نہیں ہوتیں کبھی ساحل کے ارمانوں سے وابستہ

Qaisar Aziz

محفلین
نہیں ہوتیں کبھی ساحل کے ارمانوں سے وابستہ
ہماری کشتیاں رہتی ہیں طوفانوں سے وابستہ

ہمارا ہی جگر ہے یہ ہمارا ہی کلیجہ ہے
ہم اپنے زخم رکھتے ہیں نمکدانوں سے وابستہ

نہ لے چل خانقاہوں کی طرف شیخِ حرم مجھ کو
مجاہد کا تو مستقبل ہے میدانوں سے وابستہ

میں یوں رہزن کے بدلے پاسباں پر وار کرتا ہوں
مرے گھر کی تباہی ہے نگہبانوں سے وابستہ

ہماری بے قراری کو نہ چھیڑو مطمئن لوگو
کہ تقدیرِ سکوں ہے ہم پریشانوں سے وابستہ

کہیں مسلی ہوئی کلیاں، کہیں روندے ہوئے غنچے
بہت سی داستانیں ہیں شبستانوں سے وابستہ

مورخ! تیری رنگ آمیزیاں تو خوب ہیں، لیکن
کہیں تاریخ ہو جائے نہ افسانوں سے وابستہ

ابھی یہ چلتے چلتے دیکھ لیتے ہیں خراشوں کو
ابھی کچھ اور زنجیریں ہیں دیوانوں سے وابستہ

محبت خامشی بھی، چیخ بھی، نغمہ بھی، نعرہ بھی
یہ اک مضمون ہے کتنے ہی عنوانوں سے وابستہ

حفیظؔ میرٹھی کو کون پہچانے، کہ بے چارہ
نہ ایوانوں سے وابستہ، نہ دربانوں سے وابستہ

حفیظؔ میرٹھی
 
Top