نم آنکھ

شعیب صفدر

محفلین
نم آنکھ سے ہر چیز دھندلی دیکھائی دیتی ہےخواہ یہ نمی کسی دکھ ،تکلیف، مایوسی ،درد،خوف یا خوشی کی بناء پرآئے جب سب دھندلا دیکھائی دے تو حقیقت کا ادراک ناممکن نہ بھی ہو دشوار ضرور ہوتا ہے جب تک یہ نمی آنسو کا روپ دھار کر بہہ نہ جائے اس وقت تک منظر صاف نہیں ہوتا ،بات سمجھ نہیں آتی،آنکھ چاہے بیرونی ہو یا اندرونی(دل کی)۔
 

منہاجین

محفلین
دستخط میں اِصلاح

آپ کے دستخط میں لنک ٹھیک طرح سے کام نہیں کر رہا، کیونکہ آپ اُس کا آغاز http سے کرنا بھول گئے ہیں۔ اسے ٹھیک کر لیں۔ :wink:
 

شعیب صفدر

محفلین
دستخط میں اِصلاح

منہاجین نے کہا:
آپ کے دستخط میں لنک ٹھیک طرح سے کام نہیں کر رہا، کیونکہ آپ اُس کا آغاز http سے کرنا بھول گئے ہیں۔ اسے ٹھیک کر لیں۔ :wink:
بہت شکریہ!
thankyou.gif
 

احمد محمد

محفلین
اچھی تحریر مگر راہنمائی کے لیے مزید وضاحت درکار ہوگی:

نمی جب تک بھی آنکھ میں رہے ضبط تو تصور ہوتا ہے، خواہ آنکھ چمک رہی ہو یا چھلکنے کے لیے بے تاب۔۔۔

اور جب نمی آنسو بن کر بہہ جائے تو گویا ضبط کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ بقول اطیب جازل:

اشک آنکھوں سے یہ کہہ کر نکلا
یہ تیرے ضبط کی حد ہے، حد ہے

اور جب ضبط نہ رہنے کے باعث آنسو بہہ جائیں اور دل کا بوجھ ہلکا ہو جائے یا تکلیف قدرے کم ہو جائے یا خوشی کا لطف ماند پڑ جائے اور جذبات و احساسات پھر سے قابو میں آ جائیں اور آنکھیں بھی خشک ہو جائیں۔۔۔

منظر تو واضع ہو ہی جاتا ہے۔۔۔

بات بھی سمجھ آنے لگتی ہے یا کم از کم سمجھ تو آ (لگ) ہی جاتی ہے۔۔ :D

حقیقت کا ادراک بھی بخوبی ہو جاتا ہے بالخصوص ان عناصر کی حقیقت تو بخوبی واضع ہو جاتی ہے۔ :)

اور انسان ایک بار پھر حالات سے سمجھوتہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ :)

مختصر یہ پوچھنا تھا کہ جب نمی آئے تو ضبط کا دامن فوری چھوڑ دینا چاہیے؟؟؟ :)
 
آخری تدوین:
Top