نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کی گنبد پر !!

باذوق

محفلین
آج ہمارے معاشرے میں کافی نوجوان ایسے مل جاتے ہیں جو کچھ پیشوں کو معمولی اور کمتر سمجھ کر اختیار نہیں کرتے۔ ایسے لوگ دستِ سوال دراز کرنا ، فقر و فاقہ اور افلاس کو ترجیح دیتے ہیں لیکن محنت مزدوری یا کوئی عام پیشہ نہیں اپناتے ، یہ سمجھ کر کہ اس سے ان کی ساکھ گر جائے گی ، وہ معاشرے میں حقیر سمجھے جائیں گے۔
افسوس کہ یہ نوجوان نہیں سمجھتے کہ اسلام نے کسبِ حلال کی جتنی ترغیب دی ہے اتنی کسی بھی ادیانِ سماوی میں نہیں دی گئی۔ ہمارے محبوب رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) نے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا تھا اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی کا ارشاد گرامی ہے:
تجارت میں برکت ہے۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے ایک ایسے نوجوان کو دیکھا جو انہیں بڑا بھلا ، نیک اور صحت مند و تندرست نظر آیا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ یہ نوجوان کیا کام کرتا ہے؟
لوگوں نے بتایا : اے امیر المومنین ! یہ نوجوان تو کچھ نہیں کرتا ، یہ نکما ہے۔
حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے یہ سن کر فرمایا : ایسے جوان کی میرے نزدیک کوئی قدر و احترام نہیں ہے !!

ارشاد رسول (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم) ہے :
ہر مسلمان پر رزق حلال حاصل کرنا فرض ہے جس طرح دین کا علم حاصل کرنا لازم اور ضروری ہے۔
صنعت و حرفت اور کسبِ حلال کو شریعتِ مطہرہ نے "تقرب الی اللہ" کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ اسے اہم عبادات میں شمار کیا ہے بلکہ اسے اللہ کے راستے میں جہاد کرنے کے متشابہ قرار دیا ہے۔
اہل و عیال کی ضروریات پوری کرنے کے لیے محنت و مزدوری کرنا افضل ترین عبادت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
اور یہ کہ ہر انسان کے لیے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی اور یہ کہ بےشک اس کی کوشش عنقریب دیکھی جائے گی پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
( النجم:53 - آيات:39-41 )

اگر ہم اپنے اسلاف کی سنہری تاریخ کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ان کی زندگیاں جہدِ مسلسل اور سعئ پیہم سے عبارت ہیں۔ اسی وجہ سے انہوں نے ہر شعبۂ زندگی میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ ہمارے اسلاف نے زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں چھوڑا جس میں انہوں نے گراں قدر کارنامے انجام نہ دئے ہوں ۔۔۔۔
دعوتی ، تبلیغی ، علمی ، سائینسی ، سماجی ، سیاسی ، اقتصادی ، تصنیفی و تالیفی ۔۔۔۔
الغرض تمام شعبوں میں ایسے تابندہ نقوش چھوڑے جو رہتی دنیا تک سنہرے حروف سے لکھے جائیں گے۔

دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بح۔۔رِ ظلم۔۔ات میں دوڑا دئے گھوڑے ہم نے

آج اقوامِ عالم میں اگر ہمیں بھی عزت و احترام حاصل کرنا ہو تو پھر ہمیں بھی اپنے اسلاف کی طرح جدوجہد ، محنت ، جانفشانی اور انتھک کاوشیں کرنی ہوں گی ، آرام اور راحت کو ترک کرنا ہوگا اور میدانِ عمل میں آ کر اپنی صلاحیتوں کو تسلیم کرانا ہوگا کہ ۔۔۔ اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے ، پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے !!

نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کی گنبد پر
تو شاہین ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں


ماخوذ از مترجم : ابوسفیان سعید
 

arifkarim

معطل
اگر محنت اس فتنہ نظام سرمایہ داری کو مزید قائم کرنے کیلئے ہی کرنی ہے تو بہتر ہے فارغ ہی رہا جائے۔
 
Top