مصطفیٰ زیدی نوروز ۔۔۔ مصطفیٰ زیدی

شاہ حسین

محفلین
نوروز



شام کی مانگ سے افشاں کی لکیریں پھوٹیں
جشنِ نوروز میں دھرتی کے دریچے جاگے
سرخیاں چونک اُٹھیں ، تیرگیاں ڈوب گئیں
تم بھی جاگو کہ یہ اعلانِ سحر خواب نہیں


درد کا بوجھ بھی تھا ، بارشِ الزام بھی تھی
میرے دکھ درد کی ساتھی مری خوشیوں کی شریک
جُرعۂ شہر میں کچھ تلخی ایّام بھی تھی
پھر بھی ہم لوگ سویرے کی تمنّا لے کر
رات سے تلخی ایّام سے لڑتے ہی رہے
یوں تو اب بھی ہیں پر اسرار تمہاری آنکھیں
اب سے پہلے مگر ان آنکھوں می ہیجان بھی تھا
ساز کی لہر بھی تھی ، سوز کا طُوفان بھی تھا
اب مگر جھومتی گاتی ہوئی آنکھوں کا نصیب
ساز کی لہر تو ہے سوز کا طوفان نہیں
ریشمی ڈورے لچکتے ہیں بکھر جاتے ہیں
نیم خوابیدہ اُداسی ہے صبُحی پہ مُحیط
اوس کا ذائقہ ہونٹوں جما جاتا ہے
تشنگی اوس کے قطروں سے نہیں بجھ سکتی
جاگ بھی جاؤ کہ یہ نیم نگاہی بے سود
جاگ بھی جاؤ کہ سوتے ہوئے ہونٹوں پہ مجھے
جانے کیوں موت کا رہ رہ کہ خیال آتا ہے
ابدیت کے کئی راز بہت یکساں ہیں
حسن اور موت کے انداز بہت یکساں ہیں
جاگ بھی جاؤ کہ انسان کی قسمت میں نہیں
آج بھی وقت کو ہم ساز شبستاں کرنا
حُسنِ وِجدان کی تذلیل ہوا کرتے ہیں
گاأں جب شہر میں تبدیل ہوا کرتے ہیں
مُفلسی دھات کت سکّوں کو جنم دیتی ہے
زندگی موت کے چکلوں کو جنم دیتی ہے
روحیں تہذیب کے شعلوں سے کچل جاتی ہیں
کونپلیں ریل کے پہیوں میں کچل جاتی ہیں
قہقہے جلتے ہوئے گوشت کی بو دیتے ہیں
اسپتالوں کو جاثیم نمو دیتے ہیں
خون بھی ملتا ہے ہوٹل میں رگِ تاک کے ساتھ
عمداً زہر دیا جاتا ہے خوراک کے ساتھ
اُسی منڈی میں جہاں صاف کفن بکتا ہے
جنم بکتے ہیں ، ادب بکتا ہے ، فن بکتا ہے
شورشیں کرتی ہیں خاموش ہوا میں پرواز
بم گراتے ہیں اندھیرے میں فریقوں کے جہاز
زندگی گیس نگلتی ہے ، ہوا پھانکتی ہے
رشتے داروں کی نگاہوں سے ریا جھانکتی ہے
دل پہ ڈگری کا فسوں چلتا ہے تیروں کے عوض
دھڑکنیں دل کی مزاروں کو ضیا دیتی ہیں
عصمتیں ریشِ مقدّس کو دُعا دیتی ہیں
کون بن سکتا ہے سنسان کنؤں کا ہم راز
کون سنتا ہے سمندر میں رہَٹ کی آواز
کون سا کیف ہے دیہات کے رومانوں میں
کس کو لطف آئے گا چوپال کے افسانوں میں
کوئی بھی دولتِ لمحات نہیں کھو سکتا
کوئی بھی دار کے سائے میں نہیں سو سکتا
دار کی چھاؤں میں سوتے ہوئے ہونٹوں پہ مجھے
جانے کیوں موت کا رہ رہ کے خیال آتا ہے

یہ نہیں ہے مرے واسطے انجامِ حیات
اتنا پر ہول تصوّر ہے کہ میں ڈرتا ہوں

یہ نہیں ہے کہ مصائب سے ہراساں ہوکر
میں تخیّل کے طرب زار کا دم بھرتا ہوں
موت تو میرے لیے ایک تاثر ہے جسے
اک نہ اک راز ہم انسان دبا ہی لیں گے
اس دکھاوے کے تمدّن سے نکل کر اک روز
اپنے انجام کے اس راز کو پا ہی لیں گے

مجھ کو صرف یہ کہنا ہے کہ اس عالم میں
مجھ کو اک لمحۂ بیدار کی قوّت دے دو
مجھ کو سوتے ہوئے ہونٹوں پہ ترس آتا ہے
کوئی فنکار ، کوئی زندہ مصوّر ہرگز
حُسنِ خوابیدہ سے انکار نہیں کرسکتا
اور میں ! جس نے ان آنکھوں کی پرستش کی ہے
جس نے ان ہونٹوں کو انکار میں بھی پوجا ہے
کس طرح اپنے مقدّر کو بُرا کہ دوں گا ؟
تم کو اس کا بھی پتا ہے کہ وہ تہذیب جسے
میں نے ۡصبوں کی تباہی کا سبب سمجھا ہے
اپنے ہر نقص کے با وصف مری اپنی ہے
جن کو افراد نے تخریب بنا رکھا تھا
درحقیقت وہی تعمیر کی بنیاد بھی ہے
کوئی بھی مُلک تمدّن سے ہراساں ہو کر
اپنی فطرت کو نہ سمجھا نہ سمجھ سکتا ہے
کوئی بھی دیس سسکتا ہوا چرخہ لے کر
زیست کی جنگ میں ابھرا نہ ابھر سکتا ہے

لعنیتں یوں تو مشینوں کی بہت ہیں لیکن
لعنتیں صرف مشینوں سے نہیں اُگتی ہیں
اِن میں اُس مُلک کا بھی ہاتھ ہوا کرتا ہے
جس میں کچھ لوگ خود اپنی بقا کی خاطر
دُسرے لوگوں کے انفاس چُرا لیتے ہیں
اور اس دوڑ کی رفتار میں اندھے ہوکر
قحط پڑتا ہے تو کھلیان جلادیتے ہیں

چھین سکتا ہے ان افراد کی قوت جو نظام
صرف اُس میں ہی پھبک سکتے ہیں تیزی سے عوام
صرف اُس میں ہی اُگلتی نہیں لاوا تہذیب
صرف اُس میں ہی نکھرتے ہیں بہاروں کے نصیب
رقص ہوتا ہیں دیوانوں کی تلواروں کا
کرنیں مُنہ چومنے آتی ہیں سمن زاروں کا
ٹینک بڑھتے نہیں دامن تباہی لے کر
پُھول ہنس پڑتے ہیں دھیرے سے جماہی لے کر
بھائی اب زہر نہیں ڈھونڈتے بھائی کے لئے
دھارے مڑجاتے ہیں کھیتوں کی سنچائی کے لئے
ریت کے بطن سے ہوتے ہیں نظارے پیدا
سنگ کے سینے سے ہوتے ہیں شرارے پیدا
کارخنوںمیں تمدّن کو بقا ملتی ہے
چمنیاں زہر کے انبار اُگلتی بھی نہیں
گاؤں بھی شہر میں ہوجاتے ہین تبدیل مگر
روحیں تہذیب کے شعلوں سے پگھلتی بھی نہیں

میرے دکھ درد کی ساتھی مری خوشیوں کی شریک
شام کی مانگ سے افشاں کی لکیریں پھوٹیں
آؤ ہم لوگ بھی اک عزم سے اک ہمّت سے
اپنے بیتے ہوئے حالات کو ٹھکرا کے چلیں
اپنی فرسودہ روایات کو ٹھکرا کے چلیں
جشنِ نوروز کو گیتوں کی ضرورت ہو گی
آؤ ریت پہ وہ نقشِ قدم چھوڑ چلیں
جن کی آتی ہوئی نسلوں کو ضرورت ہوگی


مصطفیٰ زیدی

شہر آذر



34-40
 

فرخ منظور

لائبریرین

شاہ حسین

محفلین
وعلیکمُ اسّلام
جناب موجو سخنور صآحب نے بہت اچھی وضاحت فرمائی ہے امید ہے آپ کو تسلّی بخش جواب مل گیا ہوگا ۔

جناب سخنور صاحب اور جناب وارث صاحب پسند فرمانے کا بہت شکریہ ۔
 

علی فاروقی

محفلین
نَوروز،،،،، مصطفی زیدی

شام کی مانگ سے افشاں کی لکیریں پھو ٹیں
جشنِ نو روز میں دھرتی کے دریچے جاگے
سُر خیاں چونک اُٹھیں، تِیرگیاں ڈوب گیئں
تُم بھی جاگو کہ افق پر کہیں مہتاب نہیں
تُم بھی جاگو کہ یہ اعلانِ سحر خواب نہیں

درد کا بوجھ بھی تھا بارشِ الزام بھی تھی
میرے دُکھ درد کی ساتھِی ، میری خوشیوں کی شریک
جُرعہ ءِشہد میں کچھ تلخئ ایام بھی تھی
پھر بھی ہم لوگ سویرے کی تمنالے کر
رات سے تلخئ ءِ ایام سے لڑتے ہی رہے
یوں تو اب بھی ہیں پُر اسرار تمہاری آنکھیں
اب سے پہلے مگر ان آنکھوں میں ہیجان بھی تھا
ساز کی لہر بھی تھی سوز کا طوفان بھی تھا
اب مگر جھومتی گاتی ہوئ آنکھوں کا نصیب
ساز کی لہر تو ہے سوز کا طوفان نہیں
ریشمی ڈورے لپکتے ہیں بکھر جاتے ہیں
نِیم خُوابِیدَہ اُداسی ہے صُبو حی پہ مُحیط
اوس کا ذائقہ ہونٹوں پہ جما جاتاہے
تشنگی اُوس کے قطروں سے نہیں بجھ سکتی
جاگ بھی جاو کہ یہ نیم نگاہی بے سود
جاگ بھی جاو کہ سوتے ہوئے ہونٹوں پہ مجھے
جانے کیوں موت کا رہ رہ کے خیال آتاہے
اَبّدیّت کے کئ راز بہت یکساں ہیں
حُسن اور مُوت کے انداز بہت یکساں ہیں
جاگ بھی جاو کہ انسان کی قسمت میں نہیں
آج بھی وقت کو ہمسازِ شبستاں کرنا
حُسنِ وجدان کی تذلیل ہوا کرتے ہیں
گاوں جب شہر میں تبدیل ہوا کرتے ہیں
مُفلسی دھات کے سکوں کو جنم دیتی ہے
زندگی مُوت کے چکلوں کو جنم دیتی ہے
رُوحیں تہذیب کے شُعلوں سے پگھل جاتی ہیں
کُونپلیں ریل کے پہیوں میں کُچل جاتی ہیں
قُمقُمے جلتے ہوئے گوشت کی بُو دیتے ہیں
اسپتالوں کو جراثیم نمُو دیتے ہیں
خون بھی مِلتاہے ہوٹل میں رگِ تار کے ساتھ
عمداً زہر دیاجاتاہے خوراک کےے ساتھ
اُسی منڈی میں جہاں صاف کفن بکتاہے
جِسم بکتے ہیں، اَدب بکتاہے، فن بکتاہے
شورشیں کرتی ہیں خاموش فضا میں پرواز
بَم گِراتے ہیں اندھیرے میں فریقوں کے جہاز
زندگی گیس نگلتی ہے ہوا پھانکتی ہے
رشتے داروں کی نگاہوں سے رِیا جھانکتی ہے
دِل پہ ڈگری کا فسّوں چلتاہے، تیروں کے عوّض
چور بازار میں جو مِلتاہے ہیروں کے عوّض
دھڑکنیں دل کے مزاروں کو ضیا دیتی ہیں
عِصمتیں ریشِ مقّدس کو دُعادیتی ہیں
کون بن سکتاہے سنسان کُںوں کا ہمراز
کون سنتاہے سمندر میں رہٹ کی آواز
کون ساکیف ہے دیہات کے رومانوں میں
کس کو لطف آئے گا چوپال کے افسانوں میں
کوئ بھی دولتِ لمحات نہیں کھو سکتا
کوئ بھی دار کے سائے میں نہیں سو سکتا
دار کی چھاوں میں سوتے ہوئے ہونٹوں پہ مجھے
جانے کیوں موت کارہ رہ کے گماں ہوتاہے
یہ نہیں ہی کہ میرے واسطے انجامِ حیات
اتناپُر ہول تصّور ہے کہ میں ڈرتاہوں
یہ نہیں ہے کہ مصائب سے ہراساں ہوکر
میں تخیل کے طرب زارکا دَم بھرتاہوں
موت تو میرے لِئے ایک تاَ ثُر ہے جسے
اِک نہ اِک روز ہم انسان دَباہی لیں گے
اس دکھاوے کے تمدن سے ہراساں ہوکر
اپنے انجام کے اس راز کو پا ہی لیں گے
مجھ کو تو صرف یہ کہناہے کہ اس عالم میں
مجھ کو اِک لمحہ ءِ بیدار کی قُوت دےدو
مجھ کو سوتے ہوئے ہونٹوں پہ ترّس آتاہے
کوئ فنکار کوئ زندہ مصّور ہر گِز
حُسنِ خوابیدہ سے انکار نہیں کر سکتا
اور میں، جس نے ان آنکھوں کی پرستش کی ہے
جس نے ان ہونٹوں کو انکار میں بھی پُوجا ہے
کِس طرح اہنے مْقدر کو بُرا کہہ دوں گا
تم کو اس بھی کا پتہ ہے کہ وہ تہذیب جسے
میں نے قصبوں کی تباہی کا سبب سمجھا ہے
اپنے ہر نُقص کے باوَصف میر ی اپنی ہے
جس کو افراد نے تخریب بنارکھا تھا
در حقیقت وہی تعمیر کی بنیاد بھی ہے
کوئ بھی ملک تمدن سے ہراساں ہو کر
اپنی فطرت کو نہ سمجھا نہ سمجھ سکتاہے
کوئ بھی ملک سِسّکتاہوا چرخا لے کر
زیست کی جنگ میں اُبھرانہ اُبھرسکتاہے
لعنتیں یوں تو مشینوں کی بہت ہیں لیکن
لعنتیں صرف مشینوں سے نہیں اُگتی ہیں
اِن میں اُس ملک کا بھی ہاتھ ہوا کرتاہے
جس میں کچھ لوگ خود اپنی ہی قبا کی خاطر
دوسرے لوگوں کے انفاس چرالیتے ہیں
اور اس دوڑ کی رفتار میں اندھے ہو کر
قحط پڑتاہے تو کھلیان جلا دیتے ہیں

چھین سکتاہے ان افراد کی قوت جو نظام
صرف اس میں ہی پھبک سکتے ہیں تیزی سے عوام
صرف اُس میں ہی اُگلتی نہیں لاوا تہذیب
صرف اُس میں ہی نکھرتے ہیں بہا روں کے نصیب
رقص ہوتانہیں دیوانوں کی تلواروں کا
کِرنیں منہ چومنے آتی ہیں سَمن زاروں کا
ٹینک بڑھتے نہیں دامن میں تباہی لے کر
پھول ہنس پڑتے ہیں ، دھیرے سے جماہی لے کر
بھائ اب زہر نہیں ڈُھونڈتے بھائ کے لیئے
دھارے مُڑ جاتے ہیں کھیتوں کی سنچائ کے لیئے
ریت کے بطن سے ہوتے ہیں نظارے پیدا
سنگ کے سینے سے ہوتے ہیں شرارے پیدا
کارخانوں میں تمدن کو بقا مِلتی ہے
چمنیان زہر کے انبار اُگلتی بھی نہیں
گاوں بھی شہروں میں ہو جاتے ہیں تبدیل مگر
رُوحیں تہذیب کے شُعلوں سے پگھلتی بھی نہیں

میرے دکھ درد کی ساتھی میری خوشیوں کی شریک
شام کی مانگ سے افشاں کی لکیریں پھو ٹیں
آو ہم لوگ بھی اِک عزم سے اِک ہمت سے
اپنے بیتے ہوئَے حالات کو ٹھکرا کے چلیں
اپنی فرسودہ روایات کو ٹھکرا کے چلیں
جشنِ نو روز کو گیتوں کی ضرورت ہو گی
آو ہم ریت پہ وہ نقشِ قدم چھوڑ چلیں
جن کی آتی ہوئ نسلوں کو ضرورت ہو گی

 
Top