نہیں کہ جینے کی حسرت نہیں رہی مجھ میں-ملک عدنان احمد

نہیں کہ جینے کی حسرت نہیں رہی مجھ میں
ابھی بھی شور مچاتی ہے زندگی مجھ میں

ترے وجود سے ہوتی تھی روشنی مجھ میں
تو کیا گیا ہے کہ اک لَو سی بجھ گئی مجھ میں

خزاں رسیدہ شجر ہوں میں، تُو بہار سی آ
مبادا پھوٹ پڑیں کونپلیں نئی مجھ میں

تری نظر میں وہ شوخی بھی اب کہاں باقی
کہاں رہا ہے بھلا بانکپن وہی مجھ میں

یہ کھیل آگ کا دن رات مجھ میں جاری ہے
الاؤ جلتے ہیں بجھتے ہیں اب کئی مجھ میں

جو مسکرا کے کوئی دیکھے، ہو گیا اسکا
بس ایک بات یہی ہے بہت بری مجھ میں

کہاں نصیب تجھے پہنچوں، در کو چوم آیا
مگر یہ خوشبو سی آتی ہے کیوں تری مجھ میں

میں بے خودی میں وہاں آگیا جہاں احمد
مجھی کو کھوجتا رہتا ہے اب کوئی مجھ میں

(ملک عدنان احمد)
 
آخری تدوین:
اچھی غزل لکھی ہے آپ نے، مجھ امید ہے کہ جیسے جیسے اردو زبان کا مطالعہ اور شاعری کا تجربہ بڑھتا جائے گا شاعری میں نکھار آتا جائے گا۔ :)
 
اچھی غزل لکھی ہے آپ نے، مجھ امید ہے کہ جیسے جیسے اردو زبان کا مطالعہ اور شاعری کا تجربہ بڑھتا جائے گا شاعری میں نکھار آتا جائے گا۔ :)
بڑی نوازش ہے لئیق بھیا۔ اور بالکل کوشش میری بھی یہی رہتی ہے کہ مطالعہ پر ہی توجہ رہے، ابھی خود قلم نہ اٹھایا جائے۔ لیکن لکھنے کو یکسر ترک کیے رہنا بھی تو مناسب نہیں۔
کسی نے کہا تھا نہ:
؎می نویس و می نویس و می نویس :)
 
Top