سیڑھیوں سے نیچے چلا گیا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ مٹھائی سارے گھر والے کھائیں گے اور میرا کام بن جائے گا۔

مٹھائی پھینکے تیسرا دن آ گیا لیکن نا تو چھت پر کوئی ذی روح آیا اور نہ ہی کسی اور طرف سے میرے ساتھ رابطہ ہوا۔ میں پھر بابے نین سُکھ کے پاس جا پہنچا اور اسے ساری بات بتائی۔ بابا ماتھے پر ہاتھ رکھ کر کچھ دیر سوچتا رہا اور پھر بولا تیرا کام ایسے نہیں ہونے والا، تجھے 8 دن کا چلہ کرنا پڑے گا اور مجھے بھی۔ لیکن شرط یہ ہے کہ تو آٹھ دن اپنے چوبارے سے باہر نہیں نکلے گا۔ میں نے حامی بھر لی اور بابے کے بتائے ہوئے طریقے پر اپنے آپ کو چوبارے میں بند کر لیا اور کھڑکی بھی بند کر دی کہ اس بار ضرور اس لڑکی اور اس کے گھر والوں کا دل میری طرف مائل ہو جائے گا اور میں اس لڑکی سے بیاہ رچا لوں گا۔

چِلہ کرتے شاید چوتھا روز تھا کہ مجھے گلی میں بینڈ باجوں کی آواز آئی لیکن میں نے کھڑکی نہ کھولی اور نہ باہر دیکھا کہ کہیں میرا چِلہ خراب نہ ہو جائے۔ کوئی دو گھنٹے بینڈ باجوں کی آوازیں آتی رہیں اور پھر خاموشی طاری ہو گئی۔ میں نے بھی یہی سمجھا کہ محلے میں کوئی شادی ہونی ہے۔ جب اگلا دن چڑھا تو میرے چوبارے پر دستک ہوئی اور کسی نے میرا نام لے کر آواز دی۔ میں فوراً پہچان گیا کہ یہ وہی پتنگ والا لڑکا ہے۔ درواز ہ کھولا تو وہ لڑکا بولا، آپ کو میرے ابو بلاتے ہیں۔ میرے روئیں روئیں سے خوشی پھوٹنے لگی، میں نے فوراً ہاتھ منہ دھویا، بالوں میں خوب دبا کر کنگھی کی، کچھ بہتر کپڑے پہنے اور جوتوں پر کپڑا مار کر انھیں صاف کیا۔ پھر اس کے ساتھ گلی کا چکر کاٹ کر اس کے گھر کو ہو لیا۔ میں بہت خوش تھا کہ چار دن میں ہی میرا کام بن گیا ہے۔

لڑکے نے بیٹھک کھول کر مجھے بٹھا دیا۔ عام سا کمرہ تھا، چارکرسیاں، میز، ایک چارپائی اور کچھ سجاوٹ کا سامان پڑا تھا۔ کچھ دیر میں کیا دیکھتا ہوں کہ بابا نین سُکھ بیٹھک میں آ کر کرسیوں کے سامنے پڑی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گیا ہے۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ بابا کہنے لگا میرا نام خوشی محمد ہے، تمھیں سمجھ تو آ گئی ہو گی کہ کل میں نے اپنی بیٹی کی رخصتی کر دی ہے۔ ابھی اس نے اتنی ہی بات کی تھی کہ بیٹھک میں بابے نین سُکھ کی بیوی بھی مٹھائی اور چائے ایک ٹرے میں اٹھائے آ گئی۔ میں حیران پریشان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ پھر بابے کی بیوی بولی کہ میری اس بیٹی کی منگنی ہوئی ہوئی تھی اس لیے کہیں اور بیاہنے کا تو خیال بھی نہیں تھا۔ البتہ میری چھوٹی بیٹی ابھی رہتی ہے اگر تمھیں منظور ہے تو اس کی شادی تم سے کر دیتے ہیں۔ میں نے چند لمحے سوچا، پھر مٹھائی کا ایک ٹکڑا اٹھا کر منہ میں رکھا، ساتھ ہی چائے کا گھونٹ بھرا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔

شادی کے بعد بابے نین سکھ نے میری نوکری چھڑوا دی اور اپنے ساتھ دکان پر لے گیا جہاں پہلے اس نے مجھےسرمہ بنانا سکھایا اور پھر دوکان ہی میرے حوالے کردی۔ اب میں سارا دن سرمہ بناتا اور اسے شیشیوں میں بھرتا رہتا ہوں۔ روزانہ ہی دو چار نوجوان باہر لگے بورڈ کو پڑھ کر اندر آتےہیں اور سرمے کی ایک دو شیشیاں لے جاتے ہیں۔

دوستو، بھائیو اور عزیزو میرا یہ نین سکُھ سرمہ آپ کی آنکھوں سے جالا، ککرا اور خارش تو دور کر سکتا ہے لیکن محبوب نہیں ملا سکتا اور یہ جو سرمے کے نام کے نیچے لکھا ہے "ظالم سے ظالم محبوب بھی دو ہی دنوں میں آپ سے نظریں ملانے پر مجبور" سراسر جھوٹ ہے، تم بھی اعتبار نہ کرنا۔
۔۔۔۔
ماخوذ
:) :)
:)
 
دوستو، بھائیو اور عزیزو میرا یہ نین سکُھ سرمہ آپ کی آنکھوں سے جالا، ککرا اور خارش تو دور کر سکتا ہے لیکن محبوب نہیں ملا سکتا اور یہ جو سرمے کے نام کے نیچے لکھا ہے "ظالم سے ظالم محبوب بھی دو ہی دنوں میں آپ سے نظریں ملانے پر مجبور" سراسر جھوٹ ہے، تم بھی اعتبار نہ کرنا۔
اس سطر نے مزہ کرکرا کر دیا۔ ایسا لگا جیسے کہانئی کے اختتام پر "تو بچو اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ۔۔۔" جیسا درس دیا گیا ہو۔ تحریر مزے کی تھی لیکن اختتام یقیناً بہتر اور دلچسپ ہو سکتا تھا۔ :) :) :)
تفنن برطرف!! اچھی تحریر ہے۔ سب نوجوانوں کو چاہیے کہ اس تحریر کو غور سے پڑھیں اور کچھ سبق حاصل کریں۔ :D
پہلے بتا دیا ہوتا تو بوڑھوں کا وقت ضائع نہ ہوتا۔ :) :) :)
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اس سطر نے مزہ کرکرا کر دیا۔ ایسا لگا جیسے کہانئی کے اختتام پر "تو بچو اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ۔۔۔" جیسا درس دیا گیا ہو۔ تحریر مزے کی تھی لیکن اختتام یقیناً بہتر اور دلچسپ ہو سکتا تھا۔ :) :) :)

پہلے بتا دیا ہوتا تو بوڑھوں کا وقت ضائع نہ ہوتا۔ :) :) :)
:) :)
:) :)
 
اس سطر نے مزہ کرکرا کر دیا۔ ایسا لگا جیسے کہانئی کے اختتام پر "تو بچو اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ۔۔۔" جیسا درس دیا گیا ہو۔ تحریر مزے کی تھی لیکن اختتام یقیناً بہتر اور دلچسپ ہو سکتا تھا۔ :) :) :)
اس سطر سے پہلے ایک اور پیراگراف بھی میں نے خود سے لکھ ڈالا تھا، پھر یہ سوچ کر نکال دیا کہ یہ اصل کہانی سے ناانصافی ہو گی، ورنہ اختتام کچھ اور ہوتا جو ایک اور ہی رنگ لیے ہوئے تھا۔
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
ٹھیک اسی طرح جیسے کھانے کا آخری نوالہ پہلے کھا لیا جائے تو پتا چل جاتا ہے کہ مکمل کھانا کھانے کے بعد پیٹ اور من کتنا بھرے گا۔ :) :) :)

ایک کام اور بھی کرنا ہو گا، نین سکھ سرمہ بھی لگانا ہو گا پڑھنے سے پہلے
:) :)
:) :)
 

لاریب مرزا

محفلین
مصنف نے نین سکھ سرمے کی 4 شیشیاں خرید لی ہیں اور جلد ہی 'انھیں' بھجوانے والا ہے، بمعہ اس رقعہ کے۔۔۔
اگر یہ سرمہ استعمال کر کے آپ کے دلی کیفییات میں کوئی تبدیلی وقوع پذیر نہ ہو پائی تو باقی سرمہ اپنے دائیں والی ہمسائی کو بھجوا دی جیے۔:p شکریہ
نوٹ، یہ رقعہ بھی ساتھ ہی بھجوا دیجیے گا:battingeyelashes:
ہماری دلی دعا ہے کہ "وہ" سرمہ لگانے کی عادی ہوں۔ نہیں تو مصنف کے پیسے اور یہ کوشش اکارت جائے گی۔ :D
 
Top