مومن نہ کیوں کر بس موا جاؤں کہ یاد آتا ہے رہ رہ کر

نمرہ

محفلین
نہ کیوں کر بس موا جاؤں کہ یاد آتا ہے رہ رہ کر
وہ تیرا مسکرانا کچھ مجھے ہونٹوں میں کہہ کہہ کر
کہاں لختِ جگر ہیں سیلِ گریہ میں چڑھا دریا
چلے آتے ہیں یہ ڈوبے ہوؤں کے لاشے بہ بہ کر
بہارِ باغ دو دن ہے غنیمت جان اے بلبل
ذرا ہنس بول لے ہو زمزمہ پرداز چہ چہ کر
نوید اے دل کہ رشکِ غیر سے چھوٹے، اسے ہم نے
ستم کا کر دیا خوگر جفا و جور سہہ سہہ کر
ستم ہے شدتِ گریہ سرایت خوں نے کی پر کی
رکھے رومال چشمِ خوں فشاں پر لاکھ تہ تہ کر
لگی ہچکی ہے سر زانوئے غم پر ہے کہ یاد آیا
کسی کا ہاتھ ہر دم مارنا زانو پہ قہ قہ کر
خدا کو مان اپنی راہ لے کعبے کو جا مومن
صنم خانے میں کیا لیوے گا اے گم گشتہ رہ رہ کر
 
Top